جعلی اشیاء خوراک اور انسانی صحتِ عامہ
انسان کی غذائئ اجناس کا مکمل خالص ہونا اور جراثیم سے پاک ہونا اس کی بہتر صحت کیلئے نہائت ضروری ہے تا کہ انسان مختلف بیماریوں سے بچا رہے۔
جعلی اشیاء خوراک اور
انسانی صحتِ عامہ
تحریر: شیرافضل خان،
کراچی
انسانیت کے معاشرتی
ارتقاء کااگر تاریخی جائزہ لیا جائے تو شاید انسان نے پوری تاریخِ انسانی میں اتنی
تیزرفتاری سے ترقی نہ کی ہو جتنی کہ اس نے پہیے اور مشین کی ایجاد کے بعد سے
لے کر اب تک کی ہے۔ سائنسی علوم و فنون کی اسی ترقی کی بدولت صدیوں کا سفر سمٹ کر
سالوں اور سالوں کا سفر سمٹ کر مہینوں میں اور دنوں تک آگیا ہے۔یہ اسی عمل کانتیجہ
ہے کہ انسان اپنے رہن سہن کے طریقوں میں جدّت لایا، تعلیم کے شعبے میں نت نئے علوم
متعارف کروائے ، ایسی مشینیں ایجاد کیں جن کے ذریعے سے زراعت کے شعبے کو ترقی
بخشی،صحت کے شعبے میں خاطر خواہ جدّت لا کر موذی بیماریوں کا علاج ممکن بنایا،اسی
طرح زمین کی تہہ میں موجودمعدنیات اور خزانوں کو ڈھونڈ نکالا اور زمین کی فضاء سے
باہر نکل کر کائنات میں موجود ستارے،
سیارے اور کہکشاؤں کے
متعلق مزید معلومات حاصل کیں۔الغرض انسانی فطرت ،کہ جو حب جمال اور مادۂ ایجاد و
تقلید جیسے اوصاف پر مشتمل ہے ،کی وجہ سے انسان نے یہ ترقی کی اور یہ سفر ہمیشہ
جاری وساری رہنا ہے۔
اب چونکہ ترقی کا
یہ عمل انسانی زندگی کے ہر پہلو کو متأثر کررہا ہےبالخصوص انسانی ضروریات ِزندگی
اور اس کی تکمیل کے طریقہ ہائے کار میں تو یوں سمجھیے کہ ایک انقلاب سا آگیا
ہے۔یوں تو انسانی ضرورتوں کی فہرست بہت طویل ہے لیکن ان میں سب سے اہم انسانوں کی
غذائی ضروریات ہیں۔اس اعتبار سےخالص،صاف اور صحت بخش غذا انسانی زندگی کی بقا اور
نشووارتقاء کے لیےلازمی ہےاور اس میں کسی بھی قسم کی ملاوٹ اور نقص انسانی صحت کے
لیے تباہ کن ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انسانی ترقی و جدّت کے اثرات کا معیار
یہ ہوتا کہ ہر شعبۂ زندگی، بشمول انسانی غذائی ضروریات کے،انسانی مفاد اور مجموعی
ترقی کے پیش نظرسماجی نظم و نسق تشکیل دیاجاتامگر جب سے دنیا میں سرمایہ دارانہ
نظام غالب ہوا اور دیوہیکل ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری قائم ہوئی اس سے
زندگی کے تمام شعبوں پر بدترین اثرات مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کے
لیے بھی بہت سے مصائب و آلام پیدا ہوئے ہیں بلکہ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت
انسانوں کو بیمارکرنا، ملکوں اورقوموں کے "حکمرانوں" اور
"مسیحاؤں" کےذریعے فارماسوٹیکل کمپنیوں کے لیے صارف مارکیٹ تیار کرنا
آج ایک بہت بڑی عالمی صنعت کا درجہ اختیار کرچکا ہے اور اس راستے سے انسانی جانوں
