غلام ذہنیت کے اثرات ونتائج - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • غلام ذہنیت کے اثرات ونتائج

    ذھنی غلامی انسانیت کی فطرت کو مسخ کرتی ہے

    By حبیب الرحمان Published on May 27, 2020 Views 4611
    غلام ذہنیت کے اثرات ونتائج
    تحریر: حبیب الرحمان۔ اکوڑہ خٹک نوشہرہ

    کسی نے کیا خوب کہا ہے " اگر تم غلط کو غلط نہیں کہ سکتے تو تم غلامی کی اعلٰی ترین درجے پر ہو اور اگر تم غلط کو غلط نہیں سمجھتے تو تم جہالت کے اعلٰی ترین درجے پر ہو" یقیناً غلامی ایک لعنت و عذاب سے کم نہیں اور خاص کر جب غلامی، قوموں کے ذھنوں میں اتنی راسخ ہو جائے کہ غلام ہونےکا احساس ہی ختم ہو جاۓ یعنی جب  "غلاموں کو اپنی زنجیروں سے پیار ہو جاۓ" تو اس وقت آزادی و حریت کا پرچار نہایت دشوار عمل بن جاتا ہے. 
    ایک دفعہ سیاہ فام امریکیوں کےلیےآزادی کی خُفیہ تحریک چلانےوالی خاتون 'ہیرئیٹ تُبمان' سے یہ پوچھا گیا کہ اُنھیں سب سے زیادہ مُشکل کس چیز میں پیش آتی تھی ؟
    انھوں نے جواب دیا،  'غلاموں کو یہ یقین دلانا کہ وہ آزاد نہیں غلام ہیں'۔انسان جسمانی ذہنی فکری طور پر کسی کے جبروتسلط کے تابع ہو اور ان کی زندگی کے تمام وسائل واختیارات پر مسلط طاقت قادر ہو ایسے افراد اور قوم کو غلام کہا جاتا ہے۔
    غلامی ، قوموں کی فطرت کو مسخ کرکے ذھنوں پر اپنے اَن مِٹ نقوش چھوڑکر زوال اور پستی سے ہمکنارکرتی ہے اور پھر مرعوبیت کا مرض اس قدرسرایت کر جاتا ہےکہ اخلاق حمیدہ جیسے اعلٰی اوصاف نا پید ہو کر بدعملی اور بے عملی جیسے اخلاق رذیلہ پروان چڑھتے ہیں۔ 
    احساس کمتری پیدا ہونا، غیر فطری نظام حیات کو قبول کرنا اورحد درجے کی مایوسی کا طاری ہونا غلام ذھنیت کی عکاسی ہے۔اس قسم کا فکر و عمل قرآن اور اسلامی تعلیمات کے بھی بالکل منافی ہے۔ غلامی اور بندگی صرف اللہ ہی کے لیے ہے۔
    ۔اللہ تعالٰی کا صریح حکم ہے۔
    (وَ لَقَدۡ بَعَثۡنَا فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ  رَّسُوۡلًا ان اعۡبُدُوا اللّٰہَ  وَ اجۡتَنِبُوا الطَّاغُوۡتَ۔(النحل،36)
    ترجمہ: "اور واقعہ یہ ہے کہ ہم نے ہر امت میں کوئی نہ کوئی پیغمبر اس ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو ، اور طاغوت سے اجتناب کرو"
    یعنی ما سواۓ اللہ تعالٰی کے کسی قوم کے لیے جائز نہیں کہ وہ غیراللہ کے در پرجُھکےاور غیراللہ کے نظام کی غلامی قبول کرے .
      اللہ کی بندگی واطاعت  کے ساتھ تو طاغوت کے انکار کا حکم ہے. طاغوت  شیطانی اور غلامی کا وہ نظام ہے جس نے اللہ اور بندے کے درمیان رکاوٹیں حائل کی ہوئی ہوتی ہیں۔
    * آزادی  انسان کا بنیادی حق:
    آزادی انسان کا بنیادی اور پیدائشی حق ہے. جب فرعون نے بنی اسرائیل کو غلام بنا کر فرقوں میں بانٹ دیا اور اُن کی آزادی سلب کی تو حضرت موسیٰؑ کو اللہ نے حکم دیا 
    اِذۡہَبۡ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ  طَغٰی(النازعات،17)   
    ترجمہ :   فرعون کے پاس چلے جاؤ ، اس نے بہت سرکشی اختیار کر رکھی ہے 
