پاکستان میں ابھرنے والی تحریکات اور ان کی ناکامی کا تجزیہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • پاکستان میں ابھرنے والی تحریکات اور ان کی ناکامی کا تجزیہ

    اس مضمون میں پاکستان کی مختلف سماجی اور مذہبی تحریکات کی ناکامی کی وجوہات کا تیعن کر کے با شعور افراد کے لئے رہنما اصول اصول اخذ کئے گئے ہیں۔

    By نوید الحسن ملک Published on Jun 29, 2020 Views 2566

    پاکستان میں ابھرنے والی تحریکات اور ان کی ناکامی کا تجزیہ

    تحریر ؛ نوید الحسن ملک ۔ رحیم یار خان


    وطن عزیز میں مختلف زمانوں میں مختلف تحریکات مسحور کن نعروں کےساتھ ابھرتی رہی ہیں۔بہت سی تحریکیں ابھی بھی اپنے اغراض کے حصول کے لیے کوشاں ہیں ۔ ان میں مذہبی ،سیاسی پس منظر ، اورنسلی بنیادوں پر اٹھنے والی تحریکیں شامل ہیں ۔ماضی قریب میں معاشرتی انصاف ( Social Justice ) کے نام پر ایک نئی تحریک چلی ہے ۔یہ تحریکیں کتنی کامیاب اور کس حد تک عوام میں مقبول ہوئیں،لائق مطالعہ ہیں۔ 

    معاشرے کے باشعور افراد جو سوسائٹی میں ایک مثبت تبدیلی کےخواہاں ہیں،ان کے لیے ایسی تحریکات کا تجزیہ دلچسپی کا باعث ہوتا ہے۔ایسی جماعتوں کی ناکامی کی وجوہات زیربحث لانے سے نوجوان معاشرتی تبدیلی کی جدوجہد کو نتیجہ خیز بنانے کےلیے غوروفکر کر سکتے ہیں ۔

    " تحریکوں کی ناکامی کی وجوہات "

     دیکھا جائے تو بظاہر یہ تحریکیں ہمیشہ عوام کے حقوق کی بات کرتی ہیں :- 

    ▪️کوئی تحریک یہ نعرہ لگاتی ہے : خواتین کو معاشرے میں ان کا حق ملنا چاہیے -

     ▪️کوئی تحریک یہ کہتی ہے : فلاں پیشے سے وابستہ افراد کو مناسب سہولیات ملنی چاہییں ۔

     ▪️کچھ تحریکیں کسی خاص علاقے اور نسل سے وابستہ افراد کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کے خلاف آواز اٹھاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔جب کہ کچھ تحریکیں عمومی ناانصافی کے خلاف علم بلند کرتی ہیں۔عموما یہ نعرہ عوام کو متوجہ کرتاہے کیوں کہ یہ بات ہرایک کے ہان مسلمہ ہےکہ حق سب کو ملنا چاہیے۔اس لیےاس نعرے سے ان تحریکوں کومعاشرے میں عموما مقبولیت حاصل ہو جاتی ہے ۔

     مگر دیکھا گیا ہے کہ یہ نام نہاد تحریکات آخری نتیجےکےلحاظ سے عوام کو تقسیم کرنے اور لڑانے کا سبب بنتی ہیں ۔ عوام اپنے مسائل کی وجہ اپنے میں سے ہی کسی دوسرے کو ٹھہرانے لگتے ہیں۔ اس طرح یہ نعرہ عوام میں دھڑےبندی اور لڑائی پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں ۔ مثلا

    1 - عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والوں نے مرد کی بالادستی کو نشانہ بنایا ۔ 

     2 -  کسی ایک صوبے کی عوام کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا ذمہ دار کسی دوسرے صوبے کو ٹھہرایا گیا ۔ 

     3 - کسی ایک پیشے کے حق میں آواز اٹھانے والے جب یہ کہتے ہیں کہ فلاں پیشے سے تعلق رکھنے والے افراد کو زیادہ سہولیات فراہم کی جاتی ہیں تو اس سے بھی ان دو پیشوں سے وابستہ افراد میں تصادم کا امکان پیدا ہو جاتا ہے ۔ حالانکہ تمام طبقات کے حقوق کی فراہمی اور تحفظ کا ذمہ دار تو وہاں کا نظام ہوتا ہے جس نے اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ بلا تفریق رنگ ، نسل اور مذہب ہر فرد کو ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں ۔ 

     ہونا تو یہ چاہیے کہ عوام کے مختلف طبقات باہم متحد ہو کر اس فاسد نظام کے خلاف آواز اٹھائیں لیکن بد قسمتی سے ہوتا اس کے برعکس ہے ۔گویا ناانصافی کا اصل زمہ دارپس منظر میں چلاجاتاہےاور مظلوم عوام باہم دست وگریباں ہوجاتے ہیں۔

