ملی و قومی مسائل کا حل اور اسوہ انبیاء
دعوت اور جماعت سازی کا طریقہ قرآن و سنت کی روشنی میں
ملی و قومی مسائل کا حل او راسوہ انبیاء
تحریر: حافظ طلحہ اختر، ایگریکلچر یونیورسٹی۔فیصل آباد
قیام پاکستان کے 70 سال بعد ملکی حالات کاجائزہ لیں تومسائل بڑھتے چلےجا رہے ہیں۔ جو بھی نئی حکومت منتخب ہوتی ہے، اقتدار سنبھالنے سے پہلےان کا نعرہ یہی مسائل ہوتے ہیں لیکن بعد میں حکومت ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے ان کو استحصال کی بنیاد بنالیتی ہے۔ پاکستانی قومیت کی تشکیل اسلام کے نام پر کی گئی۔ اس حوالے سے اس کے مسائل کا جائزہ دو بنیادوں پر لیاگیا ہے۔
1) ملی مسائل 2) قومی مسائل
ملی مسائل:
ایسے مسائل جن کا حل مذہبی تعلیمات کی روشنی میں پیش کیا جاتا ہے، مثلاً مذہب اسلام کا یہ دعوی اور تاریخی کردار کہ وہ انسانی زندگی کے تمام پہلؤوں (سماجی،سیاسی،معاشی) پر رہنمائی کرتا ہے ۔ آج غور یہ کرناہےکہ مساجد ان اجتماعی مسائل کا کیا حل پیش کرتی ہیں؟ جب کہ مسجد نبوی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کی سیاست کا مرکز بنایا۔ تمام ریاستی فیصلے اور شوریٰ کی تمام میٹنگز اسی مسجد میں ہوتیں۔ جب کہ آج مسجد کا نمائندہ اور مذہبی طبقہ کہتا ہے کہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا تم اللہ اللہ کرو اور اپنی آخرت سنوارو جب کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں وہ دعا سکھائی جس میں مسلمانوں کو دنیا اور آخرت دونوں کی بہتری کی ہدایت کی گئی۔ چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے ہمیں جامع دعا سکھلائی :
"اے اللہ ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر،اور آخرت میں بھلائی عطا کر،اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا"۔(2:201)
اگر بندگی محض عبادت تک محدود تھی تو دنیا کی بھلائی سے کیا مراد ہے؟ جب مساجد اور مذہب مسائل کا حل دینے سے قاصر ہوں تو نوجوان مذہب سے دور ہو جاتے ہیں۔ اگر تاریخ میں مسجد کا کردار توجامع تھا یعنی خدا پرستی اور انسان دوستی سکھاتی ہے توآج مساجد اجتماعی کردار سے کیوں قاصر نظر آتی ہیں؟ آج مسجد میں معاشرتی مسائل کی راہنمائی کا کوئی سامان نہیں ۔ آج نمازی ہزاروں ہیں، لیکن معاشرت پر اثرمرتب نہیں ہورہا جیسا کہ نماز کے مقاصد میں بتلایاگیا کہ "نماز بے حیائی اوربری بات سے روکتی ہے"۔ (29:45)
قومی مسائل:
ایسے مسائل جن کا تعلق ریاست سے ہے ۔ مسلمہ عالمی روایت کے مطابق ہر ریاست کی ذمّہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو امن،عدل و مساوات،روٹی،کپڑا،مکان اور دیگر بنیادی انسانی حقوق مہیا کرے۔ اگر وہ یہ سب مہیا کرنے سے قاصر ہے تو اس ریاست کے نظام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جس کے سبب اداروں میں خرابی موجود ہے۔اس ریاستی نظام کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج سب سے بڑی غلط فہمی یہ پیداکی گئی ہے کہ ملی اور قومی مسائل کو ایک دوسرے سے متصادم قرار دے دیا گیا۔ نماز،روزہ اور مذہبی عقائد و رسومات کی تلقین کی جاتی ہے لیکن سماج کے مسائل حل نہیں کیے جاتے جبکہ انبیاء علیہم السلام نے دو بنیادی انسانی فطرتی امور کی طرف توجہ دلائی۔