    حضرت موسیٰ ع اپنے بھائی حضرت ھارونؑ کے ہمراہ آزادی کا پیغام لے کر فرعون سے مخاطب ہوتے ہیں۔
    اَنۡ اَرۡسِلۡ مَعَنَا بَنِیۡۤ   اِسۡرَآئیۡلَ(الشعراء،17)
    ترجمہ۔ ( اور یہ پیغام لائے ہیں ) کہ تم بنی اسرائیل کو(آزادی دے کر) ہمارے ساتھ بھیج دو ۔
    *طویل غلامی کے اثرات * 
    جب فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سےموسیٰؑ کو حکم ہوا  کہ بنی اسرائیل کو لے کر  اپنے وطن فلسطین میں جا کر آباد ہوں تو  موسیٰؑ نےقوم سے فرمایا
    یٰقَوۡمِ ادۡخُلُوا الۡاَرۡضَ الۡمُقَدَّسَۃ الَّتِیۡ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمۡ وَ لَا تَرۡتَدُّوۡا عَلٰۤی  اَدۡبَارِکُمۡ فَتَنۡقَلِبُوۡا خٰسِرِیۡنَ (المائدہ،21)
     ترجمہ۔"اے میری قوم ! اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے واسطے لکھ دی ہے ، اور اپنی پشت کے بل پیچھے نہ لوٹو ، ورنہ پلٹ کر نامراد جاؤ گے "
    لیکن طویل عرصہ فرعون کے مسلط کردہ غلامی کےنظام  میں رہنے سے غلامی طبیعتوں میں اس قدر راسخ ہوچکی تھی کہ بجاۓ ساتھ دینے کے موسیٰؑ سے کہا
    قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِنَّا لَنۡ  نَّدۡخُلَہَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوۡا فِیۡہَا فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ  اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ (24)
    ترجمہ۔ "وہ کہنے لگے اے موسیٰ ! جب تک وہ لوگ اس ( ملک ) میں موجود ہیں ، ہم ہرگز ہرگز اس میں قدم نہیں رکھیں گے ۔ ( اگر ان سے لڑنا ہے تو ) بس تم اور تمہارا رب چلے جاؤ ، اور ان سے لڑو ، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں "
    *غلام ذھنیت کے نتائج. *
    ہم اپنے گرد دو پیش کے حالات کا جائزہ لے کر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مِن حیثُ القوم ہم فکری و ذھنی غلامی کا شکار ہیں اور اس کے بَھیانَک نتائج ہم بُھگت رہے ہیںمثلا عام طور پر حقیقی تاریخ سے ناواقفیت اور اسے ماضی کی بُھول بَھلیوں سے تعبیر کرنا, نوجوان طبقے میں اجتماعی سوچ کے بجاۓ انفِرادیت کا پیدا ہونا، نا اُمیدی بڑھنےکے نتیجے میں ملک سے راہِ فرار ہی میں عافیت سمجھنا۔راتوں رات امیربننے کے خواب دیکھ کر یورپ کا (schengen visa) کےحصول کوگویا مستقبل کی کامیابی کا ضامن سمجھنا،مغربی ثقافت تہذیب و تمدن اختیار کرنے پر فخر کرنا،انگریزی زبان کو
    قابلیت و صلاحیت کا معیار سمجھنا، وغیرہ۔
    مذکورہ بالا غلام ذھنیت کے اثرات و نتائج کا سرسری مختصر خاکہ پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی انفرادی و اجتماعی حالت زار کا جائزہ لےکر طوقِ غلامی اتارپھینکیں، ان اثرات ونتائج سے بچیں اور صحیح معنوں میں حقیقی آزادی کا فھم و شعور حاصل کریں، قومی و اجتماعی سوچ کی بنیاد پرعادلانہ نظام کے قیام کے لیے منظم جدوجہد کریں اور اپنی کھوئی ہوئی شناخت حاصل کرکے دنیا کے لیے ایک مثال قائم کریں۔
    Share via Whatsapp