دین اسلام کے اعلیٰ اخلاقی اقدار اور Social Distancing
دین اسلام کے اگر اعلیٰ اخلاقی اقدار کو اپنائیں گے تو ہمارا گھر، خاندان، معاشرہ، قوم ان مصیبتوں اور مشکلات سے بچا رہے گا
دین اسلام کے اعلیٰ اخلاقی اقدار اور Social Distancing
تحریر: عزیز اللہ تاج (راولپنڈی)
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کےلیے اسے عطا کیا ہے۔ اس کا مقصد ایک ایسا مہذب، شائستہ اور اعلیٰ اخلاق پر مبنی معاشرہ قائم کرنا ہے جس میں ہمارا خاندانی نظام بھی بحال ہو، معاشرتی اخلاق بھی قائم رہیں اور صحت و تندرستی کا ماحول بھی میسر ہو کیونکہ دین اسلام کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس میں انسان کی انفرادی و اجتماعی درستی کے حوالے سے کوئی اصول وضع نہ کیے گئے ہوں۔
پاکستان بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم جو حالیہ وبا پھیلی ہوئی ہے اس کی موجودگی کا اقرار اور انکار مختلف حلقوں میں زیر بحث ہے اوریہ کہ یہ وائرس کہاں سے پھیلا؟ کن حرام جانوروں کے کھانے سے پھیلا؟ کیا احتیاطی تدابیر نہیں اپنائی گئیں جن کی وجہ سے یہ پھیلاہے ۔ یہ مختلف مباحث زبان زدِ عام ہیں۔
میرا یہاں مقصد اس بیماری کا تعین کرنا نہیں بلکہ اس کے نیتجے میں جو ہمیں احتیاطی و حفاظتی تدابیر بتلائی جارہی ہیں اس کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنا ہے ۔
دین اسلام نے چودہ سوسال پہلے بتلا دیا تھا کہ آپ کو اپنی روحانی و جسمانی صفائی کا خیال کیسے رکھنا ہے۔حالیہSocial Distancing کے تناظر میں ساٹھ سال زائد اور پانچ برس کے بچوں کے پاس نہیں جانا ہے اور ہمیں کہا جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ بیٹھنا نہیں، کھانا پینا نہیں، کیونکہ ان سے بیماری جلدی پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ یہ زندگی کے وہ ایام ہوتے ہیں جس میں انسان کسی دوسرے کا محتاج ہوتا ہے۔ جس کے بارے میں قرآن میں آتا ہے :
’’ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا (سورة بنی اسرائیل،24)
ترجمہ : اے میرے رب! ان دونوں (میرے والدین) پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا ۔
یورپ کا یہ کلچر ہے کہ 60 یا 65 سال سے زیادہ کے بوڑھوں کو Old age house میں بھیج دیا جاتا ہے۔ اب اس وائرس کے نتیجے میں جو بزرگ احباب پہلے سے اولڈ ہاؤسز میں تھے، تنہائی کا شکار تھے، داد رسی کے طلبگار تھے، وہ تو مزید اس سے محروم ہو ہی گئے لیکن وہ طبقہ یا وہ گھرانہ جو ابھی خاندانی اقدار پر بحال تھا تو ان کو بھی سامراج اور میڈیا وار کے ذریعے یہ چیز باور کرائی جا رہی ہے کہ ایک تو آپ نے اب اولڈ ہاؤس جا کر اپنے والدین کو ملنا نہیں ورنہ آپ کو بیماری لگ جائے گی اور دوسرا اگر آپ کے گھر میں والدین اگر مقررہ عمر سے زیادہ ہیں تو ان کو یا تو گھر میں ایک الگ تھلگ کمرے میں بند کردیا جائے اور لاتعلقی کا اظہار کیا جائے یا ان کو اولڈ ہاؤس منتقل کروا دیا جائے۔ وہ والدین جنھوں نے ساری عمر تمھیں پالا، پوسا ، پڑھایا اور اس عمر تک پہنچایا تو اب ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ان کی خدمت کریں۔
اور دوسری طرف ہمارا دین ہمیں بچوں کی تربیت کے حوالے سے یہ رہنمائی دیتا ہے کہ ’’ ماں کی گود بچے کی اولین درسگاہ ہے‘‘۔ لیکن موجودہ معاشرہ ہمیں اس کے برعکس راستے پہ لےجاناچاہتا ہے۔
دین اسلام کہتا ہے کہ 7 سال تک بچے کو نماز کے لیے نہیں کہنا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 7 سال کی عمر بچے کی ذہنی، جسمانی اور اعصابی، خاندانی اور مذہبی اقدار و روایات کے سیکھنے کا وقت ہوتا ہے جس کے خلاف ہم آج کل 3 سال کے بچے کو بھی Montessori سکول میں بھیج دیتے ہیں جس سے بچے کو جو طاقت و قوت اور صحت گھر میں میسر آنی تھی وہ نہیں ملے گی۔ تو اس طرح بچہ جو طور و اطوار، اخلاقیات جو، انفرادیت پر مبنی ہیں ،باہر کی دنیا سے بچپن میں ہی سیکھ لے گا وہی اقدار پھر اس کے ذہن و عقل میں راسخ ہو جائیں گی جس سے خاندانی سسٹم کا بگاڑ ہمارا منتظر ہوتا ہے۔