1)خدا پرستی
2) انسان دوستی
یہاں یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ دعوت کا پہلا اصول یہ ہے کہ کسی کی بات کو سننا اور اس کے مسائل اور پریشانیوں کو سمجھ کر
ان کا حل پیش کرنا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
"اپنے رَبّ کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور خوش اُسلوبی سے نصیحت کر کے دعوت دو"۔ (16:125)
اسوہ انبیاء :
انبیاء کی سیرت کا مطالعہ کریں توحضرت موسٰیؑ نے اپنی قوم کے مسائل کا جائزہ لیا ۔ قرآن مجید نے بنی اسرائیل کی حالت کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے:
"بے شک فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے رہنے والوں کو کئی گروہ بنا دیا، جن میں سے ایک گروہ کو وہ نہایت کمزور کر رہا تھا، ان کے بیٹوں کو بری طرح ذبح کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دیتا تھا۔ بلاشبہ وہ فساد کرنے والوں سے تھا"۔(28:4)
بنی اسرائیل پرظلم کیاجارہا تھااور غلامی مسلط کردی گئی تھی ۔ حضرت موسیٰ ؑنے ان کے مسائل کے حل کے لیے فرعون کے مقابلہ پر جماعت تیار کی ۔
جب حضور ﷺ تشریف لائے تو اس وقت عربوں کی اجتماعیت برباد ہوچکی تھی اور انسانوں کی اکثریت ظلم کا شکار تھی ۔ حضور ﷺنے ان کے اندرحق و باطل کا شعور پیدا کیا ، ان میں ہمت پیدا کی اور ظلم کے خلاف مزاحمتی نظریہ پیدا کیا۔ ان کی تربیت کر کے ان میں سے ذہنی مرعوبیت کا خاتمہ کیا۔ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا کرکے، کسی بھی جھوٹے وڈیروں اورسرداروں کا رعب دل سے نکال دیا۔ اسی عمل کو جماعت سازی کہا جاتا ہے۔آپ ﷺ کی تربیت یافتہ جماعت نے نظام قائم کیا اور لوگوں کے مسائل حل کیے،ظلم ختم کیا اور انصاف قائم کیا۔ حضور اکرم ﷺ نے ابو جہل اور مکہ کے سرداروں کی طرف سے حکومتی نظام میں حصہ داری کی پیش کش کو ٹھکرا دیا۔کیوں کہ اقتدار کا حصول ہدف نہیں ہوتا بلکہ نظام ظلم کی تبدیلی بنیادی مقاصد کا حصہ ہوتی ہے۔
ہماری ذمہ داری :
آج کے دور کے تمام مسائل کا حل انبیاءؑ اور حضورﷺ کے اسوہ پر چل کر ہی ممکن ہے ۔ یہاں اس بات کا سمجھنا بہت ضروری ہے کہ شخصی تبدیلی یا انفرادی اصلاح سے کوئی نتیجہ پیدا نہیں ہوتا ۔ چونکہ فرد نظام کے تابع ہوتا ہے لہذٰا نظام کو تبدیل کیے بغیر شخصی اصلاح کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرتی۔البتہ جماعتی سطح پر جامع نظریہ کے ساتھ فرد کی اصلاح اور تربیت نتائج پیدا کرتی ہے۔ مسائل کا حل پرانے بوسیدہ نظام سے چھٹکارا حاصل کرکے نئے نظام کی تشکیل ہے۔ جس کے لیے ایک منظم اور تربیت یافتہ جماعت کی ضرورت ہے۔ آج ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ مسائل کا شعور حاصل کریں اور باصلاحیت طبقہ تک اس پیغام کو پہنچائیں اورانہیں ایک جماعت میں ڈھالیں۔ اسی کے نتیجے میں عدل و انصاف ، امن و امان اور معاشی خوشحالی پر مبنی معاشرے کا قیام ممکن ہوسکے گا۔