انسانی اجتماعیت کو درپیش خطرات
انسان اجتماعیت پسند ہے۔ اس لیے کوئی بھی نظام جو اس کی اجتماعیت پسندی کے خلاف ہو، ناقابل قبول ہے۔
انسانی اجتماعیت کو درپیش خطرات
تحریر: مولانا نقاش علی، لاہور
انسان جب مل جل کر رہتے ہیں تو ان میں کوئی بھی سوچ اور خیال بہت جلد پرورش پا جاتا ہے ۔ کیوں کہ جب کسی اجتماع کا نفع نقصان ایک ہو تو پھر نفع کے حصول اور نقصان سے بچاؤکی سوچ انسانوں میں اجتماعی طور پر جڑ پکڑ جاتی ہے. یہی وجہ ہے کہ کسی بھی اجتماعیت کو قائم کرتے وقت زیادہ سے زیادہ مشترکات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ اور پھر مل جل کر سوچنے اور غور وفکر کرنے سے قابل قدر آرا اورتحریکیں پروان چڑھنے لگتی ہیں اس طرح انسانی زندگی میں دفاعی اور اقدامی دونوں عمل پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
اگر ہم جانوروں کی زندگی پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ جانوروں میں مل جل کر رہنے کی بڑی پختہ عادت ہوتی ہے جو کسی بھی جانور کی اپنے ابنائے جنس کے ساتھ محبت کو ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ نفع و نقصان کے عمل میں شراکت داری اور اپنے دشمن کے خلاف اجتماعی طور پر کردار ادا کرنے کی ضرورت کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ انسان بھی مل کر ایک اجتماع میں زندگی بسر کرتے ہیں اور انسانوں کی اجتماعیت پسندی دراصل جانوروں کی اس عادت کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ انسانی زندگی میں اجتماعیت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ معاشرے کے وہ افراد جو اجتماعی زندگی ترک کر دیں وہ اجتماع کی ترقی یافتہ شکل سے دور نکل جاتے ہیں (جدت جو کہ نمو و ارتقا کا دوسرا نام ہے دراصل اجتماع کا ثمر اور نتیجہ ہے) اس کا سبب یہی ہے کہ انسان کی فطرت جسمانی، روحانی اور عقلی ترقی کے لیے ایک صالح اجتماع کا تقاضا کرتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ انسانیت دشمن عناصر ہمیشہ ہی اجتماعیت اور سماجی قربت کے درپے رہے ہیں، کیوں کہ وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ انسانوں کا اجتماع انسانیت کے خلاف ہونے والی ہر کوشش کو روکنے کا سب سے پہلا مرحلہ ہے۔ دورِ جدید کی ترقیات نے انسان کو گلوبل ویلج کے نام پر social distancing کے عمیق گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔کیوں کہ اپنے گھر میں بیٹھ کر موبائل اور انٹرنیٹ کے ذریعے سے دنیا بھر کی معلومات تو حاصل کی جا سکتی ہیں۔ لیکن اس مواصلاتی نظام کے نظام کے ذریعے معاشرے کے افراد میں اجتماعی رویے نہیں پیدا کیےجا سکتے۔وہ اجتماعی رویےجو انسان کا شرف اور اس کی طبیعت کے لازمی اجزا ہیں۔
سماجی دوری کی وجہ سے پیدا ہونےوالے نفسیاتی مسائل بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں، مگر اس کا بھیانک چہرہ یہ ہے کہ مذکورہ طاقتوں نے انسانیت کو سوشل گیدرنگز سے روک کراس کی آزاد فطرت کے سبب پیدا ہونے والی کسی بھی مزاحمتی سوچ کے ممکنہ خطرات سے خود کو بچانے کی بہت بھونڈی چال چلی ہے۔ یعنی جب انسان میں انفرادیت کی سوچ کو معاشرے میں سسٹم کی طاقت سے رواج دیا جائے اور اسے نافذ کیا جائے، تو معاشرے میں مزاحمتی سوچ اور تحریک پروان نہیں چڑھتی اور اگر ایسی سوچ انفرادی طور پر پیدا ہو بھی جائے تو اسے کچل دینا آسان ہو جاتا ہے۔