حضورﷺ کی حدیث ہے کہ ’’ جو بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ معاشرے کے اندر چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کے ادب و خیال رکھنے کے اس خوش دلانہ تعلق سے معاشرہ داخلی طور پر مضبوط اور مستحکم ہوگا اور اس کے برعکس اگر افراد معاشرہ نفسا نفسی اور انفرادیت کے مرض میں مبتلا ہوں گے تو پورے معاشرے کا سکون تباہ ہوجائے گا اور وہ مقصد بھی فوت ہوجائے گا جس کے لیے انسان کو ایک اعلیٰ سانچے میں تخلیق کیا گیا تھا اور اس کو خلیفۃ الارض بنایا گیا تھا۔
صحت و صفائی کے حوالے سے دین اسلام نے جو احکامات آج سے چودہ سو سال پہلے دیے ہیں اور جن احتیاطی تدابیر اور حلال اور حرام کے تصورات کو واضح کیا ہے، اگر اس پر کسی بھی سطح پر خواہ وہ کوئی بھی گھر، خاندان، معاشرہ، کوئی بھی ملک ہو، عمل کرے تو اپنی صحت و تندرستی کو باحسن وجوہ برووئےکارلا سکتا ہے۔ اور ایک قابلِ رشک زندگی بنا سکتا ہے
اسلام نے کہا کہ کھانے سے پہلے ہاتھ دھو لو، بیٹھ کر کھانا کھاؤ، پانی تین سانسوں میں پیو، کھانا دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور کھانا کھانے کے بعد ہاتھ کو دھو لو۔ اور یہ تعلیمات بھی دیں ہیں کہ یہ جانور تمھارے لیے حلال ہیں اور یہ حرام، اگر آج ہم ان تصورات کو جو چودہ سو سال پہلے سے موجود ہیں ان کو یقینی بنیادوں پر قبول کرلیتے تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔
آج سائنس اور دنیا واپس اسی فطرتی تعلیم پرمجبورا آرہی ہے اور میڈیا ہمیں بتلا رہا ہے کہ ہر بیس منٹ کے بعد ہاتھ اور منہ دھوئیں۔ جبکہ حضورﷺ کا فرمان ہے کہ جو شخص پانچ مرتبہ دن میں وضو کرے گا تو اس کے جسم پر کوئی میل کچیل باقی نہیں رہے گا اور اس کا ظاہر و باطن دونوں پاک ہو جائیں گے
سلام نہ کرنے، معانقہ نہ کرنے اور مسجد جانے سے منع کرنے سے متعلق جو social distancing کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے یہ سراسر یورپین کلچراور سامراج کی منشاء کے عین مطابق شیطانی حربہ ہے کہ ان میں محبت، انس اور وحدت پروان نہ چڑھے۔ کیونکہ اس سے معاشرہ کی وحدت کو جلا ملتی ہے۔ جب دو مسلمان بھائی آپس میں سلام کرتے ہیں اور کہتے ہیں ’’السلام علیکم‘‘ کہ اللہ تمہارا محافظ ہو۔ تاکہ تم ہر مصیبت، رنج، تکلیف سے سلامت و محفوظ رہو۔
اس کلمہ میں صرف اظہار محبت ہی نہیں بلکہ ادائے حق محبت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ آپ کو تمام آفات اور آلام سے محفوظ رکھے۔اور جواب دینے والا بھی کہتا ہے کہ تم پر بھی سلامتی ہو۔
اتنا سلامتی اور امن و آشتی کا دین اور مضبوط گندھا ہوا سماج اگر ان اصولوں پر کوئی بھی عمل کرے تو فلاح پا سکتا ہے اور دشمن کی مداخلت سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اسی طرح مسجد بھی معاشرتی وحدت کا ایک ادارہ ہے۔ جہاں ہمیں اپنے اردگرد کے لوگوں کی تکلیف، دکھ، درد اور مصائب کا ادراک ہوجاتا ہے، باہم میل جول ہوجاتا ہے اور معانقہ کرتے ہیں، خیریت دریافت کرتے ہیں اور ایک اپنائیت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
جب آپ نے وضو کرلیا، میل کچیل اور گندگی سے پاک ہوگئے اور سلام کرکے سلامتی کے ارادے سے مسجد میں داخل ہوئے تو پھر کوئی بھی بیماری مصیبتیں قریب بھی نہیں بھٹک سکتیں۔ یہ وہ سماجی و معاشرتی ترقی اور مضبوطی کے اصول اور لائحہ عمل ہے جس سے فرد اپنے تمام دائروں میں کامیابی حاصل کرتاہے
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام کے سائنٹیفک اصولوں کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔ آمین