ہمارے اندر کا کرونا - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • ہمارے اندر کا کرونا

    کرونا وبا کے معاشروں اور انسانی زندگی پر اثرات، کرونا وبا اور شیطانی نظام میں مماثلت، ان اثرات سے بچاو کیلئے رمضان کا نظام تربیت

    By Danish Alam Published on May 30, 2020 Views 963
    ہمارے اندر کا کرونا
    تحریر: دانش عالم، مانسہرہ

    رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ اپنی برکتوں کے ساتھ رخصت ہوچکا۔ اس ماہ میں جن افراد نے اہتمام کے ساتھ روزے رکھے اور اپنے قول و فعل پہ قابو پاتے ہوئے ہر خاص و عام کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کیا، انھوں نے بلاشبہ اللہ رب العزت کے نزدیک رمضان کا صحیح حق ادا کیا ۔
    گزشتہ ماہ رمضان میں کرونا وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کےلیے حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن تھا۔ جس کے باعث ہرطرف خوف کا راج تھا۔ لوگ گھروں تک محدود تھے اور سماجی میل جول سے اجتناب کیا جارہا تھا۔ بے روزگاری میں اضافے کے باعث دیھاڑی دار طبقہ شدید معاشی تنگ دستی سے دوچار تھا۔ اگرچہ حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کی جانب سے مشکلات میں مبتلا افراد کی عارضی مالی امداد اور تعاون کا سلسلہ رمضان سے پہلے ہی سے جاری ہے لیکن ان کوششوں کے ثمرات محدود اور وقتی ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کی اکثریتی آبادی پہلے ہی غربت کا شکار تھی، ایسے میں کرونا نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ 
    اگر غور کیا جائے تو کرونا وبا سے پیدا شدہ حالات اور اس کے اثرات درندہ صفت انسانوں اور معاشروں میں پیدا ہونے والی خصلتوں سے کافی مماثلت رکھتے ہیں۔ قرآن مجید کے مطابق بھوک، خوف اور بدامنی جس معاشرے میں ہو تو اسے ظلم کا معاشرے قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح حدیث نبوی (ص) کے مطابق غربت یا معاشی تنگ دستی انسان کو کفر تک لے جاتی ہے یعنی انسانوں کو اجتماعی طور پر جبرا تنگ دست بنانا شیطانی عمل ہے اور کفر کا باعث ہے۔ حضرت امام شاہ ولی اللہ (رح) نے اپنی تصانیف میں اس حوالے سے فرمایا ہے کہ ظالمانہ نظام میں عوام کی اکثریت کو کم اجرت کے ساتھ زیادہ مشقت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جس کے باعث ان کے بنیادی حقوق بھی پورے نہیں ہوتے اور اخلاقی پستی بھی معاشرہ میں پروان چڑھتی ہے۔ شاہ صاحب (رح) مزید فرماتے ہیں کہ جب انسانی نفس پر حیوانیت غالب آتی ہے تو روحانیت چھپ جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان درندگی کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے۔ 
     اس کےاثرات انسانی معاشروں پر یہ ہوتے ہیں کہ خوف اور بدامنی کو فروغ ملتا ہے۔ اسی طرح جب حیوانیت غالب ہو تو انسان اجتماعیت کے بجائےانفرادیت کو پسند کرتا ہے۔ وہ اپنی ذات کے خول سے باہر نہیں نکلتا اور اس کے تمام تر فیصلوں کا عملی محور اس کی اپنی ذات اور زیادہ سے زیادہ اس کا خاندان ہوتا ہے۔ ایسے انسان یا گروہ کو جب کسی سسٹم کا نگران بنا دیا جائے تو تمام تر پالیسیاں وہ اپنے ذاتی مفاد یا مخصوص گروہ کے فائدے کو سامنے رکھ کر بنائیں گے، انسانیت کی فلاح یا اس کی بہتری کی بات بھی محض دکھاوا اور اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر ہوگی۔ ایسا انسان یا جماعت جسے قرآن میں حزب الشیطان کا نام دیا گیا ہے کبھی نہیں چاہےگا کہ لوگ یکجا ہوں اور اپنے مسائل کو مل جل کر حل کریں۔ بلکہ معاشرہ کے افراد کا پریشان رہنا، بنیادی ضروریات کے حصول کے