کے ساتھ" کھلواڑ "کے ذریعے قتل انسانیت کا مکروہ دھندہ زوروشور سے جاری ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ
سرمایہ داری نظام کابنیادی مقصد ہی معاشرے میں صرف اور صرف سرمائے کی بالادستی
قائم کرنا ہوتا ہےیہی وجہ ہے کہ سرمائے کے دیوتا کے پجاریوں نےگزشتہ تین صدیوں سے
سرمائے کے حصول اور تحفظ کے لیے انسانیت کی ہر قدر کو بے دریغ پامال کیااور آج
دنیا کی پِسی ہوئی انسانیت سرمایہ داروں اور عالمی مافیاز کے درندہ صفت اور
انسانیت دشمن اقدامات کا ناقابلِ تردید ثبوت پیش کررہی ہے ۔اس لیے دنیا بھر میں
جہاں بھی سرمایہ دارانہ نطام کا تسلط ہے وہ معاشرے مختلف انسانی المیوں سے دوچار
ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس
ظالمانہ نظام کے تسلط کے نتیجے میں ان غذائی اشیاء بنانے والی کمپنیوں کو بھی حصول
نفع کے لیے غذائی اجناس اور انسان کی غذا سے متعلقہ اشیاء میں ملاوٹ کرکے مارکیٹ
میں فروخت کرنے کی مکمل چھوٹ حاصل ہے اور پھران مضرِصحت اشیاء کے استعمال سے دنیا
میں ہر سال لاکھوں افراد مختلف بیماریوں کا شکار ہوکر مر جاتے ہیں ۔اسی طرح تیسری
دنیا کے ممالک میں ایسا کوئی میکنزم سرے سے موجود ہی نہیں جس میں ان اشیاء کو
باقاعدہ حفظان صحت کےاصولوں کے مطابق جانچا اور پرکھا جائے۔اور پھر ان چیزوں کی
قیمتوں کا جائزہ لینے کا کوئی مناسب طریقہ کاروضع نہیں کیا جاتا ہے کہ کہیں ان تیار
کردہ اشیاء کی قیمتیں عوام کی جیب پر ڈاکہ تو نہیں ڈال رہیں اور نہ ہی انھیں
مارکیٹ تک رسائی دینے کا کوئی پراسیس موجود ہوتا ہےکہ جس سے اس بات کا تعین کیا
جاسکے کہ آیا یہ اشیاء واقعی انسانی ضرورت سے تعلق رکھتی ہیں یا محض اشتہار بازی
کے ذریعے "مصنوعی طلب" پیدا کر کے "سپلائی " کی جارہی ہیں اور
اگر کہیں ہمارے جیسے ملکوں میں کوئی ادارہ بن بھی جاتا ہے تو وہ بھی نظام کی خرابی
کی بدولت مطلوبہ نتائج دینے سے قاصر ہوتا ہے اور بعض اوقات تو ہمارے متعلقہ اداروں
کے بااختیار افسران ،چند روپوں کی مہنگی اشیاء بیچنے والےمعمولی دکانداروں
اور ریڑھی بانوں پرتو " بجلی بن کر گرتے ہیں" لیکن "مافیاز کی تیار
کردہ برانڈڈ اشیاء" کے ذریعے کی جانے والی لوٹ کھسوٹ سے ایسے کنی کترا
کر گزر جاتے ہیں کہ جیسے ہمارے ہاں ان چیزوں کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس
طرح کی کمپنیاں مضر اور غیر ضروری اشیاءفروخت کرکے انسانی صحت کی تباہی اور معاشرے
کی بربادی کے نتیجے میں خوب دولت اکھٹی کرتی ہیں اور یہ دولت ملکی ترقی میں کردار
ادا کرنے کے بجائےانہی مخصوص مافیاز کی ہوس زر کی تسکین کا ذریعہ بنتی ہے۔اس
معاملے میں ایک حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ مارکیٹ میں وہ اشیاء بھی دھڑلے سے
