سماجی تبدیلی کے ذمہ دار
قرآن نے زمین کی وراثت کے لیے کمزور اور پسے ہوئے باصلاحیت طبقے کا انتخاب کیا نہ کہ معاشرے کے اونچے بالادست طبقے کا۔
سماجی تبدیلی کے ذمہ دار
تحریر: سہراب غفور۔ اسلام آباد
یہ ہر باشعور انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی صلاحیت کے مطابق سوسائٹی میں مثبت تبدیلی کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالے۔ بعض لوگ اس کیفیت کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ہمارے معاشی حالات اور مجبوریاں اس چیز کی اجازت نہیں دیتیں کہ ہم کچھ کر سکیں۔ ہم تو بس اپنے لیے ہی کچھ کر لیں تو بڑی بات ہے۔
درحقیقت کوئی بھی باہر کا فرد یہ نہیں بتا سکتا کہ کوئی انسان کس درجے کی مجبوری کا شکار ہے۔ اس کے لیے انسان کو خود اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ وہ خدا کی عطا کردہ صلاحیتوں کو براہ انسانیت کی خدمت کے لیےکس حد تک صرف کر رہا ہے۔ اپنی صلاحیتوں کے گہرے ادراک اور ان کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان اونچی صلاحیت اور سیرت والے انسانوں کی معیت اختیار کرے۔ اس معیت و رفاقت کے نتیجے میں ہی انسان کو وہ سمجھ اور توانائی حاصل ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ درپیش رکاوٹوں کو عبورکرتاہوا اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو ایک اونچے اور عظیم انسانی مقصد میں صرف کر پاتا ہے۔
ظالمانہ نظام کے شکنجے میں جکڑے لوگوں کو قرآن حکیم ایک انتہائی اعلی سوچ سے یوں روشناس کرواتا ہے۔
وَنُرِیۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَی الَّلذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَنَجۡعَلَہُمۡ اَئِمَّۃً وَّنَجۡعَلَہُمُ الۡوٰرِثِیۡنَ (5:28)
ترجمہ: اور ہم چاہتے ہیں کہ احسان کریں اُن لوگوں پر جو کمزو رہوئے پڑے تھے ملک میں۔ اور کردیں اُن کو سردار اور کردیں اُن کو قائم مقام۔
اس آیت کریمہ میں واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ قرآن ایک ایسا تربیتی نظام پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جس کے ذریعے معاشرے کے مجبور، کمزور، معاشی تنگی میں جکڑے ہوئے کم حیثیت لوگوں میں قیادت کی صلاحیت پیدا کر کے ان کو اس زمین پر حکمرانی دی جائے۔ قرآن نے نظام ظلم کے مقابلے میں زمین کی وراثت کے لیے کمزور اور پسے ہوئے باصلاحیت طبقے کا انتخاب کیا۔
مزید وضاحت کے لیے ہمیں یقینا سیرت نبی کریم کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ نبی پاکؑ پر ایمان لانے والے اولین لوگوں کی اکثریت مکہ کی سوسائٹی کے مالی اعتبار سے نچلے طبقے مگر صلاحیت کے اعتبار سے اوپری طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔سابقون الاولون میں سے چند افراد کے حالات کا جائزہ لیجیے۔
۱۔ بلال حبشی رضی اللہ عنہ، امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ غلبہ دین کی جدوجہد میں شامل ہونے کی پاداش میں گرمیوں کے سخت موسم میں دوپہر کے وقت تپتی ہوئی ریت پر لٹایا جاتا اور سینے پر گرم پتھر رکھے جاتے۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے یہ ظالمانہ حرکتیں دیکھ کر اس کو ملامت کی تو اس نے جواب دیا کہ اسے تم نے ہی خراب کیا ہے۔
۲۔ صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ کو زبردستی غلام بنایا گیا تھا۔ غلبہ دین کی تحریک میں شمولیت پر سخت سے سخت تکلیف و پریشانی میں مبتلا رہے۔
۳۔ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ، ان کے والد یاسر رضی اللہ عنہ اور والدہ سمیہ رضی اللہ عنہا تینوں تحریک اسلام میں شامل ہونے والے اولین لوگوں میں سے ہیں۔ تحریک میں شمولیت کے بعد اپنے رشتہ داروں کے ہی ہاتھوں سخت سے سخت آزمائش میں مبتلا رہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کو اس حال میں دیکھتے تو صبر کی تلقین فرماتے اور جنت کی بشارت سنا کر مصیبت زدہ دلوں میں تسکین پیدا فرماتے۔ آخر کار حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کا اسی بے رحمانہ ایذا رسانی سے انتقال ہو گیا۔ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا نے ابوجہل کو اس غم میں کوئی سخت جملہ کہہ دیا۔ اس پر اس پتھر دل نے ان کے جگر میں نیزہ پیوست کر کے ان کو شہید کر دیا۔