    لیے باہم گتھم گتھا رہنا اور خوف میں مبتلا رہنا، ایسے درندہ صفت انسانوں کے ذریعے چلنے والے نظام کےلیے آکسیجن کا کام کرتی ہے کیونکہ اس سے عوام کی توجہ اس ظالمانہ اور انسانیت دشمن نظام کی طرف نہیں جاتی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے افراد اپنی درندگی کو مزید مستحکم بنانے کےلیے ایسے جواز پیدا کرتے ہیں جس سے سسٹم پر ان کی گرفت مزید مضبوط ہوتی ہے۔ 
    اس شیطان صفت اور کرونا زدہ خصلتوں سے انسانی معاشروں کو بچانے کےلیے اسلام نے عبادات کا نظام متعارف کروایا۔ جس کا واحد مقصد توجہ الی اللہ سے اللہ کا قرب حاصل کرنا اور ان عبادات کی اصل روح کو سمجھنا جس کے باعث عملی نظام کا قیام ہے۔اس لحاظ سےروزہ ارکان اسلام میں اہم رکن ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ روزے ایسے ماہ میں فرض ہوئے جس میں قرآن کا نزول ہوا۔ اس کے علاوہ یہ ایک ایسی بدنی عبادت ہے جو ہر عاقل بالغ مسلمان پر فرض قرار دی گئی۔ روزہ کے فوائد جہاں ظاہری اور بدنی حوالے سے ہیں وہاں اس کے انسانی روح پر بھی گہرے اثرات پڑتے ہیں۔ 
    روزہ کا سب سے اہم مقصد انسان کو بھوکا اور پیاسا رکھ کر دوسروں کی بھوک کا احساس کروانا ہے اور پھر اس کا اگلا مرحلہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم ایسا اجتماعی نظام بنانے کی سعی کریں جس سے تمام مخلوقِ خدا کی بھوک کا مسئلہ حل ہوسکے۔ بھوک ایک ایسی چیز ہے جو انسان کے اعصاب کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ بھوکا انسان اپنے پیٹ کو بھرنے کےلیے ہر حد تک جا سکتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں بیش بہا جرائم بھی غربت یعنی بھوک ہی کے باعث ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ (ج) کا فرمان ہے کہ کائنات میں موجود تمام وسائل تم سب کےلیے ہیں۔ اسی طرح ایک اور جگہ اللہ فرماتے ہیں کہ کائنات میں موجود ہر ذی روح کا رزق میرے ذمے ہے۔ پھر اخلاقی پستی کا باعث بھی یہی غربت اور بھوک ہے۔ روزےکی بھوک پیاس سے آج ہم نے اس بات پر غور کرنا ہے کہ رمضان کے روزے ہر سال آتے ہیں لیکن اس ریاضت سے ہمارے معاشرے کی بھوک کا مسئلہ کیوں نہیں حل ہورہا؟ اس کے علاوہ   جیسا کہ آپ (ص) کا فرمان ہے کہ رمضان غم خواری کا مہینہ ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ روزے کا تعلق غمخواری کے ساتھ کیا ہے؟ اس حوالے سے ہمیں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ روزے کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کا تزکیہ کرسکے۔ انسانی نفس اگر آزاد ہے اور اس پر حیوانیت کا غلبہ ہے تو یہ انسانی قلب کو ایسے فیصلوں پر مجبور کرے گا جس سے معاشرے میں شیطان کا نظام قائم ہو، فساد پھیلے۔اسی طرح اگر روزے کی ریاضت سے انسان اپنے نفس کو قابو میں لاکر حیوانی جذبات کو دبوچ لے تو اس سے اس کا ہر عمل انسانی فلاح کی بہتری کےلیے ہوگا۔
