کائناتی نظام اور اجتماعیت پسندی - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • کائناتی نظام اور اجتماعیت پسندی

    ائنات کا یہ وسیع نظام ہمیں اجتماعیت پسندی کے نظریہ کا درسِ دیتی ہے

    By یاسر Published on May 11, 2020 Views 2162

    " کائناتی نظام میں اجتماعیت اور ہماری ذمہ داری "

    تحریر ؛ یاسر علی سروبی ، مردان


    اجتماعیت کا معنی اکھٹا ہونا ہے یعنی ایک ایسے نظریہ پر اکھٹا ہونا جس سے اجتماعی ترقی  مقصود ہو ، سوسائٹی میں ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں توزان ہو کہ قدرتی وسائل سے تمام انسان بلا تفریق رنگ ، نسل ، مذہب برابری کی بنیاد پر استفادہ کریں ۔ اگر ہم اس کائنات کے نظام پر غور وفکر کریں تو معلوم ہوگا کہ اس کو بھی آللہ تعالیٰ نے توزان کے اصول پر تخلیق کیا ہے ۔ کائنات میں اللّٰہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چار فطری قوتیں ہے ، جن کا تعلق مادے سے ہے جس کے ذریعے اس مادی کائنات میں توزان قائم ہے ، جس میں  electro , magnetism gravitational , strong nuclear اور weak nuclear  قوتیں شامل ہیں ۔ جس سے پوری کائنات کا مادی نظام توزان کے ساتھ اربوں سال گذرنے کے بعد بھی قائم و دائم ہے جس میں کبھی خلل نہیں پیدا ہوا ۔ بالفرض اگر اس میں ذرہ بھر بھی عدم توزان پیدا ہوا تو وہ تباہی اور بربادی کے طور پر سامنے آئے گا ۔

    " توزان کا اصول "

     اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا :

    "نہ تو سورج سے ہو سکتا ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آسکتی ہے اور سب اپنے اپنے دائرے میں تیر رہے ہے ۔سورہ یسین ؛ 40

    ستاروں کے جھرمٹ کو کہکشاں کہتے ہیں ۔

     تحقیق کے مطابق کائنات میں دو کھرب کہکشائیں ہیں ۔ ہر ایک کہکشاں میں تقریباً سو ہزار ملین ستارے ہیں ۔ ہر دو ستاروں کا اپنا نظام شمسی ہوتا ہے ، پھر ہر نظام شمسی میں سینکڑوں دنیائیں ہیں ۔ یہ کل کائنات کا پانچ فیصد مادہ ہے جسے ہم دیکھ سکتے ہیں ۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ انسان نے اس تک غیر معمولی رسائی حاصل کرلی ہے ، باقی 25 فیصد تاریک مادہ اور 70 فیصد تاریک توانائی ہے جس کے بارے میں سائنسی معلومات ناکافی ہیں ۔مندرجہ بالا قوتوں میں سے کششس ثقل اس سارے مادے کے بڑے ذرہ ( macroscopic level ) پھر اور باقی مانند تین قوتیں اسی مادے کے چھوٹے ذرے ( microscopic level ) پر کام کرتی ہیں اور اس میں انہوں نے توزان برقرار رکھا ہوا ہے ۔ سارے کائناتی نظام کے استحکام میں یہ قوتیں کار فرما ہیں ۔ جس کے ذریعے کائنات کے اس مادی نظام میں توزان کا اصول قائم ہے ۔ اب جس طرح کائنات کے اس نظام کے لیے توزان ناگریز ہے ، اسی طرح انسانی معاشرے کے لیے بھی توزان کا اصول ناگریز ہے ۔ جب انسان مدنی الطبع ہے اکیلے زندگی گزارنا اس کی طبیعت نہیں اس لیے اس کی ترقی اجتماعی نظام ہی سے ممکن ہے ۔ جس طرح انسان کا خود اپنا جسم اجتماعی نظام سے چلتا ہے ۔ جسم کے ایک بھی عضو میں درد سارے جسم کو تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے ، اسی طرح انسانوں کے میل جول سے خاندان وجود میں آتا ہے ۔ ہر خاندان کا فرد اپنے خاندان میں مستقل حیثیت رکھتا ہے اس کا درد سارے کنبے کو محسوس ہوتا ہے ۔ اس طرح خاندانی نظام سے شہری نظام وجود میں آتا ہے جو ملکی نظام کہلاتا ہے اور پھر بین الاقوامی نظام وجود میں آتا ہے لہذا انسانوں کے لیے اجتماعیت ناگریز ہے ۔ ایک صالح اجتماعیت سے ہی فرد کی ترقی ممکن ہے ۔ اسلام سارے انسانوں کو ایک اجتماعی نظام میں لاکر ان کی مادی و روحانی ترقی چاہتا ہے جسے امام شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃاللّٰہ علیہ نے ارتفاقات اور اقترابات سے تعبیر کیا ہے ۔ اس کے لیے بھی توزان کا اصول لازمی ہے ۔ اگر اجتماعیت میں توزان نہیں ہو گا تو پھر کائناتی نظام کی طرح فطرتاً اس میں بگاڑ پیدا ہو گا جس کا نتیجہ فرد کی ذلت و رسوائی اور ترقی معکوس ہو گی ۔ جس کے ذریعے انسانی معاشرے میں انفرادیت پسندی کا رجحان بڑھے گا کیونکہ اجتماعیت کا نظریہ انسانیت کا ترجمان ہے جب کہ اس کی ضد انفرادیت ہے ۔ انفرادیت پسندی ایک بھوت ہےجس سے معاشرے میں خود غرضی ، مفاد پرستی ، جمود ، بے شعوری ، سرمایہ پرستی ، نسل پرستی ، فرقہ واریت ، جہالت و تنگ نظری جیسے بے شمار تخریبی عناصر و عوامل سامنے آتے ہیں ۔ اس لیے آج ملک کے با شعور نوجوانوں کو یہ غور وفکر کرنا چاہیے کہ جس طرح کائنات کا نظام اجتماعی ہے یہ ہمیں بھی اجتماعیت پسندی کا درس دیتا ہے ۔

     انسانی معاشرے کے لیے یہ ضروری ہے۔ اس کے بغیر مادی و روحانی ترقی ممکن نہیں ۔ اسی طرح انفرادیت پسندی کا غلط تصور معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے ۔ اسی انفرادیت نے ہمارے ذہنوں کو اپاہج کردیا ہے جس سے باصلاحیت نوجوان صرف اپنے میں مگن ہو کر اپنی قومی و دینی فریضے کو بھول گیا ہے ۔ جس سے ہمارا معاشرہ روز بروز زوال کی گہرائی میں جا گرا ہے ۔ اب اگر اس کی سانسیں دوبارہ بحال کرنی ہیں تو اس کے لیے نوجوانوں کو اپنے دینی فریضے کی ادائیگی کے لیے انفرادیت پسندی کے بھوت سے آزادی حاصل کرنی ہوگی اور اپنے حصے کی ذمہ داری نبھانا ہوگی ۔

    Share via Whatsapp