جنگوں اور قحطوں کا پالنہارنظام
سرمایہ دارانہ نظام دنیا کا سب سے مہلِک وبائی مرض ہے جس کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا وقت کا اہم ترین انسانی،اخلاقی،آئینی،قومی اور دینی تقاضا ہے۔
جنگوں اور قحطوں کا پالنہارنظام
تحریر: حافظ ایُّوب قاسمی۔مردان
چین سے شروع ہونے والا کرونا وائرس ایران،اٹلی، امریکہ،برطانیہ اور پاکستان سمیت بیشتر ممالک کو متأثرکرچُکا ہے۔کرونا وائرس کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عالمی وبا کی صورت دی گئی ہے۔گرچہ اس مرض سے بیماری کی شرح اموات بَہ نسبت دیگر وبائی بیماریوں کے بہت کم ہے۔ اِس وائرس کوایک خود ساختہ وائرس کہا جا سکتا ہے جس نے دنیا میں فساد برپا کیا ہے۔کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد جو اقدامات کیے گئے ہیں یہ فساد کی ایک نئی شکل لگتی ہے۔گویا ’’ خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب سے فساد پھیل گیا ہے ‘‘.وسائل پر ناجائز قبضہ، بھوک اور قحط،استعماری جنگیں،نو آبادیاتی نظام،جدید نو آبادیاتی نظام اور ہائیبریڈ وار (HYBRID WAR) دراصل اسی فساد کی ظاہری صورتیں ہیں۔اس لیے کرونا وائرس کے پردے میں انسانیت کو نِگل لینے والے مُہلک اور حقیقی وائرس کی پہچان ضروری ہے جس کو دنیا ’’سرمایہ دارانہ نظام یا کیپٹلزم‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔
سرمایہ پرستی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے۔ماضی میں نمرود،شداد،فرعون،قارون،ابولہب،ابوجہل،ابو لہب، اور قیصر و کسریٰ کےمعاشی استحصال پر مبنی نظام کے ہی کردار ہیں۔موجودہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام اسی معاشی استحصال کی جدید صورت ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام میں سماجی تعلقات ، معاشی معاملات اور سیاسی معاہدات کا اوَّلین مِعیار ’’سرمایہ‘‘ ہوتا ہے اور انسانیت اسی سرمایہ کے ماتحت ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔گو سرمایہ کا حصول اصل مقصد قرار پاتا ہے اور اس مقصد کے حصول میں اگر انسانیت پر مصائب کے کوہِ گراں بھی ڈھانے پڑیں،تو اس قبیح فعل کا بھی ارتکاب کیاجاتا ہے۔یوں انسانیت اللہ کے فرمان ’’ ہم نے آدم کی اولاد کوعزت دی ہے‘‘ کے اعزاز سے محروم ہو کر قعرِ مذلت میں گِر جاتی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے انہی استعماری مظالم کی داستان ہے کہ کارخانہ داروں کو اپنے کارخانے کے لیے سستے خام مال کی تلاش میں دنیا کےدوسرے ممالک کا رُخ کرنا پڑا اور یوں کئی نامَ وَر بحری قذاق انہی مذموم مقاصد کے تحت بحری راستوں سے عازمِ سفر ہوئے۔ کالی کٹ کی بندر گاہ پر پڑاؤ ڈالنے سے لے کر ایسٹ انڈیا کمپنی سے ہوتا ہوا تاج برطانیہ تک ،سونے کی چڑیا’’ہندوستان‘‘ کو کنگال کرنے کاہی سفر ہے ۔برطانوی سامراج کے اڑھائی سال جبری تسلط کے دور میں اس زرعی ملک میں قحط آئے جس میں مجموعی طور پر 60 ملین سے زائد اموات ہوئیں۔سرمایہ دار ممالک نے ’’کیا کچھ اور بھی ہے ‘‘کی ہوس میں مبتلا ہو کر دنیا کی بندر بانٹ کے لیے پہلی اور دوسری جنگِ عظیم مسلَّط کی۔پہلی جنگِ عظیم میں مجموعی طور پر 40 ملین لوگ سرمایہ کی بھینٹ چڑھا کر تکریمِ انسانیت کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔پہلی جنگِ عظیم ہی کے نتیجے میں دنیا میں کالونیَل دَور کا آغاز ہواجس میں عالمی سامراج نے دنیا کے غریب اقوام کی سرزمین کو اپنی کالونی میں تبدیل کیا۔دوسری جنگِ عظیم کے نتیجے میں1940 کے تناسبِ آبادی سے دنیا کے تین فی صد لوگ یعنی 80 ملین افرادکو مَوت کے گھاٹ اُتار دیا۔اسی طرح شام،عراق،فلسطین اور افغانستان میں سرمایہ دارانہ نظام کےسرپرستوں نے ہوس کے خونیں پنجے گاڑ دیے۔اہلِ شعور کے لیے اس میں ایک نشانی یہ ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد استعماری جنگوں کے لیے میدانِ جنگ ہمیشہ یورپ سے باہر ایشیا کی سرزمین کا انتخاب کیا گیا ہے۔
جنگی حربوں کے ساتھ ساتھ اِس آدم خورسرمایہ داری نظام نے حیاتیاتی (Biological) حربے بھی استعمال کیے ہیں تا کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان کی تجوریاں بھرنے میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے۔وائرسز کو فروغ دے کر دنیا میں تباہی مچا دینا اور پھر ویکسین بنا کر انسانیت کو اِس کا عادی بنانے جیسے طویل منصوبوں کے پسِ پردہ مذموم سامراجی عزائم ہیں۔چناں چہ 1920 کے ریبیز (Rabies)وائرس ،1967 کے ماربر (Marburg)وائرس اور2016 کے اِیبولا (Ebola)وائرس کی مثالیں دنیا کویاد ہیں۔
اس تناظر میں یہ کہنا بے جا نہ گا کہ کرونا تو محض ایک وائرس ہے اور اصل وبا’’سرمایہ دارنہ نظام‘‘ ہے۔بین الاقوامی ادارے آکسفام(Oxfam)کے مطابق دنیا کے 62 امیر ترین افراد دنیا کے پچاس فی صد سے زیادہ وسائل پر قابض ہیں۔لہذا ضروری ہے کہ طبی ،معاشی،جنگی حربوں کی آڑ میں انسانیت کو معاشی اور طبی موت سے دو چار کرنے والوں کا شعور حاصل ہو اور ان حربوں کو ناکام بنانے کی مؤثر قومی حکمتِ عملی وضع ہو۔بَہ صورتِ دیگر عالمی سامراج دجل و فریب کی چالوں سے بازی جیت جائے گا اور دنیا انتہائی سادگی سے مات کھاتی رہے گی۔
انسانیت کی ترقی کاراز سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور عدل و انصاف پر مبنی نظام کے قیام میں ہے۔ اس نظام کے خلاف مزاحمتی شعور پیدا کیاجانا وقت کالازمی و ضروری تقاضاہے۔ نظامِ ظلم کے خلاف مزاحمتی فکر کے ابلاغ اور عدل و انصاف کے نظام کے قیام کا عزمِ مصمم کیا جائے پس اہلِ علم اور اہلِ شعور افراد کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عدل اور حق کو غالب کرنے کے لیے درست سَمت میں شعوری بنیادوں پر جدوجہد کریں۔