سماجی ترقی کا درست مفہوم
"فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں"
سماجی ترقی کا درست مفہوم
تحریر: محمد اویس حسین، (لیاری، کراچی)
سماج کی تشکیل انسانی فطرت کا بنیادی خاصہ ہے۔اس کرۂ ارض پر انسان نےہمیشہ اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ مل کر زندگی بسر کی ہے۔معاشرے سے کٹ کر انسانی زندگی کا کوئی تصور بھی انسانی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتا۔بقولِ شاعر
؎فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
انسانی زندگی مسلسل آگے بڑھتےرہنے کا نام ہے جبکہ جمود موت کی علامت ہے۔آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے لیے یہ لازم ہے کہ معاشرے کو ایک ایسے نظم وضبط کی لڑی میں پرو دیاجائے جس کے نتیجے میں تمام افرادِ معاشرہ کی ضروریاتِ زندگی کی کفالت ہوسکےاور اس مقصد کےحصول کے لیے انسانوں کا مل جل کر ایک نظام کےما تحت زندگی بسر کرنا ضروری ہے۔ سماج سے کٹ کر نہ تو فرد کی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل ممکن ہےاور نہ ہی اس ارتقاءکا حصول ممکن ہے کہ جو انسانی فطرت کا بنیادی تقاضاہے۔انسانیت نے گزشتہ چھ سات ہزار سال کی معلوم تاریخ میں اپنی زندگی کے ہر شعبے میں جتنی بھی ترقی کی ہے جس میں انسانوں نے قبائلی اور قصباتی زندگی سے آغاز کرکےآج ایک بین الاقوامی طرز کی زندگی اختیار کی ہے۔یہ دراصل انسانوں کی ترقی پسندی کے اسی فطری خاصے کا مظہر ہے۔
دین اسلام جو دینِ فطرت ہے اس کا بنیادی مقصد ہی انسانوں میں ایک اجتماعیت کے قیام کے ذریعے ان کے باہمی تعلقات کو درست کرنا اور انھیں عدل وانصاف کی لڑی میں پروتے ہوئے اس کے لیے نہ صرف اس دنیا میں ترقی کے مواقع بہم پہنچانے ہیں بلکہ موت کے بعد بھی اسے اعلیٰ ترقیات سے ہمکنار کرنا ہے۔لیکن اگر سماج کی شیرازہ بندی اس اعتبار سے کی جائے کہ جس میں کل افرادِ معاشرہ کے بجائے چند مخصوص طبقات کو تو ان کی ضروریاتِ زندگی میسر آئیں اور انھیں ترقی کرنے کے مواقع عطا کیے جائیں اور یہ سہولت عام عوام کے لیے دستیاب نہ ہو تو ایسے معاشرے فرسودہ معاشرے کہلاتے ہیں ۔
اس لیے دینِ اسلام نے ہردور میں سماجی ترقی کا وہ تصور دنیا میں متعار ف کرایا ہے جس کے ذریعے تما م انسانوں کو یکساں طور پر ان کی بقا اور ترقی کے مواقع میسرآسکیں۔سماجی ترقی کا یہی تصور لے کر ہردور میں حضرات انبیاؑ مبعوث ہوئےجنھوں نے اپنی جدوجہد سے ان عناصر کا قلع قمع کیا جن کے غاصبانہ تسلط کے نتیجے میں ایک مخصوص طبقہ جس کا تعلق سماج میں موجود اشرافیہ سے تھا، وہ تو ترقی کر رہا تھا لیکن عام انسانیت اپنے حقوق سے محروم، بری طرح سسک رہی تھی۔اس لیےہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی ان مکروہ عناصر کے قبضے سے انسانیت کو رہائی ملی تو نہ صرف انسانوں کی روزمرہ احتیاجات کی تکمیل مناسب انداز میں ممکن ہوئی بلکہ معاشرے حقیقی معنوں میں ترقی کی راہوں پر گامزن ہوئے اور یہ ترقی نہ صرف مادی اعتبار تھی سے بلکہ انبیا علیہم السلام اور ان کے متبعین کے قائم کردہ معاشرےتو اعلیٰ ترین انسانی اقدار کے نمونے کے طور پربھی دنیا میں جلوہ گر ہوئے۔اسی سلسلے کی آخری کڑی حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ ؐ کی قائم کردہ جماعت صحابہ ؓ نے اپنی بے لوث جدوجہد سے انسانیت کے لیے ترقی بخش نظام کے قیام کے جو انمٹ نقوش تاریخ کے صفحات پر چھوڑے ہیں وہ آج بھی اپنے نام لیواؤں کو اسی نہج پر قیام معاشرہ کی دعوتِ فکر وعمل دے رہے ہیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ دین اسلام، انسانی ترقی کا ایک جامع اور مربوط تصور پیش کرتا ہےاور وہ یہ کہ معاشرے میں عدل و انصاف کا ایک ایسا انسانیت دوست نظام قائم کیا جائے کہ جس میں انسانیت کواس کے تمام تر مادی حقوق یکساں طور پر پہنچائےجس کے لیے سماج میں سے طبقاتیت ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور ظلم اور بربریت کا خاتمہ ناگزیر ہے اور یہیں سے انسانیت کی مادی ترقی کی راہیں کھلتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کل انسانیت کے لیے اخلاقی اور روحانی ترقی کا ایک سازگار ماحول بھی میسر آتا ہے۔
آج ہمارے گردوپیش میں ہمارے زوال کا تو رونا تو خوب رویا جاتا ہے،دنیا کی دیگر اقوام کی مثالیں دے کر ہمیں عار بھی دلائی جاتی ہے لیکن ان اسباب کا تعین نہیں کیا جاتا کہ جن کی وجہ سے عام انسانیت بالخصوص مسلم معاشرے ترقیات سے محروم ہیں،زیادہ سے زیادہ ہمیں یورپین اور امریکن ماڈلز کو اختیار کرنےکا مشورہ دیاجاتا ہے حالانکہ گزشتہ دو صدیوں سے دنیا پر جو مصائب و آلام نازل ہورہے ہیں وہ دراصل سامراج ہی کے انسانیت دشمن طرزِ عمل کا شاخسانہ ہیں کیونکہ جب دنیا کے اکثر وسائل پر یہ انسان نما درندے قابض ہو جائیں گے تو دیگر اقوام کی ترقی کیسے ممکن ہوگی؟
اس لیے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانیت کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لیے انسانوں کو سرمایہ داری نظام کے تسلط سے نجات دلائی جائے اور اسلام کے عادلانہ نظام کے قیام کے لیے اجتماعی شعوری جدوجہد کی جائے۔