سازشی نظریات اور معرفتِ حقائق
سازشی نظریہ کی مغربی اصطلاح کا تحلیل و تجزیہ۔
سازشی نظریات اور معرفتِ حقائق
تحریر : توصیف افتخار، لاہور
انگریزی اصطلاح conspiracy theory کا استعمال انیسویں صدی کی آخری چوتھائی میں شروع ہوا اور اسے امریکی عوام میں مقبولیت 1964ء میں وارنر کمیشن کی رپورٹ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد حاصل ہوئی (وارنر کمیشن رپورٹ امریکی صدر جان ایف کینڈی کے مبینیہ قتل کے بعد سرکاری سطح پر بنائی جانے والی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ ہے۔ ) ۔ مغربی سرکاری بیانیہ کےمخالف کسی بھی بیانیہ کو سازشی نظریہ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ خواہ وہ امریکہ کا اپنی ریاستوں سانفرانسسکو اور ورجینیا کی آبادی پر ان ہتھیاروں کا تجربہ ہو، 11/9 پر ہونے والی کوئی آزادانہ تحقیقاتی رپورٹ ہو ، دہشت گردی کے خلاف جنگ پراٹھنے والے سوالات ہوں، یا کووڈ19 ہو۔ سرکاری بیانیہ کے خلاف پیش کیے جانے والی عقلی دلائل کو کس طرح سازشی نظریات کہہ کر رد کرنا ہے؟ اس کے لیے نئی نئی اصطلاحات تخلیق کی جا رہی ہیں، جیسے stigmatized knowledge یعنی داغدار علم۔ ماہر سماجیات امریکی سائنسدان کے بقول سازشی نظریات دینے والے لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے سوچنے کا خاص طریقہ ہے جو انہیں عام آدمی سے ، جو کہ سرکاری بیانیہ پر یقین رکھتا ہے ، ممتاز کرتا ہے۔ آکسفورڈ انگریزی لغت سازشی نظریہ کی تعریف کچھ اس طرح کرتی ہے کہ " واقعات یا حوادث کو چند مفاداتی گروہوں کی سازش کا نتیجہ سمجھنا " ، اور خاص طور پر مبینیہ اثرورسوخ رکھنے والے اداروں جن کے سیاسی محرکات ہوں انہیں کسی نا قابلِ وضاحت واقعے کا ذمہ دار قرار دینا۔ امریکی ماہرینِ سماجیات کےبقول سازشی نظریات میں واقعاتی شہادتیں نہیں ہوتیں۔امریکی ماہرِ تعلیم فرینک پی منٹز کہتا ہے کہ سازشی تھیوری کسی خاص نظریہ پر مبنی نہیں ہوتی۔
درست رائے قائم کرنے کے لیے ہمیں تاریخی حقائق اور دنیا پر غالب نظام کا جائزہ لینا ہوگا۔گزشتہ تین صدیوں سےدنیا نےامنِ عامہ برباد ہوتے دیکھا ہے۔ جس دور میں اسلامی سلطنت رو بہ زوال تھی، دنیا کی نئی ابھرتی ہوئی طاقتوں نے معاشی مفادات کے لیے دنیا کی سابقہ معزز طاقتوں کو ذلیل کرنا شروع کیا۔ مان لیتے ہیں کہ یہ ذلت ان پرانی طاقتوں کی نئے دور کے تقاضے نہ سمجھنے اور ناعاقبت اندیشی کا نتیجہ تھی مگر اب سوال ان نئی طاقتوں کی درندگی کا ہے،جو انسانیت کے فلسفہ سے عاری ہیں اور صرف مفاد پرستی اور سرمایہ کی ہوس میں دنیا پر چڑھ دوڑیں۔ ان کے اخلاقی بحران کا پہلا نشانہ ان کے ملک کے عوام بنے۔ وہاں کے تمام اجتماعیت پر مبنی نظام توڑے گئے، خاندانی و سماجی نظاموں کو ختم کیا گیا۔ پہلے پہل ان سے 16، 16 گھنٹے کی جبری مشقت لی گئی اورجانور کی طرح سلوک کیا گیا۔ اور آج یہ حالت ہے کہ عام آدمی برضا و خوشی دو دو نوکریاں کرتا ہے کہ اپنی ضرورت کا سامان مہیا کر سکے، لیکن اس ضرورت میں آج بھی وہ اپنے بوڑھے ماں باپ کا خرچہ نہیں اٹھا سکتا۔ بچے حکومتی خرچہ پر پلتے ہیں۔ ایک فرد جو کچھ پیسے جمع کرتا ہے وہ ہفتہ کے بعد ویک اینڈ کے نام پر شراب خانوں اور ساحلوں کی موجوں میں بہا آتا ہے۔ اس کی زندگی بینکوں کی قسطیں ادا کرتے کرتے ختم ہو جاتی ہے۔ دنیا پر اس نظام نے کیا بربادی اتاری وہ ہمارے سامنے ہے۔ جنگ عظیم اول ، جنگ عظیم دوم ، کیمیائی ہتھیاروں کی دوڑ ، سرد جنگ، مذہبی جنونیت اور نام نہاد جہاد اور پھر دہشت گردی۔ یہ سب خود بخود نہیں ہو رہا اس کے پیچھے محرکات ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سرکاری بیانیہ اور زمینی حقائق میں تضاد بہت سارے سوالات کھڑے کرتا ہے۔ دنیا عالمِ اسباب ہے۔ ہر معلول کی علت ہے۔ اور گزشتہ سو سال سے تو سائنس کا دور دورا ہے، عقلی دور ہے اس میں تو اسباب کے علل جاننا انتہائی ضروری ہو گیا ہے۔ لیکن غالب نظام دنیا کے بڑے بڑے ہونے والے واقعات کا غیر منطقی جواب دے کر خود ذہنوں میں شک کے بیج بوتا ہے، افغان جہاد کو آج ہماری افواج اپنی غلطی تسلیم کرتی ہیں۔ امریکی سینٹ میں ہلری کلنٹن خود دہشت گردوں کو امریکی سی آئی اے کی پروردہ بتاتی ہے۔عراق پر ہونے والی چڑھائی کو خود امریکی صدر غلط رپورٹنگ کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔سعودی عرب خود بتاتا ہے کہ مذہبی جنونیت کس کے کہنے پر ترویج دی۔ یہ سب حقائق کوئی سازشی نظریہ رکھنے والا نہیں طشت از بام کر رہا بلکہ سازش میں ملوث افراد خود مفادات کے ٹکراؤ کے بیچ بیان کردیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ عام آدمی کے پاس وقوعہ کے وقت شہادتیں نہیں ہوتیں کیونکہ مجرم خود منصبِ قضاء پر براجمان ہے۔ ایک اصطلاح استعمال ہو تی ہے institutional analysis یعنی ادارہ جاتی تجزیہ، یہ سرکاری اداروں کی جانب سے اعداد و شمار اکٹھے کر کے تحلیل و تجزیہ کرنے کا نام ہے۔ ناؤم چومسکی سازشی نظریات کو ادارہ جاتی تجزیہ کے مقابل سمجھتے ہیں۔ ادارے تو خود ریاستی مشینری کے غلام ہیں،ان کا تجزیہ وہی ہوتا ہےجو ریاستی بیانیہ ہوتا ہے۔بلکہ جب سے عالمی مالیاتی ادارے، ورلڈ بینک، عالمی اقتصادی فورم اور عالمی ادارہ صحت معرضِ وجود میں آئے ہیں سرمایہ دار ریاستوں کے بجائے ان اداروں کو کنٹرول کر رہا ہے اور ریاستی پالیسیاں بھی ان کے ماتحت بنائی جا رہی ہیں۔ لہذا ریاستی بیانیہ کے خلاف اٹھنے والی آواز کو ساشی نظریہ کہہ کردبادیاجاتا ہے۔اور لوگوں کی نظر میں رائے کو بے وقعت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ سرمایہ داریت کے فلسفہ میں اخلاقی اقدار نام کی کوئی چیزنہیں ہے اس میں وقت سے لے کر اخلاق تک ہر چیز کی ایک قیمت ہے، ایسے نظام میں جب طاقتور بڑے سے بڑا جرم کرتا ہے تو سب نشان مٹاتاچلاجا تا ہے۔اگر کہیں نظرمیں آجائے تو ، اچھا سوری! کہہ کر اپنی راہ لیتا ہے۔ پکڑ میں نہیں آتا۔ گوانتا ناموبے کیا سازشی نظریہ ہے؟ عراق کی ویرانی کیا سازشی نظریہ ہے؟ افغانستان کی تباہی کیا سازشی نظریہ ہے؟ دستاویزی شہادت طلب کرنا انصاف کا ڈرامہ تو ہو سکتا ہے لیکن انصاف کا تقاضانہیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عدالت میں دوعورتیں ایک بچے کے لیے دعوےدار بن کر آگئیں۔آپ نے برتھ سرٹیفیکیٹ نہیں مانگا؟ اس دستاویز کا ناہونا انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنا۔ بلکہ آپ نے بچے کا سر قلم کرنے کا حکم دیا۔ جب جلاد نے تلوار اٹھائی تو اصل ماں اس منظر سے بلبلا اٹھی اور بچے کے حق سے دست بردار ہو گئی کہ یہ بچہ دوسری عورت کو دے دیا جائے۔ ماں کا کلیجہ اس منظر کی تاب نہ لا سکا اور علی رضی اللہ تعالی عنہ حقیقت تک پہنچ گئے۔ اسلام میں بھی قانونِ شہادت ہے، لیکن گواہوں کی تلاش ریاست کے ذمے ہوتا ہے، ریاست مظلوم کا ساتھی بنتی ہے۔ جبکہ انگریزی قانون میں، اول تو عدالتیں ریاست سے آزاد نہیں۔ شہادتیں بنانے، خریدنے کے لیے وکیل مافیا کام کر تا ہے جس کا اقرار جج خود کرتے ہیں۔ اور تو اور شہادت مہیا کرنا خود مظلوم و مدعی کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح بین الاقوامی معاملات میں متأثرین ، مظلوم طبقہ اور بے اثر طبقہ سے کہا جاتا ہے کہ ادارہ جاتی شہادتیں لائیں پھر آپ کی بات مانی جائے گی ورنہ آپ کادعوٰی سازشی نظریہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
ہمیں سمجھنا ہو گا کہ ہر سرکاری بیانیہ کے خلاف یہ پراپیگنڈہ کرنا کہ وہ سازشی نظریہ ہے ایک سامراجی ہتھکنڈہ ہے۔ہم دنیا پر غالب نظام کوسچ مان لیتےاگراس کےہاتھوں پر خون لگا نظر نہ آتا۔ سامراج حقائق کو جھٹلانے کے لیےاصطلاح استعمال کرتا ہے کہ سازشی نظریہ circular arguments پر مشتمل ہوتا ہے۔ یعنی دعوٰی ہی دعوٰی کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جیساکہ میرا qoutes میں لکھا ہوا جملہ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس دعوے کو میں ثابت کرنا چاہتا ہوں (مثلاً دہشت گردی بطور سامراجی حکمتِ عملی) اسی کو بطور دلیل (یعنی ہاتھوں پر لگا خون ) کہہ رہاہوں۔ اس میں یہ بات سمجھنے کی ہے، اول تو چند عندیے چوروں کی لڑائی میں ایک دوسرے پر الزامات لگانے سے کھلتے ہیں؛ جیسے ہلری کلنٹن کا امریکی کانگریس میں طالبان کے متعلق بیان۔ دوسرا تاریخی ارتقاء اور سابقہ حقائق ایک مزاج کو ظاہرکرتے ہیں۔جیسا کہ شروع میں سامراجی تاریخ بیان کی گئی یا جنگِ عظیم اول اور دوئم خاص طور پر ایٹم بم کا استعمال کیا گیا۔کیایہ حقائق سامراجی ذہنیت کو واضح کرنے کے لیے کافی نہیں۔ یہ انسانیت کے کیسے علم بردار ہیں جوانسانیت کو ہی آنِ واحد میں لقمۂ اجل بنا دیں۔ قرآن حکیم انسانی مزاجوں کا تجزیہ کرتا ہے، اور سرمایہ دار کا مزاج آج بھی وہی ہے۔ فرعون کی طرح نسلِ انسانی کو قتل کرتا ہے، خواہ اس کے لیے جنگ مسلط کرنی پڑے یا حیاتیاتی ہتھیار استعمال کرنا پڑیں اور وبائیں لانچ کرنی پڑیں۔