۳ ۔ عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوتیلے بھائی کے بیٹے کے غلام اور شروع کے مسلمانوں میں سے ہیں۔ آپ بھی اپنے مالک کے ہاتھوں خوب پٹتے۔ رسی کا پھندا گلے میں ڈال کر آپ کو گھسیٹا جاتا۔ تپتی ریت پر لٹائے جاتے مگر تحریک سے منہ نہ موڑتے۔
صلح حدیبیہ کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہان وقت کو دعوت اسلام کی غرض سے خطوط لکھے۔ ایک خط ہرقل، قیصر روم کو بھی بھیجا گیا۔ ہرقل کے سامنے جب یہ خط پڑھا گیا تو اس نے دریافت کیا کہ عرب کا کوئی شخص آج کل یہاں روم میں موجود ہے تو اس کو حاضر کیا جائے تاکہ اس سے اس نبیؑ کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں۔ تفتیش کے بعد عرب کے ایک قافلے کا پتا چلا، جس کے سردار ابوسفیان تھے۔ یہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کاروبار کے لیے روم میں آئے ہوئے تھے۔ ہرقل اور ان کے درمیان جو گفتگو ہوئی، اس میں ہرقل نے یہ بھی پوچھا کہ اس نبی کے پیروکار معمولی لوگ زیادہ ہیں یا امراء و رئیس زادے۔ اس کے جواب میں ابوسفیان نے اس کو یہ بتایا کہ آپ ص کے ماننے والوں میں کمزور و کم حیثیت لوگ زیادہ ہیں۔ اس پر ہرقل نے تبصرہ کیا کہ انبیائےؑ بنی اسرائیل کی بھی یہی شان تھی اور نبی کے ماننے میں سبقت لے جانے والے اکثر کمزور و کم حیثیت لوگ ہی ہوتے ہیں۔
اوپر درج کیے گئے تمام واقعات سے یہ واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ نبوی تحریک میں early adapters کی اکثریت معاشرے کے کم حیثیت اور مالی طور پو کمزور لوگوں کی ہی تھی۔
قرآن نے مد مقابل ذہنیت کا بھی تجزیہ کیا کہ ان کا انداز تمسخر اڑانے کا ہوتا ہے تاکہ جدوجہد کرنے والوں کے حوصلے پست کیے جا سکیں۔ یہ وہ شکست خوردہ ذہنیت ہوتی ہے جو صالح فطرت لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر حسد کا شکار ہوجاتی ہے۔ ان کی تمام ترکوشش یہ ہوتی ہے کہ ٹھٹھہ اور جگت بازی کے ذریعے جدوجہد کے راستے پر چلنے والوں کو اپنے نظام کے اثر سے نکلنے نہ دیا جائے۔ ان کے تمسخر کا بنیادی نقطہ یہ ہوتا ہے کہ تم اتنے کمزور ہو، اپنی فکر کرو۔ تم سے یہ نہیں ہو گا، اتنی بڑی بڑی باتیں مت کرو وغیرہ وغیرہ۔ قرآن حکیم اسی ضمن میں حضرت شعیبؑ کا واقعہ بھی ذکر کرتا ہے:
قَالُوۡا یٰشُعَیۡبُ مَا نَفۡقَہُ کَثِیۡرًا مِّمَّا تَقُوۡلُ وَاِنَّا لَنَرٰٮکَ فِیۡنَا ضَعِیۡفًا ۖ وَّلَوۡلَا رَہۡطُکَ لَرَجَمۡنٰکَ ۖ وَمَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡنَا بِعَزِیۡزٍ ۔(91:11)
ترجمہ:بولے اے شعیب: ہم نہیں سمجھتے بہت باتیں جو تو کہتا ہے اور ہم تو دیکھتے ہیں کہ تو ہم میں کمزور ہے اور اگر نہ ہوتے تیرے بھائی بند تو تجھ کو ہم سنگسار کر ڈالتے اور ہماری نگاہ میں تیری کچھ عزت نہیں۔
معاشی ضروریات کے پورا کرنے کے لیے کوشش سے انکار نہیں مگر عظیم تر اہداف کے حصول کی جدوجہد میں معاشی مجبوریوں کے حیلے بہانوں سے کام لینا اصحاب عزیمت کا شیوہ نہیں ہے۔ نبی پاکؑ نے آسانی کے لیے دعا فرمائی، صبر کی تلقین کی مگر کسی ملازمت، کاروبار یا مال و دولت کی شرط عائد نہیں کی کہ اس کے حصول کے بعد ہی کوئی شخص تحریک کا حصہ بنے۔ آپؑ نے اپنے اصحاب کی اس نہج پر تربیت فرمائی کہ وہ سختیوں کو برداشت کرتے کرتے زیادہ منظم اور زیادہ مضبوط اعصاب کے مالک بنتے چلے گئے۔ وعدہ اگر آپ نے کیا تو اخروی سعادت کا کہ یقینا جس سے بڑی کامیابی کوئی بھی نہیں۔ اس لیے معاشرتی تبدیلی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے سفر کو سمندر کے سفر سے تشبیہ دی جاتی ہے کہ اس میں منزل سامنے نظر تو نہیں آتی مگر تاریخی شہادتیں یہ بتاتی ہیں کہ جن لوگوں نے اس سمت میں سفر کیا، وہ ضرور منزل مقصود تک پہنچے۔
آج ہمارے معاشرے کے باصلاحیت افراد کو عزم و ہمت کے ان میناروں کی سیرت کا مطالعہ کر کے اپنے لیے راہ عمل متعین کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اپنے ذہن میں خود ساختہ بیڑیوں کو توڑنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے معاشرتی تبدیلی کے عمل کو تیزی سے کامیابی سے ہمکنار کر سکیں۔