قومی مسائل کابنیادی سبب اور حل کی حکمت عملی - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • قومی مسائل کابنیادی سبب اور حل کی حکمت عملی

    حال اور ماضی کے حالات کی مدد سے آزاد اور غلام قوموں کی پہچان حاصل کرنا.

    By محمد ارباز Published on Jun 24, 2020 Views 1883
    قومی مسائل کابنیادی سبب اور  حل کی حکمت عملی
    محمد ارباز۔ گوجرانوالہ

    تاریخ گواہ ہے کہ انسان کبھی قدرتی تو کبھی مصنوعی مشکلات کا شکار رہا ہے. یہ مشکلات  انفرادی بھی ہوسکتی ہیں اور اجتماعی بھی. جیسےانفرادی مشکلات کا سامنا صرف باہمت انسان ہی کرتا ہے اور کسی بھی مسئلے سے نکلنے کےلیے اپنی پوری دماغی حکمت اور جسمانی توانائیوں کو استعمال میں لا کر ہی کامیاب ہوتا ہے. اسی طرح کوئی قوم کسی مشکل،مسئلے یا وبا کا شکار ہو جائے تو  وہ بھی اس مشکل سے نکل سکتی ہے بشرطیکہ وہ اپنے قومی ذھن کا اجتماعی حکمتِ عملی سے درست استعمال کرے اور قومی وسائل کو قومی مفادات کےلیے  استعمال کرے۔اور ایسا تب ہی ممکن ہوتا ہے جب کسی ملک کا نظام انسان دوستی کی بنیاد پر قائم ہو۔ نہ کہ سرمایہ پرستی پر۔ 
    سب سے اہم بات سمجھنے کی یہ ہے کہ مشکلات میں ہی کسی شخص یا قوم کی ذہنی حالت اور زورِ بازو کا پتہ چلتا ہے۔ آج دنیا جس وبا کا شکار ہے اس سے قطع نظر کہ یہ وبا حقیقی ہے یا مصنوعی ؟ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جن ملکوں کو اس وبا کا سامنا کرنا پڑا ان کے مقابلے کا انداز کیا رہا. یہ وہ کسوٹی ہے جس پر ہم کسی بھی آزاد یا غلام قوم کا تجزیہ کر سکتے ہیں. 
    دسمبر 2019 کو چین کے شہر ووہان میں کورونا کا پہلا مریض آیا. اور 2 اپریل 2020 تک چین میں مریضوں کی تعداد اکیاسی ہزار تھی۔جبکہ صحتیاب ہونے والے افراد کی تعداد چھہتر ہزار ہو گئی تھی اور نئے کیسیز کی تعداد میں واضح کمی آئی۔انہوں نے اس وبا کا مقابلہ انتہائی جرأت اور بہادری سے کیا اور اپنےقومی ڈسپلن کا مظاہرہ کیا۔وہاں کی لیڈرشپ نے درست فیصلے کیےاور عوام نے ان فیصلوں پر شاندار عملدرآمد کرکے اس قومی مسئلے سے منظم جدوجہد کے ذریعے نجات حاصل کی۔ اور اس مصنوعی وبا کو شکست دی آج چین دوسرے ممالک کی مدد کرتا ہوا نظر آتا ہے اور اپنا بین الاقوامی کردار ادا کر رہا ہے. 
     15 جون 2020 تک وطنِ عزیز میں کورونا کے مریضوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے اور صحتیاب ہونے والے افراد کی تعداد پچاس ہزار سے اوپر  ہے اور پورے ملک میں لاک ڈاؤن کی صورتحال ہے لیڈر شپ کی فیصلہ سازی پر سوالات اٹھ رہے ہیں اور عوام کا ان فیصلہ جات پر اعتماد بہت کم نظر آ رہا ہے۔آج ہمارے لیے اس وبا میں سیکھنے کےلیے بہت کچھ ہے ہمیں اندازہ ہو گیاہے کہ ہماری عوام کی ذہنی سطح کیا ہے اور قومی تربیت کا معیار کیا ھے؟ کسی بھی مشکل یا آفت کا مقابلہ صرف اور صرف منظم قومیں کیا کرتی ہیں یہ کسی بھی ہجوم کے بس کی بات نہیں ہوتی چاہے وہ ہجوم کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔اور اگر کوئی قوم اپنے اندرونی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تو ہم اس سے کسی بھی طرح کے بین الاقوامی کردار کی کیا توقع رکھ سکتے ہیں.  
    آج بدقسمتی سے پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جواس وبائی صورتحال میں بد ترین معاشی بحران کا شکار ہیں اس کی وجہ  سرمایہ دارانہ نظام کا غالب ہونا ہے۔اور ریاست کی پالیسیز کا عوام الناس کے حقوق پورے کرنے کی سوچ و فکر سے عاری ہونا ہے۔ 
    سوسائٹی میں بھوک و افلاس کی وجہ وسائل میں کمی نہیں بلکہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔
    یہ بات سمجھنا بہت اہم ہےکہ آج ہماری معاشی بد حالی کا سبب نہ تو یہ وبا ہے اور نہ ہی دنیا کی منڈیوں کا بند ہونا.اس کی سب سے بڑی وجہ وہ سرمایہ دارانہ سسٹم ہے جو دہائیوں سے اس ملکِ پاکستان پر مسلط ہے۔چین پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد آزاد ہوا۔دستیاب معلومات کےمطابق اُس وقت چین کے زرمبادلہ کے ذخائر 1.57ملین ڈالرز کے تھے جبکہ پاکستان کے ذخائر نہ ہونے کے برابر تھے۔آج چین دنیا کا سب سے بڑا صنعتی ملک، سب سے بڑا کارگو ٹریڈینگ ملک اور سب سے زیادہ زرمبادلہ ذخیرہ رکھنے والا ملک ہے۔آج دنیا کی 36 ہزار کثیرالقومی کمپنیاں چین میں دفاتر بنانے پر مجبور ہیں مگر دوسری طرف ملکِ پاکستان میں قرضوں کا بوجھ اور ہر آنے والے دن کے ساتھ بے روزگاری میں اضافہ ہمارے غلامی کے اس نظام میں جکڑے ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔اور ہماری ذہنی، معاشی اور معاشرتی غلامی کی سب سے بڑی وجہ یہی سرمایہ دارانہ نظام ہے. 
    آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی اس غلامی کو پہچانیں اس کے خلاف اپنی جدوجہد کو تیز کریں اپنے قومی شعور کوبلند کریں اورایک اعلیٰ نظام قائم کریں،تاکہ ہم اس ہجوم کو قوم میں بدل سکیں اور مستقبل میں آنے والے چیلنجز کا سامنا ایک منظم قوم کی صورت میں کر سکیں اور بین الاقوامی سطح پر اپنا ایک مقام بنانے میں کامیاب ہوں. ان شاءاللہ
    Share via Whatsapp