حقائق پرجھوٹ کی ملمع کاری سامراج کی مجبوری ہے۔ اپنے عوام اور دنیا بھر کو شعور سے دور رکھنا اس کی حکمتِ عملی ہے۔ اس کے لیے میڈیا پر قبضہ ہے ان سامراجی اداروں کا۔ بین الاقوامی میڈیا کا گذشتہ تیس سال سے رپورٹنگ کا انداز دنیا کے سامنے ہے۔ سرکاری بیانیے کی تشہیر کے لیے خبر کو توڑ موڑ کر پیش کرنا معمولی بات ہے۔ یہی میڈیا دنیا کے ملکوں میں ہونے والے مظالم نہیں دکھائے گا، خواہ وہ فلسطین میں ہوں، عراق میں ہوں یا افغانستان میں۔ اور جس واقعے کو کسی خاص مقصد کے لیے مشہور کرنا ہو اس پر دن رات رپورٹنگ کی جاتی ہے۔ علاقائی میڈیا، بین الاقوامی میڈیا اور صحافتی تنظیموں کے تابع رہتا ہے۔ دوسرا ہتھیار اب سوشل میڈیا ہے، اس میں خاص طریقے سے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے کسی بھی معاشرے کے تانے بانے کا جائزہ لے لیا جاتا ہے۔ ایسے افراد اور گروپس ان کی فہرست میں ہوتے ہیں جو کسی ایشو کو پھیلانے کے لیے ساز گار ہوتے ہیں، کہاں پھیلانا ہے، کس طرح پھیلانا ہے یہ سب ھدف طے کئے جاتے ہیں۔ اب تو فیس بک، یو ٹیوب fact check کے نام سے عام افراد کی پوسٹ کو مارک کر رہے ہیں۔ یعنی جو رپورٹس سرکاری بیانیے اور اعدادو شمار کے خلاف آئے اسے رد کیا جا تا ہے۔ سرچ انجن مثلاً گوگل دنیا کو وہ دکھاتا ہے جو بین الاقوامی بیانیے سے ہم آہنگ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ چین، ایران اور روس نے اپنا سرچ انجن بنا رکھا ہےاور فیس بک پر پابندی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود دلچسپ امر یہ ہے کہ 50 سال یا غیر ضروری ہو جانے پر تمام دستاویزات declassifyکہہ کر پبلک کردی جاتی ہیں یا کوئی رپورٹ منظرِ عام پر آجاتی ہے جو جھوٹوں کو بے نقاب کرتی ہے۔اہم بات یہ ہے کہ سانپ نکل جانےکے بعد لکیر پیٹنا بے سود ہوتا ہے، مگر ان حقائق سے مستقبل کے لیے سبق سکیھناہر باشعور فرد کی ذمہ داری ہے۔ اور حقیقت میں فائدہ بروقت چال سمجھنے میں اور اپنی اجتماعی طاقت پیدا کرنے میں ہے۔
معلومات یا شہادتیں ہی صرف حق تک پہنچنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ عقل و فہم، غور و فکربھی یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ عقل و فہم کا تعلق درست نظریہ سیکھنے سے ہے جو ہمیں حق اور باطل میں تمیز سکھا سکے۔ درست نظریہ کسوٹی بن جاتا ہے کھرا اور کھوٹا پرکھنے کے لیے۔ عقلمند اقوام اور جماعتیں اپنا ایک نظریہ متعین کرتی ہیں۔ جس قدر اعلٰی نظریہ ہو اسی قدر گہری بصیرت پیدا ہو سکتی ہے اور شیطانی و طاغوتی چالیں بھی سمجھ میں آ سکتی ہیں۔ حضر ت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں بلا وجہ نہیں کہا گیا کہ جس گلی سے عمر گزرتا ہے شیطان اس کے آس پاس کی چالیس گلیاں چھوڑ دیتا ہے۔ غور و فکر کا تعلق اپنے نظریہ پر رسوخ کے ساتھ ہے۔ جتنا حق پر غور و فکر کیا جائے گا اتنا باطل واضح ہو جائے گا۔ اعلٰی نظریہ اور اس پر غورو فکر کی صلاحیت ان علمائے حق پرست کی صحبت سے پیدا ہوتی ہے جو خود بھی اعلٰی نظریہ پر اونچی صحبت میں تربیت حاصل کر چکے ہوں۔