حرص و ہوس پر مبنی نظام
اس آڑٹیکل میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح سرمایہ داری نظام میں سرمایہ دار اپنے حرص و ہوس کی وجہ سے معاشرے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
حرص و ہوس پر مبنی نظام
تحریر: عمیر ظفر۔ راولپنڈی
کرہ ارض پر بسنے والے انسان آج معاشی بے سکونی کا شکار نظر آتے ہیں۔ The World Counts کے اعداد و شمار کے مطابق ایک سال میں نو ملین انسان بھوک کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں اور ہر دس سیکنڈ میں ایک معصوم بچہ اپنی ماں کی باہوں میں دم توڑ دیتا ہے۔دوسری طرف ایک طبقہ ایسا ہے جسےزندگی کی ہر آسائش میسر ہے۔گویا ایک طرف ضرورت سےزائد دولت کی ریل پیل ہے تو دوسری طرف زندہ رہنے کے لیے بھی ناکافی خوراک ہے۔یہ سب اس نظام کے سبب سے ہے جو آج ہم پر مسلط ہے اور وہ ہے حرص و حوس پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام۔ اس نظام میں سرمایہ دار اپنی اشیاء کو فروخت کرنے کے لیے صارف مارکیٹ پیدا کرتا ہے۔اس کے لیے معاشرے کو تعیشات میں مبتلا کیا جاتا ہے۔مختلف اشتہارات کے ذریعے لوگوں کوغیر فطری طور پر یہ محسوس کروایا جاتا ہے کہ انہیں اس Productکی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔جس قوم کی شرح خواندگی پچاس فیصد سے بھی کم ہو ، قوم کی اکثریت اپنا نام تک لکھ نہیں سکتی ھو اس قوم کو مہنگی اشیاء مثلا موبائل فون رکھنے کی ترغیب دینے سے کیا نتائج نکل سکتے ہیں ؟ کیا اس پر ہمارے ارباب اختیار نے کبھی غور کیا؟کیا یہ بالکل ویسے ہی نہیں کہ علم و شعور سے عاری انسان کے ہاتھ میں بندوق پکڑا دی جائے جس سے وہ اپنا اور دوسروں کا نقصان کر سکتا ہے۔لیکن سرمایہ داری نظام میں یہ سرمایہ دار اس سوچ سے عاری ہوتے ہیں۔انہیں اگر کچھ فکر ہے تو بس یہ کہ اپنا مال زیادہ سے زیادہ کیسے فروخت کرنا ہے اور زیادہ سے زیادہ دولت کیسے جمع کرنی ہے۔ان کے اس عمل سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اس کی انہیں کچھ پرواہ نہیں۔آج سرعام کھانے پینے کی ان اشیاء کو فروخت کیا جاتا ہے جو مضر صحت ہیں علاوہ ازیں مختلف اشتہارات وغیرہ کے ذریعے لوگوں کو ترغیب بھی دی جاتی کہ و ہ ان اشیاء کو استعمال کریں جیسے پیپسی ،کوکاکولا،سپرائٹ،سیون اَپ وغیرہ کے بارے میں یہ بات ثابت ہے کہ وہ مضر صحت ہیں لیکن حکومتیں ان کو روک نہیں سکتیں۔اپنی اس کھلم کھلا عیش کو جاری رکھنے کے لیے یہی سرمایہ دارانہ کمپنیاں حکومت سازی کے عمل میں حصہ لیتی ہیں اور اپنی مرضی کی حکومتیں بناتی ہیں۔
اس طرح ایک ملک پر پوری طرح سرمایہ دار مسلط ہو جاتے ہیں۔سرمایہ دار کا ایک کارخانے کے بعد دوسرا کارخانہ لگتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی اجارہ داری قائم کر لیتا ہے، جب روز مرہ کےاستعمال کی اشیاء مخصوص سرمایہ داروں کے ہی قبضے میں چلی جاتی ہے تو وہ منافع کے حصول کے لیے جب چاہتے ہیں مل کر اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کر دیتے ہیں اور پھرجب چاہتے ہیں مہنگے داموں بیچ کر خوب منافع کماتے ہیں۔اس کے ساتھ اس کا ایک اثر یہ بھی ہےکہ معاشرے کے مختلف ہنرمند افراد بے روزگار ہو جاتے ہیں اور ان سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر چلے جاتے ہیں اور دو وقت کی روزی روٹی کے لیے ان کے "نوکر" بننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
یہی سرمایہ دار جب عالمی سطح پر آتے ہیں تو ان کا کردار اور بھی زیادہ بھیانک ہوجاتا ہے۔سامراجی ممالک اپنے سرمائے کے پھیلاؤ کے لیے مختلف اقوام پر جنگیں مسلط کرتے ہیں پہلے ان کا بنیادی ڈھانچہ (Infrastructure) تباہ کیا جاتا ہے اور پھر جن ممالک پر جنگیں مسلط کی گئی ہوتی ہیں ان کی معیشت تباہ کر دی جاتی ہےاور ان ممالک کو سامراجی ممالک سے قرض لینے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔قرض کی یہ رقم دوبارہ سامراجی ممالک کی کمپنیوں میںConstruction کے نام پر منتقل کر دی جاتی ہے۔اور وہ ممالک پھر قرض کے چنگل میں جکڑے جاتے ہیں۔ان اقوام کو پھر تعلیم و صحت سے محروم رکھا جاتا ہے۔یہ بات محض مفروضے کی بنیاد پر نہیں کی جارہی بلکہ پچھلی دھائیوں میں عراق،مصر اور افغانستان میں لڑی جانے والی لڑائیوں پر غور کیا جائے تو ہم اس حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں۔
الغرض سرمایہ دارانہ نظام ایک ملک کی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک پوری طرح سے ہمارے معاشروں کو تباہ کر رہا ہے۔چند لوگوں کی حرص و ہوس اور "ھل من مزید" کی خواھش میں یہ نظام پورے معاشرے اور پھر آخر کار پوری دنیا کو تباہی و بربادی کے دہانے پر لے آیا ہے۔ہمارا معاشرہ بھی آج اس عالمی طاغوتی نظام کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ایسے ماحول میں پڑھے لکھے طبقے کو عدم تشدد کی بنیاد پر اس نظام کے خلاف اور متبادل انسان دوست نظام کے قیام پر اجتماعی طور پر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔خاص طورپرنوجوانوں کےلیے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ اس نظام کے خلاف مزاحمتی شعور حاصل کریں اور اس حوالے سے اجتماعی طور پر اپنی تربیت کرکے ایک طاقت پیدا کریں۔