اس وقت اکثر ممالک میں lock down اورsocial distancing کا ماحول ہے۔ اور یہ انسانی تاریخ کا ایک بہت بڑا واقعہ ہے کہ دنیا کی کثیر آبادی کو ایک موہوم خطرے کی بنیاد پر گھروں میں بند کر دیا گیا ہے، اور پھر مزید یہ کہ حکومتوں کو لاک ڈاؤن پر مجبور کیا جا رہاہے۔ جن لوگوں نے اپنے گھروں میں تین تین ماہ کا راشن سٹور کرلیا ہے شاید ان کا خیال ہو کہ لاک ڈاؤن کرنے سے وہ وائرس سے بچ جائیں گے مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ لاک ڈاؤن بھوک اور بھیک کے نام پر کتنے لوگوں کو مار دے گا ؟ سماجی دوری(social distancing) کے نام پر کون کون سی نفسیاتی بیماریاں جنم لیں گی؟ اور مستقبل میں انسانیت پیدا شدہ خطرات سے نمٹنے کے لیے اجتماعی سوچ اور مزاحمتی تحریک سے محروم ہو سکتی ہے؟ یہ انسانی تاریخ کا بہت بڑا واقعہ ہے جس کے ذریعے انسانوں کے دل و دماغ پر من مانے اثرات مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لوگوں کو اجتماعیت سے ڈرایا جا رہا ہے۔ ان میں سرمایہ داریت کو فروغ دینے اور سامرجیت معاون رویے پیداکرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تاریخ میں جب بھی کوئی بڑا واقعہ ہوا ہے تو اس نے انسان کے سوچنے، سمجھنے، اور رہنے سہنے کے انداز پر بہت گہرا اثر مرتب کیا ہے۔ مگر پچھلے دو سو سال سے کسی بھی واقعے کے غیر فطری اثرات اور نتائج پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایسے اثرات اور نتائج جو ایک خاص گروہ کے لیے تو مفید تھے مگر پوری انسانیت کے لیے بہت بھیانک تھے۔اور اگر یہ کہا جائے کہ ان دو سو سالوں میں وقوع پذیر ہونے والے اکثر واقعات مصنوعی تھے تو یہ بالکل بجا ہو گا۔
مثال کے طور پر نائن الیون کے بعد دنیا کے تمام ممالک کی حکومتوں میں terrorism کے خوف سے سکیورٹی مضبوط کرنے کا رجحان پیدا ہوا، اس کے ساتھ ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے حوالے ایک خاص سوچ نے جنم لیا۔ چناچہ اس سوچ کو مزید پروان چڑھایا گیا۔ موویز بنائی گئیں، لٹریچر ترتیب دیا گیا، اسلام کے نام پر اپنے مقاصد کے لیے القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں بنائی گئیں۔ داڑھی ٹوپی کو دھشت گردی کی علامت قرار دیا گیا۔ فلموں میں وحشیانہ کردار ادا کرنے والے villains کے اسلامی نام رکھے گئے۔ جو کچھ کیا گیا وہ تاریخ کا حصہ تو ہے ہی۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ انسانیت دشمن طاقتوں کے اس پراپیگنڈے نے واقعتاً دنیا کے دماغوں کو متأثر کیا۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ کورونا وائرس اور اس سے پیدا ہونے والے اثرات انسانی ذھنوں کو متأثر نہ کریں؟ اس سے پیدا ہونے والے رویے انسانی معاشروں میں گھر نہ کر جائیں؟
چناچہ کورونا وائرس کے سد باب کے نام پرجہاں لاک ڈاؤن کرنے سے معاشی دھشتگردی کی گئی وہاں مستقبل میں مفادات کے حصول کی پیش بندی کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ انسان کو انسانوں سے ڈرا کر اس میں انفرادیت پسندی کا بیج بویا گیا ہے۔اجتماعیت کی ہر اکائی کو محدود تر کرنے سے مستقبل میں صرف اور صرف ذاتی نفع اور نقصان کے لیے سوچنے کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ کیوں کہ اگر 2020 میں تین تین ہفتوں کے لیے social distancing کا قانون نافذ کیا گیا ہے تو ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں یہ قانون ہر معاشرے میں مستقل طور پر جاری کر دیا جائے، اور جیسے آج کی حکومتیں اس بے تکے قانون کو ماننے پر مجبور ہیں تو مستقبل میں ممکن ہے کہ حکومتیں کسی بھی نادیدہ خطرے کے خوف میں مبتلا ہو کر حقیقتاً اسے انسانیت دوست قانون سمجھ بیٹھیں۔ اور اس کی آڑ میں عالمی سامراج اپنے خلاف پیدا ہونے والی ہر ممکن سوچ اور کوشش کو ختم کر دے۔ اس تمام گفتگو کا مقصد یہ نہیں کہ کورونا کوئی بیماری نہیں یا پھر اس کے خاتمے کے لیے کوئی اجتماعی کوشش نہیں کرنی چاھیے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ انسانیت پر اثر انداز ہونے والے ایسے واقعات اور ان کے منفی اثرات کو قبل از وقت سمجھنے کی کوشش کی جائے تاکہ انسانیت کی اجتماعیت باقی رہے اور ایک بے خوف اور صالح ماحول میں انسانیت کا ارتقاء ممکن ہو سکے اور انسانیت ان دشمن عناصر کو پہچان کر ان کے خلاف کردار ادا کرسکے۔