     اس کے علاوہ بعض تحریکات ایسی ہیں جو بظاہر لوگوں میں مقبول ہیں ، انہیں اجتماعات کرنے اور نقل وحرکت کی بھی مکمل آزادی ہے لیکن ایک طویل عرصے سےان کی چلت پھرت معاشرے میں مثبت نتائج پیدا نہیں کرپارہی ۔ جیسے مختلف اصلاحی تحریکیں اور غیر ریاستی تنظیمیں ( NGO"s ) ۔ 

    ایک گروہ ایسے مذہبی مبلغین کا بھی ہے جو سوشل میڈیا پر مقبول ہے اور بڑی تعداد میں ان کے پیروکار موجود ہیں ۔ یہ اصلاحی جماعتیں بڑے بڑے اجتماعات کرکے عوام میں اپنی  مقبولیت کی دھاک بٹھاتی ہیں۔ان اصلاحی جماعتوں اور مذہبی داعیین کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ قومی سطح کے ٹی وی چینل مذہبی رجحان نہ رکھنے کے باوجوداپنے پرائم ٹائم میں ان شخصیات کو سکرین کی زینت بناکر اپنے چینلوں کو عوام میں مقبولیت کا ذریعہ بناتے ہیں

    لیکن ان مذہبی داعیین کی تمام تر شہرت وعوامی پزیرائی کے باوجود عوامی مسائل حل کرنے میں کوئی مدد نہیں ملتی۔ معاشرےمیں اجتماعی اور انفرادی ظلم، ناانصافی ،حق تلفی، سفاکیت ،جھوٹ ، دھوکہ دہی اور طرح طرح کی برائیوں کاچلن بدستور جاری بلکہ بڑھتاجارہا ہے ۔اس سے نہ صرف باہمی بے اعتمادی کی فضاپروان چڑھتی ہے،بلکہ اس کے ساتھ مذہب بےزاری بھی جنم لیتی ہے۔

     حال ہی میں اس کا اعتراف ایک معروف مذہبی خطیب نے ٹی وی چینل پر کیا کہ معاشرے میں جھوٹ کا راج ہے اور تمام ٹی وی چینلز پر جھوٹ بولا جاتا ہے۔گویا کہ یہ "جھوٹ بولنے والے" چینلز خود ہی ان علماء کو اپنے چینلز پر بولنے کا بھرپور موقع دیتے ہیں۔جھوٹ کے اس کاروبار کو ان علماء کی تبلیغ سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ۔اس ضمن میں ایسے سکالرز کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا جو عالمی سطح کی مقبولیت کے حامل ہیں اور ان کے پاس اپنے نظریات کے ابلاغ کے لیے پروپیگنڈہ کی زبردست طاقت موجود ہے ۔ ان سکالرز کے اپنے ٹی وی چینلز بھی موجود ہیں اور اس کے علاوہ وہ عالمی سطح کے سیمینارز اور مباحثوں میں بھی مدعو کیے جاتے ہیں ۔ ان سکالرز کی یہ شہرت بیان کی جاتی ہےکہ ان سے متأثر ہو کر غیر مسلموں کی کثیر تعداد مسلمان ہوتی ہے ۔سوال یہ ہےکہ نئے لوگوں کے مسلمان ہونے سے غلبۂ دین کتنا ہورہاہے ؟ مظلوم پہ ہونے والے ظلم میں کیا فرق پڑ رہاہے ؟ممکنہ طور پہ نظام ظلم کو کیانقصان پہنچ سکتاہے؟ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی کس مہ پرسی ، سیاسی و معاشی زوال سے نکلنے کا کوئی منصوبہ ان سکالرز کی طرف سے سامنےنہیں آتا ۔

    اسی طرح غربت کو ختم کرنے کے لیے این جی اوز کی ایک بڑی تعداد کام کر رہی ہے لیکن معاشرے میں غربت ختم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی جا رہی ہے ۔ World Giving Index کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ خیرات دینے والے ، اجنبیوں کی مدد اور رضاکارانہ کام کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے لیکن اس کے با وجود تمام سرکاری اور عالمی اعداد و شماریہ خبر دیتے ہیں کہ پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد ایسے ممالک کی نسبت زیادہ ہے جو World Giving Index میں پاکستان سے نیچے ہیں ۔ اس کی مثال 2018 کا World Giving Index ہے جس میں پاکستان کا نمبر 92 جب کہ چائنہ کانمبر 142 ہے۔ لیکن عمومی خوش حالی کا موازنہ کیا جائے تو پاکستان چائنہ سے بہت پیچھے کھڑا نظر آتا ہے ۔