فروخت ہورہی ہوتی ہیں کہ جن میں سے بعض کے مینوفیکچرر خود ان اشیاء کے مضرصحت
ہونےکااعتراف کرتے ہیں یا کم از کم شعبہ صحت کے ماہرین ان کے استعمال کو
مفید نہیں سمجھتے ،
ان میں نشہ آور اشیاء،
انرجی ڈرنکس کے نام پر مشروبات، کیمیکل ملے فوڈ آئٹمز، فاسٹ فوڈ یا مصنوعی طور پر
تیاراور محفوظ کردہ غذائی اشیاء وغیرہ شامل ہیں۔
ان مضر صحت غذائی اشیاء
کے استعمال سے پوری دنیا کے انسانوں کی صحت خطرے میں ہے اور بالخصوص تیسری دنیا کے
ممالک کی عوام کوتو صحت عامہ کے حوالے سے کافی مسائل درپیش ہیں جن میں خاص طور پر
جِلد، گردوں، دل کی بیماریاں، کینسر اور نہ جانے کون کون سے امراض روزبروز جنم لے
رہے ہیں خصوصاً بچوں کی کھانے کے حوالے سے بےشمار ایسی اشیاء مارکیٹ میں بیچی جاتی
ہیں جو کہ ان کی صحت کےلیےزہرِقاتل ہوتی ہیں۔ وطن عزیز میں آئے روز یہ خبر یں
ضرورسننے کوملتی ہیں کہ فلاں کمپنی مضر صحت اشیاء بنا رہی ہے کبھی کبھار اس پر
اداروں کی جانب سے چھاپے کی صورت میں سیل کرنے کی خوشخبریاں بھی سنائی جاتی ہیں
لیکن ایک مؤثر اورانسانیت پرور نظام نہ ہونے کی وجہ سے وہی ڈھاک کے تین پات، کہ
معاملہ جوں کا توں رہتا ہے۔
اب تو ان جعلی اشیاء کی
مینوفیچرنگ اور ملاوٹ کا دنیا میں باقاعدہ ایک نظام وجود میں آچکا ہےاور اس پر
کنٹرول حاصل کرناانسانیت لے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ اس لیے ایک طرف تو
ان چیزوں کے استعمال کی وجہ سے عوام اپنے جسم میں پیدا ہونی والی ان بیماریوں کی
اذیت سے دوچار ہیں تو دوسری طرف سرمایہ داری نظام کے سائے میں پلنے والا ظالمانہ
نظام صحت ، ان بیماریوں کے علاج کے نام پر جو بھاری اخراجات ان کی جیبوں سے وصول
کرتا ہے، اس نے ان کا جینا مزیددوبھر کررکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عام لوگ نہ تو
اپنی سماجی زندگی بہتر طورگزارنے کےقابل ہوتے ہیں اور نہ ہی اس ذہنی اور معاشی
اذیت کی وجہ سے انھیں اپنی اخلاقی درستی کےمواقع دستیاب ہوتے ہیں چہ جائیکہ یہ
لوگ قومی اور اجتماعی ترقی میں اپنا کوئی کردار ادا کرسکیں۔
تاریخ انسانی شاہد ہے
کہ جب بھی سماج پر سرمایہ پرست اور انسانیت دشمن افراد اور گروہ مسلط ہو جاتے ہیں
، تو ان کے اس تسلط کو توڑے بغیر سوسائٹی کی بہتری کی کوئی صورت پیدا نہیں ہو
سکتی۔اس لیے آج کا سب سے بڑا تقاضایہ ہے اس سرمایہ داری نظام کو توڑا جائے تاکہ اس
کی کوکھ سے جنم لینے والے تمام مسائل، جن میں سے صرف ایک پہلو کا تذکرہ ہم نے اس
تحریر میں کیا ہے، کا خاتمہ ہو سکے اوراس کی جگہ انسانیت دوستی کی فکر پر
مبنی عادلانہ نظام قائم کیا جائے تاکہ انسانیت صحیح معنوں میں سائنسی و
مشینی ارتقاءکے ثمرات کو سمیٹتے ہوئے حقیقی ترقی کی راہوں پر گامزن ہو سکے۔