تقدس کی بنا پر حقوق سے محرومی اور حقائق سے پردہ پوشی - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • تقدس کی بنا پر حقوق سے محرومی اور حقائق سے پردہ پوشی

    جب کوئی قوم ایک لمبے عرصے تک غلام رہتی ہے تو اس کی نفسیات بدل جاتی ہیں۔ اس قوم کی ڈکشنری میں الفاظ اپنے معنی بدل لیتے ہیں۔تعبیریں بدل جاتی ہیں

    By محمد نواز خاں Published on Jun 02, 2020 Views 1620

    تقدس کی بنا پر حقوق سے محرومی اور حقائق سے پردہ پوشی 

    تحریر : انجینئر محمد نواز خاں ، لاہور


    جب کوئی قوم ایک لمبے عرصے تک غلام رہتی ہے تو اس کی نفسیات بدل جاتی ہیں ۔ اس قوم کی لغت میں الفاظ اپنے معنی بدل لیتے ہیں۔ ان الفاظ کی تعبیریں بدل جاتی ہیں۔ قرآن حکیم نے قوم موسیٰ کا نفسیاتی تجزیہ پیش کیا ہے کہ کس طرح ایک لمبے عرصہ تک غلامی میں رہنے کی وجہ سے اس قوم کے عقل و شعور میں کمی آ گئی تھی۔ غلامی  میں عوام کی حالت جانوروں سے بد تر ہوجاتی ہے۔ اشرافیہ اپنے مفادات کے لیے عوام کا فکری ، سیاسی اورمعاشی استحصال کرتے ہیں۔

     آٹھ سو سال کی شان دار تاریخ کےبعد ہندوستان، انگریزسامراج کی ہوس کا شکار ہوا۔ معاشی حوالے سے دنیا کی سپر پاور اور سونےکی چڑیا کہلانے والا خطہ بھوک، افلاس اور قحط کا میں مبتلا  ہوا ۔ 95 فیصد شرح خواندگی رکھنے والا ملک اجڈ اور جاہل قرار پایا۔ متعدد مذاہب اور تمدن رکھنے والا پرامن ملک سیاسی بد امنی ، مذاہب کی چپقلش اورکھینچا تانی کی آماج گاہ بنا۔ ڈھائی تین سو سال کی براہ راست غلامی نے اس سماج کی چولیں ہلا دیں،اعلیٰ اقدار ڈھیر ہو گئیں ۔ انسانی وسعتوں والا ذہن کنویں کا مینڈک بن گیا ۔ ہر اعتبار سے اس سماج کا استحصال ہوا اور اس قوم کی اجتماعیت بکھر گئی۔

    عالمی حالات اور  زور پکڑتی آزادی کی تحریکات  کے نتیجے میں برطانوی سامراج اس خطہ سے نکلنے پر مجبور تو ہوا لیکن مستقبل میں اپنے مفادات کے حصول کو یقینی بنانے کےلیے اس نے خطے کو تقسیم کر دیا ۔ بر عظیم کا وہ حصہ جو پاکستان کے حصے میں آیا ، اس کی باگ ڈور قومی قیادت کے فقدان کی وجہ سے انگریز کے مراعات یافتہ طبقے کے ہاتھ میں دے دی گئی۔ قومی وسائل، افرادی قوت اور اداروں کی تشکیل اس انداز سے کی گئی کہ اس ملک کی دولت سمٹ کر چند آلہ کار ہاتھوں کے ذریعے سامراجی ملکوں میں پہنچتی چلی  گئی ۔ قومی اداروں اور مقامی کمپنیوں کو غلامی کے ایجنڈے کے تحت تباہ کر دیا گیا تاکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ملی بھگت غالب رہے ۔ قومی اداروں میں میرٹ کا  قتل کرتے ہوئے من پسند افراد کو سفارشی کلچر کے تحت بڑے بڑے عہدوں پر بٹھایا گیا جس کا نتیجہ اداروں کی تباہی کی صورت میں یقینی ٹھہرا ۔

    تعلیم  اور عقل و شعور کی جگہ ، جنونیت اور جھوٹی عقیدت کو پروان چڑھایا گیا۔ امریکہ و روس کی جنگ کو مذہبی جنگ قرار دے کر نوجوانوں کو مذہبی عقیدت  کی بنیاد پر آگ میں جھونک دیا گیا اور اس انسانی قتل جیسے مذموم عمل کو جہاد سے تعبیر کیا گیا۔ اس مذہبی جنونیت کی جنگ نے بہت سے نوجوانوں کی زندگیوں کو نگل لیا ۔ کئی ماؤں کے آنگن بے آباد ہوئے ۔ کئی عورتوں کے سہاگ اجڑے ۔ داخلی امن عامہ کے ادارے بے بس ہو گئے ۔ سکولوں ، کالجوں ، بس سٹیشنوں ، پولیس ٹریننگ سینٹرز پر دہشت گرد حملے ہوئے ۔ کئی انسان مارے گئے لیکن  ان مرنے والوں کو شہادت کے درجات سے نواز کر اداروں کی ناکامی پر پردہ ڈالا گیا ۔

    ذہنی پستی کی حالت یہ ہے کہ مسلط نا اہل اشرافیہ بڑی چالاکی اور عیاری کے ساتھ تقدیر، قضاء الٰہی، افراد کی ذاتی کوتاہی کے حوالوں کے ذریعے اداروں کی ناکامی کو چھپا لیا جاتا ہے اور عوام کو مطمئن کر دیاجاتا ہے۔ کتنا بڑا سانحہ ہی کیوں نہ ہو جائے، بیوروکریسی اور افسر شاہی ٹس سے مس نہیں ہوتی ۔ 

    اس بابت حالیہ مثال سامنے رکھتے ہیں۔ عیدالفطر سے پہلے سانحہ ہوا ۔ لاہور سے کراچی جانے والا قومی ائیر لائن کا طیارہ لینڈنگ کے دوران تباہ ہو گیا ۔ 97 انسانی جانیں چلی گئیں۔ ان مرنے والوں کو شہید قرار دیا جاتا ہے۔ جب کہ ہونا یہ چاہئے کہ سائنسی توجیہات اور تکنیکی وجوہات  کی بنیاد پراس حادثے کی شفاف تحقیقات منظر عام پر لائی جائیں اور ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے۔  جب کہ ہمارے ہاں روایت یہ ہے کہ رپورٹس فائلوں کا حصہ بن جاتی ہیں ، یہی ہماری تاریخ ہے ۔

    حقیقت یہ ہے کہ ہم بطور " ایک قوم " حقیقی آزادی  حاصل ہی نہیں کر سکے ۔ اداروں کی تشکیل غلامی کے دور کے تقاضوں کے مطابق ہے ۔ قومی مفادات کی سوچ  سرے سے موجود ہی نہیں. ذاتی مفادات اجتماعی مفادات پر غالب ہیں۔ غلام اور سرمایہ دارانہ جمہوریت محض ایک ڈھکوسلہ ہے، وہی انگریز کا مراعات یافتہ ایک فیصد طبقہ سیاست  پر مسلط ہے ، معاشی وسائل  بھی انہی کے قبضہ میں ہیں ۔ میڈیا کے ذریعے گمراہی پھیلانے اور تعبیریں بدلنے کا کنٹرول بھی انہی کے پاس ہے ۔

    جب تک نظام میں تبدیلی نہیں آئے گی ، نظام کے ذریعے قتل ہونے والے نوجوان ، عطا کردہ شہادت کے مناصب پاتے رہیں گے ۔

    Share via Whatsapp