    یہ تمام مثالیں معاشرے کے ان باشعور افراد کوجو معاشرے  کی از سر نو تعمیر کر کے اسے ایک ترقی پذیر معاشرے میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں ،  نتائج اخذ کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں ۔ 

    " مذکورہ بالا بحث کے نتائج "

    1۔ تحریک کی بنیاد زبان ، نسل ، مذہب ، جنس اور کسی بھی محدود طبقے کے بجائے عام انسانیت کے حقوق ہونے چاہییں ۔ 

    2 - معاشرے کے مختلف طبقات کو آپس میں لڑانے والے نظام کو پہچانے اور سمجھے بغیر جو بھی تحریک کسی ایک خاص طبقے کے حقوق کے لیے اٹھے گی ، وہ نا انصافی کو ختم کرنے کے بجائے نا انصافی کا شکار ہونے والے طبقات میں مزید تقسیم اور تناؤ کا باعث بنے گی ۔ 

    بلکہ ایسی تحریکات میں نظام کے نمائندے منصوبہ بندی کے ساتھ خود شامل ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ظلم پیدا کرنے والا نظام تو اپنی جگہ پر موجود اور محفوظ رہتا ہے جبکہ مظلوم طبقے آپس میں ہی لڑتے رہ جاتے ہیں ۔

    3- کسی بھی تحریک کو مؤثر بنانے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ محض کسی شخصیت کی مقبولیت کو بنیاد بنا کر لوگوں کو اکٹھا نہ کیا جائے بلکہ ایک منظم تربیتی نظام تشکیل دیا جائے جس سے جماعت کے ہر فرد کو گزارا جائے ۔ ٹی وی پر کی گئی جوشیلی تقریریں، کہانی نمادلچسپ واقعات سنائےجانے ، جذبات سے بھرپور ، اور رلا دینے والی تقاریر ، دلائل اور حوالہ جات سے بھرپور مقالےمحدود دائرے میں ایک خاص اثر پیدا کر سکتے ہیں لیکن اس سب کےساتھ اگر تربیتی نظام نہیں تو یہ محض اپنے پرستاروں ( fan following )کی تعداد میں اضافہ ہے ،یا ان سے نظام ظلم کی عمر کوطول تو مل سکتاہے لیکن اس سے معاشرے میں کوئی عملی تبدیلی پیدانہیں کی جاسکتی۔انسانی معاشرے کی تبدیلی عملی سائنس ہے جسے سیکھنے کی ضرورت ہے مگر سیکھنے کا عمل دو طرفہ ہوتا ہے جس میں سیکھنے والا سوالات کے ذریعے نظریات پر رسوخ پاتا ہے اور عملی طور پر انہیں نافذ کرنے کا عزم کرتا ہے ۔اس ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدو جہد اساسی اصول متعین کرتی ہے کہ دار ارقم میں تربیت پانے والی جماعت کے ذریعےسماجی تشکیل کا نیا نظام مدینہ منورہ میں نافذ ہوا ۔

    4 - غلط نظام کو تبدیل کر کے اس کی جگہ درست نظام لانا ہی مستقل نتائج پیدا کر سکتا ہے ۔ غلط نظام کے موجود ہوتے ہوئے اگر یہ کوشش کی جائے کہ معاشرے سے غربت ختم ہو جائے یا لوگ تعلیم یافتہ ہو جائیں تو اس سے مثبت نتائج کےحصول کے بجائے مایوسی جنم لیتی ہے اورنوجوانوں کی کوششیں رائیگاں چلی جاتی ہیں ۔

     اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ درست نظام کی بنیادیں کیا ہوں گی؟ غلط نظام کو کیسے ختم کیا جائے گا اور اس کی جگہ نیا نظام کیسے قائم ہوگا؟ اس سلسلے میں کیا کیا چیلنجز درپیش ہو سکتے ہیں اور تاریخ اس سلسلے میں ہمیں کیا سکھاتی ہے؟

    انھیں باتوں کو سمجھنے ، سیکھنے اور ان کے تقاضوں کے مطابق افراد تیار کرنے کے لیے ایسا تربیتی نظام درکار ہے جوموجود نظام کی خرابیوں کوواضح کرے،اس کا متبادل پیش کرے اور معاشرتی تبدیلی کی تکنیک کو سمجھنے اور اس کے تقاضوں کے مطابق تربیت کرنے کا دستور العمل دے۔

    اسی راہ پہ چل کر اقوام نے اپنے حالات بدلے ہیں۔ورنہ سب کہانیاں ہیں بابا۔

    Share via Whatsapp