دور حاضر کا فتنہ
موجودہ وبائی پراپیگنڈہ کے حالات میں حالات کے صحیح تجزیے اور مثبت سوچ کی ضرورت
دور حاضر کا فتنہ
تحریر: شکیلہ عدیل، کامونکی
سال 2019 کے ماہ دسمبر میں کرونا وائرس سے پیدا ہونے والے نمونیا نے پوری دینا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ خوف کو پروموٹ کرکے میڈیا پر ایسا جال پھیلایا گیا کہ بہت سارے لوگ کرونا کے خوف سے ہی موت کے منہ میں چلے گئے۔ کرونا وائرس سے جاں بحق ہونے والے زیادہ تر افراد وہ تھے جو ایک یا زیادہ بیماریوں میں پہلے سے مبتلا تھے۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے اس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ ایک مسلمان کو اس امر کو تسلیم کرکے ہی مسلمانیت کی گارنٹی ملتی ہے کہ موت کے بعد ایک نئی زندگی ہے۔ یہ دنیا عارضی سرائے ہے بیماریاں وجود آدم سے اس دنیا پر موجود ہیں۔
سامراجی سرپرستی میں نام نہادعالمی صحت کے ادارے نے بھرپور منصوبہ بندی سے پوری دنیا میں بیماری کا جال پھیلایا اور لاک ڈاون کرواکے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے۔ ہر ملک کی معشیت کو تباہ کرکے IMF امداد کے نام پر معاشی سامراجیت کی نئی شکل سامنے آئےگی۔ احتیاط و خوف کے نام پر ہر شخص ذہنی و جسمانی طور پر سامراج کا غلام بن گیا ہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والوں کی سوچ کا بھی رخ میڈیا نے تبدیل کر دیا ہے۔ مذہبی پیشواؤں ، دانشوروں ، ڈاکٹرز ، حکماء نے عالمی فلم کی شوٹنگ میں مرکزی نہ سہی لیکن مہمان اداکار کا رول ضرور ادا کیا ہے۔
دین اسلام کا اجتماعی پہلو اس بات کا متقاضی ہے کہ اسلامی معاشرہ ایک فلاحی معاشرہ ہونا چاہیے۔ امیر اور غریب ، مسلم اور غیر مسلم کی تفریق کیے بغیر دولت کی مساویانہ نقسیم ہونی چاہیے۔جیسا کہ حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری کا ارشاد ہےکہ عقائد میں خرابی کی سزا آخرت میں اور ظلم و جبر قائم کرنے کی سزا اس دنیا میں ملتی ہے۔ لیکن ہمارے مذہبی رہنماؤں نے چند وظائف اور دعاؤں کا ورد زبان پر رکھنا اس وبا کے خاتمے کے لیے ضروری قرار دیا۔ مسجد میں رات گئے اذان دینا جبکہ نماز باجماعت فرض نمازوں پر پابندی یہ سارا کھیل ایک فتنہ ہے جو قتل انسانیت کے مترادف ہے۔ (والفتنۃ اشد من القتل: القرآن) ۔ غریب روٹی کو ترسے امیر اپنی تجوریاں بھرے ، بیماری سے لڑنا تو درکنار غریب خوف اور بھوک سے مر رہا ہے میڈیا بے پردہ عورتوں ، حکومتی کارندوں اور صحافی حضرات کی اس وائرس سے کافی واقفیت ہو چکی ہے۔ جبکہ عوام کے سانس لینے پر یہ وائرس منتقل ہو رہا ہے۔ یہ سب ڈرامہ ہے۔
بچوں کے سکول بند ہیں،مساجد ، کھیل کے میدان ویران ، ہم نےاپنی نسل کے لیے گھر میں آن لائن تعلیم کا سلسلہ شروع کر لیا مگر وطن عزیز کا وہ طبقہ جو بنیادی وسائل سے بھی محروم ہیں ان کے لیے آج کے حالات میں جبکہ مزدوری ملنا بھی مشکل ہو چکا ہے ان کے لیے یہ تمام چیزیں بے معنی ہیں۔ آج ہمیں حالات کے سامنے مجبور کردیا گیا ہے ، پوری دنیا پر خوف مسلط کرکے انسانیت کو نفسیاتی مریض بنا دیا گیا ہے۔
اس بے بسی کے عالم میں ایمان کو مضبوط کرنا ہوگا۔ مثبت اور اجتماعی سوچ کو پیدا کرکے میڈیا سے متأثر ہونے کی بجائے حقائق کی روشنی میں حالات کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور ایسے لوگوں کی اتباع کرنی ہوگی جو انسانیت کو اعلٰی نظریے سے جوڑتے اور اعلٰی فکر پیدا کرتے ہیں۔