کورونا: نفسیاتی دباؤ اور شعوری تقاضے
کورونا وائرس سے پھیلی خوف وہراس کی فضا انسانوں کے رویوں اور ذہنی صحت پر گہری اثر انداز ہو رہی ہے
کورونا: نفسیاتی دباؤ اور شعوری تقاضے
تحریر : علی حیدر غوری ، اسلام آباد
دنیا اس وقت کورونا وائرس سے نمٹنے میں مصروف ہے جسے وبائی مرض ( Covid-19 ) کا نام دیا گیا ہے ۔ مبینہ طور پر چین سے پھیلی خوف و ہراس کا باعث بننے والی یہ بیماری انسان کی جسمانی صحت کےساتھ ساتھ ذہنی صحت پر بھی اثر انداز ہورہی ہے جبکہ دوسری طرف انسان کے مکمل صحت مند ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی جسمانی صحت کےساتھ ساتھ اس کی ذہنی صحت بھی حالت اعتدال میں ہو۔
گزشتہ دو تین ماہ سے ماس میڈیا اور سوشل میڈیا پر جس تسلسل اور مقدار میں اس بیماری سے متعلق خبریں اور معلومات شیئر ہوی ہیں اس سے کئی ذہنی بیماریوں نے جنم لیا ہے ان میں سے ایک Thanatophobia ہے، یہ اصطلاح ایک لاطینی لفظ "تھینا ٹوس" سے بنی ہے جس کے معنی موت کے ہیں۔ تھنیٹو فوبیا دراصل anxiety اینگزائٹی یا اضطراب کی ایسی شکل کا نام ہے جس میں انسان خود اپنی یا اپنے کسی پیارے کی موت سے خوفزدہ ہونے لگتا ہے۔ یہ بذات خود پیدا ہونے والی کوی ذہنی کیفیت نہیں ، بلکہ اس کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہوتے ہیں جیساکہ ذہنی دباؤ،ڈپریشن یا اینگزائٹی جن کوپیداکرنےمیں میڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔
موجودہ حالات میں میڈیا نے جلتی پے تیل کا کام کیا ایسا خوف وہراس پھیلایا کہ وبا کی اس ہولناکی میں دنیا غور وفکر سے بھی عاری ہو گئی اور عام انسان وبا کے حملے سے پہلے ہی مرنے کے خوف میں مبتلا ہو گئے۔جب موت کا یہ خوف انسانی ذہن پر اس قدر حاوی ہوجائے کہ روزمرہ زندگی کے معاملات اس سے متأثر ہونے لگیں تو ایسے میں احتیاط کے اضطراب سے زیادہ خبردار ہونے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ موجودہ حالات میں کورونا وائرس کو جس اندازمیں موت کا فرشتہ بنا کے پیش کیا جا رہا ہے، اس سے آنے والے دنوں میں کثرت سے ذہنی بیماریوں کے پیدا ہونے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔
اب تک کی دستیاب معلومات کے مطابق دنیا کے اکثر ماہرین سائنسدانوں اور ڈاکٹرز نے کورونا وائرس کو عام فلو جتنا ہی خطرناک قرار دیا ہے۔ حال ہی میں امریکہ کی اسٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جو کہ وائرولوجسٹ ڈاکٹر جان لیوایڈس نے کورونا وائرس کے متعلق اپنی مکمل تحقیق کے نتائج کا اعلان کیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے متعلق عالمی ادارہ صحت کی جانب سے شرح اموات کو %80 تک بڑھا کر بتایا جا رہا ہے جبکہ درحقیقت یہ وائرس موسمی نزلہ جتنا ہی خطرناک ہے۔
اس کے علاوہ کورونا وائرس اور انسانی قوت مدافعت کے متعلق ایک اور امریکی سائنسدان "کناٹ وکوسکی" جو کہ راک فللر یونیورسٹی کے شعبہ بائیو سٹاٹسٹک ایپیڈمیالوجی کے سربراہ ہیں ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی تنفس سے منسلک بیماریوں میں خطرہ بوڑھے افراد کو سب سے زیادہ ہوتا ہے۔،جبکہ بچوں کو اس قسم کی بیماریوں سے زیادہ خطرہ نہیں ہوتا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ وائرس بوڑھوں کو لگ بھی جائے تو یہ محض چار ہفتوں بعد ان کے جسم سے ختم ہو جاتا ہے۔ ان کا مزید یہ کہنا ہے، کہ قدرت کے اصول کے مطابق اس وائرس کو پھیلنے دینا چاہیے کیونکہ یہ وائرس 80 فیصد افراد کو لگ بھی جائے تو پتہ ہی نہیں چلے گا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ حکومتیں اور سیاستدان اس سے دور رہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن اور جبری سماجی دوری وغیرہ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس سے حالات مزید خراب ہوں گے اور لوگ نفسیاتی بیمار ہو جائیں گے۔