    اب ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ رمضان  میں کی گئی ریاضت اور روزے کے مقاصد کو سامنے رکھ کر ہماری جدو جہد اور کوشش اگلے مرحلے میں اس کے لیے عملی نظام کی تشکیل کی ہونی چائیے تھی لیکن ماہ رمضان کی رخصتی، لاک ڈاؤن میں نرمی اور عید کی آمد کے ساتھ ہی ہم اس سے غافل ہوگئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب پیٹ کو اجازت ملی خوب سیر ہونے کی اور نفس دل کے اثر سے آزاد ہوا تو حیوانی جذبات نے ہماری عقل پہ پردہ ڈال دیا۔ 
    اس کا پہلا اثر یہ ہوا کہ ہمارے اندر جو انسانیت دوست صفات تھیں اس کی جگہ کرونا صفت صفات یعنی محبت کے بجائے نفرت، انسان دوستی کے بجائے انسان دشمنی، منافقت، ذاتی بغض و عناد، غرور و تکبر، اجتماعیت پسندی کی جگہ انفرادیت اور تنہائی کا شکار ہوگئے۔ ہم نے عید جیسے دن کوبھی جو خوشی اور اجتماعیت کا تہوار تھا،کو انفرادیت پسندی کامظہر بنادیا۔ اس دن بھی ہم نے اپنے ہاں ان افراد اور عزیز و اقارب کی ایک لسٹ بنائی کہ جن سے ہم نے قطع تعلق رکھنا ہے، حالانکہ عزیزواقارب سے حسن سلوک کو اللہ کے نبی (ص) نے بہت پسند فرمایا ہے۔  ہمیں اپنے پڑوس میں رہنے والے غریب اور نادار لوگ برے لگنے لگے کہ وہ عید ملنے ہمارے گھر کی دہلیز تک کیوں آرہے ہیں۔ وہ کیوں ہمارے ساتھ بیٹھ رہے ہیں۔ فحاشی اور بے حیائی کے وہ تمام پروگرام جن سے رمضان المبارک میں ہم نے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی، ان سب سے انٹرٹینمنٹ کے نام پر ہم نے پھر ناطہ جوڑ لیا۔
    آج ہم نے یہ سمجھنا ہے کہ موجودہ وبا کی کیفیت تو وقتی ہے۔ اصل کرونا تو ہمارے اندر ہے جسے ہم وقتا فوقتا برے اعمال کے باعث خوراک مہیا کرتے ہیں اور جب اجتماعی طور پر یہ کرونا کوئی بھیانک صورت اختیار کرتا ہے تو کسی وبا یا بیماری کی صورت میں کل انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور اس کے لیے دفاعی نظام بھی ہمارے اندر موجود ہے جسے ہم نے عبادات، ریاضت اور اس پر عملی نظام کی جدوجہد کے ذریعے مضبوط بنانا ہے۔ آج غور طلب بات یہ بھی ہے کہ یہ سب ہمارے اندر کی وہی بری خصلتیں ہیں جنھوں نے عالمی شیطانوں کو موقع دیا کہ وبا کا ڈرامہ رچا کر    اجتماعی طور پر کل انسانیت کو خوف، بھوک اور معاشی تنگ دستی میں مبتلا کیا جائے اور ہمارے اوپر چونکہ حیوانیت غالب تھی، ہمارا اندرونی روحانیت پر مبنی دفاعی نظام کمزور تھا تو وظیفے اور دعائیں وغیرہ بھی اس فتنے کا مقابلہ نہ کرسکیں۔ چناچہ رہی سہی اجتماعیت اور اللہ پر یقین کو کمزور کیا گیا، تاکہ ان کرونا زدہ شیطانی جماعت کی گرفت سسٹم پر مزید مضبوط ہوسکے۔ آج ہم نے یہ بھی جاننا ہے کہ ہماری عبادات اپنا اثر کیوں کھورہی ہیں؟ نیز یہ کہ ہماری عبادات ہمارے اندر کے کرونا کو ختم کیوں نہیں کرسکیں۔ یعنی ایک خاص ماحول اور وقت میں تو ہم اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن جوں ہی ماحول کا اثر ختم ہوتا ہے، ہم پھر سے اپنی پرانی روش پر چل پڑتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
    Share via Whatsapp