سماجی تبدیلی کے لیےتحریک کی ناگزیریت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سماجی تبدیلی کے لیےتحریک کی ناگزیریت

    سماجی تبدیلی تنقید سے نہیں تدبیر اور تحریک سے رونما ہوتی ہے۔

    By حبیب الرحمان Published on May 05, 2020 Views 1230
    سماجی تبدیلی کے لیےتحریک کی ناگزیریت
    تحریر:حبیب الرحمان, اکوڑہ خٹک نوشہرہ

    کہا جاتا ہےکہ تنقید براۓ اصلاح ہو تو یہ نہایت مفید عمل ہے اگر اس کےبر عکس محض تنقید براۓ تنقید ہو تو یہ بغض وعناد پر مبنی ذھنیت کی عکاسی کرتا ہے۔
    اظہار راۓ کی آزادی ہو یا تقریرکی آزادی دونوں کا حق انسان کو حاصل ہےلیکن اگر ہم اپنے معاشرے کا تجزیہ کریں تو یہاں پرسوشل میڈیا کے بے لاگ اور غیر شعوری استعمال کی بدولت ہر خاص و عام سیاسی و معاشی شعبے کا عالمی مدبر و مبصر بناہوا نظر آتا ہے۔ کئی ایک تو سُنی سُنائی باتوں کو لے کر ذھنی عیاشی کا سامان کرتے ہیں۔
    ایک طبقہ وہ ھےجو اپنے آپ کو دانشور و تجزیہ نگار گردانتے ہیں۔ چند ایک ان میں سے اپنی علمی دھاک بٹھانے اور تنقید براۓ تنقید کے لیے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوۓ آۓ روز کسی نہ کسی چینل پر نمودار ہو کر زمین و آسمان کے قلابے ملاتے نظر آتے ہیں ہر دانشور و تجزیہ نگار اپنے اپنے سکول آف تھاٹ(school of thought) کے نظریات کی نمائندگی کرتےہوۓ ابن الوقت بن کر حالات حاضرہ اور مسائل کے حل پر بات کم اور تنقید زیادہ کرکے نظر آتے ہیں اور اسی طرح دوسرا طبقہ اُن راہب پیروں,علمی مفکرین, تجزیہ نگاروں اور فلسفیوں پر مشتمل ہے جو عمل سے بیگانے اپنا علمی چھاپ مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔  وہ تحریری حربہ استعمال میں لا کرمحض تنقیدی و فرقہ وارانہ نقطہ نگاہ سے مسائل پر قلم اٹھاتےہیں۔اوربال کی کھال تک اتار تے ہیں۔یعنی مسلکی اختلافات ، فروعی  اختلافی مسائل, مناظروں اور مباحثوں کے عنوانات پر کتابیں لکھ کر گویا اس کو زندگی کا نصب العین سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ لوگ  وقتی اورحادثاتی واقعات کی تاک میں بیٹھے رہتے ہیں اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اپنی علمی پیاس بجھانے اور قیاس آرائیوں کا بھرپور استعمال کرکے اپنےقارئین اور ناظرین سے خوب داد وصول کرنے اوراپنےاندرکےمرض حُب جاہ کو تقویت دینے میں بظاہر کامیاب نظر آتے ہیں۔
    ایسی ذھنیت کا قرآن نےکچھ یوں نقشہ کھینچا ہے۔ ارشاد ہے :
      " يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ"سورۃالصف،2
    "اے ایمان والو کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے."
    یعنی ایسے لوگ جن کہ قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے اور محض ذھنی عیاشی کرکے عمل سے کوسوں دور ہوتے ہوۓ اپنی قومی واجتماعی حالت کو سدھارنے کی سعی نہیں کرتے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر ذھن میں کئ سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا محض تنقید براۓ تنقید سےکبھی  مسائل حل ہوئے ہیں؟ یا ہو سکتے ہیں؟کیا محض حالات حاضرہ پر جذباتی اورجوشیلی تقریر کرکے سُلگتے ہوۓ مسائل حل ہو سکتے ہیں؟کیا میدان کار زار سےدور بیٹھ کر تنقیدی عینک لگا کر محض تنقیدی جائزے لے کر ھم اپنی قومی حالت سدھار سکتے ہیں؟یقینا جوابات نہیں میں ہوں گے۔
    ایسی صورت حال میں قران کریم کی واضح تعلیمات ہماری رہنمائی کرتی ہیں ارشاد باری تعا لیٰ ہے۔
    " اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِهِمۡ‌ؕ وَاِذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوۡمٍ سُوۡۤءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ‌ وَمَا لَهُمۡ مِّنۡ دُوۡنِهٖ مِنۡ وَّالٍ‏"سورۃ الرعد:11
    " بےشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں، اور جب کسی قوم سے برائی چاہے تو وہ پھر نہیں سکتی، اور اس کے سوا ان کا کوئی حمایتی نہیں"
    دنیا میں ہمیشہ انقلابات عملی جدوجھد کے نتیجے میں برپا ہوۓ ہیں محض اعلیٰ نظریہ کوئی معنی نہیں رکھتا امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ
     فرماتے ہیں اعلیٰ نظریے کی پہچان یہ ہےکہ وہ عمل پر اُکساۓ، حضور,ﷺ نے جب توحید کا نظریہ پیش کیا تو محض وعظ و نصیحت پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عملی جدوجھد کی طرف گامزن ہوۓ اور صحا بہ کرامؓ اجمعین کی جماعت کی تشکیل و تربیت کرکے مکہ کے ظالمانہ،مشرکانہ اور استحصال پر مبنی نظام کو شکست دے کر دین اسلام کے نظام کو غالب کرتے ہیں۔ اور ایسی جماعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ ﷻ  کی نُصرت کا وعدہ ہےجیسے قرآن حکیم میں ارشاد ہے:
    ٌٌ" وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَـيَسۡتَخۡلِفَـنَّهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ كَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمۡ دِيۡنَهُمُ الَّذِى ارۡتَضٰى لَهُمۡ وَلَـيُبَدِّلَــنَّهُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِهِمۡ اَمۡنًا‌ ؕ يَعۡبُدُوۡنَنِىۡ لَا يُشۡرِكُوۡنَ بِىۡ شَيۡــًٔــا‌ ؕ وَمَنۡ كَفَرَ بَعۡدَ ذٰ لِكَ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ‏" سورۃ النور،55
    "اللہ نے وعدہ دیا ان کو جو تم میں سے ایمان لائے اور اچھے کام کیے کہ ضرور انہیں زمین میں خلافت دے گا جیسی ان سے پہلوں کو دی اور ضرور ان کے لیے جمادے گا ان کا وہ دین جو ان کے لیے پسند فرمایا ہے اور ضرور ان کے اگلے خوف کو امن سے بدل دے گا میری عبادت کریں میرا شریک کسی کو نہ ٹھہرائیں، اور جو اس کے بعد ناشکری کرے تو وہی لوگ گمراہ ہیں"
     اٹھارویں صدی کے صنعتی انقلاب کے بعد فیوڈل ازم (Feudalism) کی کوکھ سے کیپٹل ازم (Capitalism) نے جنم لیاجو امیروں کے ہاتھوں غریبوں کے استحصال کا نیا نظام تھا اور جس نے بُری طرح انسا نیت کو مسائل سے دو چار کیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کی معاشی ناہمواری کے خلاف نفرت و انتقام کی فِضا قائم ہوئی۔ کال مارکس ( 1883-1818)  نے سرمایہ داری نظام کے ستائے ہوۓانسانوں کےلیے داس کیپیٹل (1866) لکھ کر سرمایہ داری نظام کا متبادل اشتراکی نظام  کا نظریہ پیش کیا۔
    اسی اشتراکی نظریےکو سماجی شکل یعنی عملی تحریک کا جامہ روس کے  انقلابی رہنما لینن(Viladmir linen) نے پہنا کرجدوجھد شروع کی جو پوری دنیا میں مشھور ہوئی اور بالآخر لینن کی قیادت میں 1917 میں کمیونسٹ انقلاب برپا ہو۱ ۔
    اسی طرح اشتراکی فلسفے پر عملی تحریک پیدا کرکے ماؤزے تنگ Mao Tse Tung) کی قیادت میں 1949 میں چین میں انقلاب برپا کیا۔
    اگر ہم ایران کے انقلاب کی بات کریں تو اس کے پیچھے آیت اللہ خمینی اور ان کی جماعت کی تحریک کی سالوں کی منظم جدوجھد کارفرما ہے اور با لآخر وہ شاہ ایران محمد رضا پہلوی کی امریکہ نواز حکومت کا تختہ اُلٹ کر 1979 میں انقلاب برپا کرتے ہیں۔اسی طرح بیسوی صدی کے درمیان کئی مسلم ممالک نے آزادی کی تحریکات چلائیں اور آزادی حاصل کی مثلاٌمصر,سوڈان,لیبیا وغیرہ۔
    دور جانے کی ضرورت نہیں یے ھندوستان میں ولی اللٰہی خاندان کی تحریک آزادی کا سلسلہ انگریز سامراج کے خلاف  مغل حکمران اورنگزیب عالمگیرؒ کے وفات کے بعدامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے  فکُ کُلِ نظام  کے نظریہ پیش کرنےسے شروع ہو کر اور فتویٰ دارُالحَرب(1804) شاہ عبدالعزیزؒ سے ہوتے ہوۓ یہ تحریک آزادی ہمیں بالا کوٹ (1831)  میں سید احمد شھیدؒ اور شاہ اسماعیل شھیدؒکی قیادت  میں شہادت نوش کرنے کی شکل میں نظر آتی۔ اور اسی تحریک ہی کی کڑی ہیں جو 1857 کی جنگ آزادی کے میدان جھاد میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے نظر آتے ہیں۔ کبھی اس تحریک پر علمی چادر چڑھائی جاتی ہے اور کبھی 1916میں  تحریک ریشمی رومال کی شکل میں اظہا ر ہوتا ہوا تحریک ترک موالات ،تحریک خلافت سے ہو کر بالآخرانگريز سامراج سے آزادی کی شکل میں کامیابی نصیب ہوتی ہے۔
    اس مختصر جائزہ کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سماجی تبدیلی مشروط ہے عملی تحریک سے اور یہ تبھی ممکن ہے کہ ہم محض تنقیدی بحث و مباحثے سے نکل کر قوم کے با شعور و مخلص نوجوانوں کے سامنے نظام ظلم کی پہچان کرا کے متبادل نظام عدل کا خاکہ سامنے رکھیں۔ اس کے ساتھ  عدم تشدد کی حکمت عملی پر کاربند ہوکرمنظم جدوجھد کی طرف راغب کیا جاۓ اور دین اسلام کو حقیقی معنوں میں معاشرے میں غالب کرکےاجتماعی مسائل حل کر سکیں۔
    Share via Whatsapp