معاشرے میں اس وقت خوف کی وبا اس حد تک پھیلائی جا چُکی ہے کہ اگر کسی شخص کے بارے معلوم ہو جائے کہ اسے کورونا کی تشخیص ہوئی ہے تو اس شخص کو اچھوت سمجھ کر معاشرے سے الگ کر دیا جاتا ہے۔اگر کورونا وائرس کو کچھ حدتک خطرناک مان بھی لیا جائے، تو اس وائرس کے ذریعے بتائی جانےوالی اموات کو لےکر روز بروز بہت سے ماہرین عالمی ادارہ صحت کے جاری کردہ اموات کے اعدادوشمار پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ جیساکہ حال ہی میں امریکی سینیٹر، فزیشن ڈاکٹر سکاٹ جانسن نے 8 اپریل کو (Valley News) اور 9 اپریل کو (Fox News) پر لائیو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ عالمی ادارہ کی جانب سے گورنمنٹ کے ذریعےکے کورونا کے مریضوں کی تعداد کو جان بوجھ کر بڑھایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس ایک 88 سالہ شخص ایکسپائر ہوا اور مجھ پر یہ دباؤ آیا کہ آپ اسے ( Covid-19 ) میں کاؤنٹ کریں مگر میں نے اس غیر اخلاقی کام سے انکار کر دیا۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں گورنمنٹ نے دمہ، بخار، کھانسی، زکام یا الرجی کے مریضوں کو ( Covid-19 ) میں کاؤنٹ کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہسپتالوں کو ہر جنرل میڈیکیور کیسز کو ( Covid-19 ) میں کاؤنٹ کرنے پر 13000 ڈالر ملیں گے اور اگر مریض کو وینٹیلیٹر پر رکھا تو اس کے 39000 ڈالر ہوں گے۔ ڈاکٹر سکاٹ جانسن کا کہنا ہے کہ جس طرح ان حالات میں اموات کی تعداد کو بڑھایا جا رہا ہے وہ موجودہ حالات میں خطرناک اور خوف سے بھرپور ہے۔
بھارتی نژاد امریکی ڈاکٹر شیوا آیادور بایولوجیکل انجینریگ میں پی ایچ ڈی ہیں۔ان کا واضح موقف ہے کہ موجودہ صورت حال محض امریکی ارب پتی بل گیٹس اور امریکی صدر کے مشیر ڈاکٹر فوچی کا کیا دھرا ہے۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر راشد بٹر امریکی بائیولوجسٹ ہیں وہ بھی کورونا وائرس کے جاری حالیہ بحران کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سب انسانیت کے خلاف ایک مخصوص گروپ کی سازش ہے جس کا مقصد دنیا کی معیشت کو تباہ کرنا ہے ۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ، کورونا وائرس اتنا خطرناک نہیں جتنا میڈیا پر اس کو ایک خوفناک وبا کے طوہر پر پیش جا رہا ہے۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں کورونا وائرس کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی دی گئی تعداد نے لوگوں کو بےحد خوفزدہ کر دیا ہے اور امکان یہ ہے کہ لوگوں میں (Fear of death) جیسی ذہنی کیفیات سنگین روپ دھار سکتی ہیں، اور خاص طور پر وہ افراد جو ( Covid-19 ) سے بالواسطہ یا بلا واسطہ متأثر ہوئے یا جن کے قریبی و عزیز اس وبا کا شکار ہوئے ان میں تھینیٹو فوبیا پیدا ہونے کے واضح امکانات ہیں۔ اسی لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ذہنی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو کورونا وائرس کی خبروں سے دور رکھیں کیونکہ ہر وقت کورونا کے بارے سوچتے رہنے سے آپ ڈپریشن یا نروس بریک ڈاؤنDepression Nervous Breakdown کاشکار ہو سکتے ہیں۔
خوف کا مسلسل تسلط انسانی عقل کو مار دیتا ہےاور انسان سوچنے سمجھنے سے عاری ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں عقل کا درست استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں یہ چاہیے کہ ہم حالات پر گہری نظر رکھتے ہوئے دستیاب معلومات کا صحیح تجزیہ کریں۔ بحیثیت ایک زمہ دار شہری کے ہماری یہ اولین ترجیح ہونی چاہیے کہ پراپیگنڈے کے اس سیلاب میں ہم سچ اور جھوٹ کو پہچانیں، اور خوف میں مبتلا ہونے کے بجائےعقل وشعورکے ساتھ علمی بنیادوں پر حالات کا جائزہ لیں۔ اگر ہم نےابھی بھی حقیقت سےآگاہی حاصل نہ کی اوراسی طرح موت کے خوف(جیسا کہ حالیہ دور میں دہشتگردی کا خوف ہم پر مسلط رہا ہے) میں مبتلارہے اور عالمی سامراج کے خوف کےاس کاروبار کو نا سمجھ سکے تو یقین مانیے کہ وقت گزرنے پر ہمارے پاس 'کورونا' سے 'کو'ہٹا کے صرف 'رونا' رہ جائے گا۔