مزدور کا استحصال اورمال ناحق
اس آڑٹیکل میں ان معاملاتِ کی نشان دہی کی گئی ہے جن کی وجہ سے مزدوروں کا مال ناحق طور پر کھایا جاتا ہے اور اس طرح مزدوروں کا معاشی قتل کیا جاتاہے۔
مزدور کا استحصال اورمال ناحق
تحریر :عمیر ظفر راولپنڈی
عام طور پر ہمارےہاں یہ تصور ہے کہ مال ناحق سے مراد صرف چوری،ڈاکہ وغیرہ ہیں ۔ جبکہ دیگربہت سے معاملات بھی مال ناحق کھانے کے زمرے میں آتے ہیں لیکن اجتماعی سوچ کا فقدا ن ہونے کے سبب اسے انفرادی مسئلہ سمجھ کر اس پر توجہ نہیں دی جاتی۔ قرآن حکیم میں ہے:
اور ایک دوسرے کے مال آپس میں ناجائز طور پر نہ کھاؤ اور انہیں حاکموں تک نہ پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ گناہ سے کھا جاؤ حالانکہ تم جانتے ہو (سورۃ البقرۃ:188)
یعنی ایک دوسرے کا مال ناحق کھانے کے لیے حکام تک رسائی حاصل نہ کرو۔ ایسا ہی معاملہ مزدوروں کے مال ناحق کھانے کا ہے جس کے ذریعیے اس طبقہ کا معاشی استحصال کیا جاتاہے۔کسی بھی کمپنی یا مِل میں سے جو منافع حاصل ہوتا ہے وہ درحقیقت اس مِل کے مزدوروں کی محنت کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔یعنی اگر مزدور کسی سرمایہ دار کے سرمایہ پر محنت نہ کریں تو اس میں کسی قسم کا کوئی بھی قدر زائد پیدا نہیں ہو گا۔لیکن ہمارے ہاں یہ نظام قائم ہے کہ سرمایہ دار مزدور کو کم سے کم مزدوری پر راضی کرتے ہیں۔مزدور چونکہ کمزور ہوتا ہے اور اس کو اور کہیں سے اس سے زیادہ مزدوری ملنی بھی نہیں تو وہ بے بس کم مزدوری پر بھی راضی ہوجاتا ہے۔اس پرہمارے مل مالکان اور صنعت کار یا ٹھیکدار یہ دلیل دیتے ہیں کہ وہ مزدور خود اس مزدوری پر کام کرنے پر راضی ہوا۔ امام شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں کہ "اگر ایک مزدور معاشی پریشانیوں کی وجہ سے ایسا بوجھ اٹھانے پر راضی ہو جائے جو پورا کرنے کی اس میں طاقت نہیں تو اس کی وہ رضامندی حقیقی رضا مندی نہیں"
مجبوری کی حالت میں کیا گیا معاہدہ حقیقی رضا مندی نہیں۔پھر ایک سرمایہ دار کی طاقت کےمقابل ایک مزدود کی کیا حیثیت ہے؟چنانچہ عام طور پر مزدورکی جو اجرت طے کی جاتی ہے وہ بہت قلیل ہوتی ہے۔منافع کا بڑا حصہ چند سرمایہ داروں کی تجوریوں میں جاتاہے۔اس کا بہت معمولی حصہ محنت کش مزدوروں کی جیب تک پہنچتا ہے۔ کیایہ طرزِ عمل نا حق مال کھانے کے زمرے میں نہیں آتا؟
اس کے متعلق رسول اللہﷺ کے چند ارشادات گرامی یہ ہیں؛
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ تین قسم کے انسانوں سے میں قیامت کے دن خود مدعی بنوں گااور جن سے میں جھگڑوں گا ان کو مغلوب و مقہور کر کے ہی چھوڑوں گا،ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو مزدور سے کام تو پوری طرح لیتا ہے مگر اس کے مناسب اس کی اجرت نہیں دیتا۔آپﷺ کی ایک حدیث ہے :
مزدور کی مزدوری اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔
گویا مزدور کو اس کی محنت کی صحیح مزدوری نہ دینا ایک بہت بڑا جرم ہے۔
"آزاد مسابقت" (Free Competition) میں ایک کمپنی دوسری کمپنی سے مقابلہ کرتی ہے اور "ہر طاقت ور مچھلی کمزور مچھلی کو کھا جاتی ہے" کےمصداق چھوٹی کمپنیاں دب جاتی ہیں اور یہاں تک کہ ان کا وجود ختم ہو جاتا ہے اور اس طرح چند کمپنیوں کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے۔جس وجہ سے بہت سے مزدور بے روزگار ہو جاتے ہیں اور سرمایہ داروں کو سستی لیبر میسر ہو جاتی ہے۔یو ں ایک انجینئرڈ طریقے سے مزدوروں کو بے روزگار کیا جاتا ہے۔ اورمزدوروں کی بہتات کرکے انہیں کم سے کم اجرت پر راضی کرلیا جاتا ہے ۔ان آزاد مزدوروں کے بچوں کی تعلیم اور صحت کے اخراجات بھی ریاست نہیں اٹھاتی اور بے یارو مدد گار مزدور طبقہ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے زیادہ سے زیادہ کمانے کی فکر میں رہتا ہے ۔(عام طور پر)وہ مزدوری کی خاطر مہینوں اپنے گھر سے دور رہنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس حال میں مزدور کو اپنی اخلاقی تربیت کا موقع ملتا ہے نہ اپنے عیال کی ۔ وہ اخروی سعادت کی طرف بھی متوجہ نہیں ہوپاتا ۔اس پر حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں کہ "مزدور کو اپنے کام کے اوقات میں سے اپنی اخلاقی تربیت اور اصلاح احوال کے لیے مہلت ملنی چاہیے" ۔یعنی اسلام پسماندہ طبقے کے حقوق کا محافظ ہے اور اس طرح کے کسی ظلم کو قطعاً اجازت نہیں دیتا۔
ان واضح دینی تعلیمات کی روشنی کے باوجود اب سوال یہ ہے کہ ہماری حکومتیں اس حوالے سے کیوں خاموش ہیں؟دراصل سرمایہ درانہ نظام میں وہی طبقہ حکومت بناتا ہے جو سرمایہ داروں کا وفادار ہوتاہے اور ان کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں جاگیر دار ،سرمایہ داروں کی ملی جلی معیشت(Mixed Economy) کا تصور ہےجہاں ذہنیت جاگیرداریت سے اوپر نہیں اٹھ سکی اور وہ مزدوروں کی کسی اجتماعیت کو بھی برداشت نہیں کرتے ۔یہی طبقہ Electableکہلاتا ہے۔اقتدار پر مسلط یہ طبقہ کبھی ایسے قوانین نہیں بننے دیتا جو مزدوروں کے مفادات کا تحفظ کرے۔کیونکہ مزدور کی زیادہ اجرت سرمایہ داروں کے نظریہ بچت کے خلاف ہے۔اس کاواحد حل یہی ہے کہ معاشرے میں دینی تعلیمات کی اساس پر باطل نظریہ کے خلاف مزاحمتی شعور پیدا کیا جائے۔سرمایہ داری نظام کو ختم کرکے محنت کی اساس پر عادلانہ نظا م کو تشکیل دیا جائے۔