حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ ایک عہد ساز شخصیت
شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ 1268ھ بمطابق1851ءمیں بریلی میں پیداہوئے، جہاں ان کے والد حضرت مولاناذوالفقار علیؒ بسلسلہ ملازمت مقیم تھے۔ مولانا ذوالفقار
حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ
ایک عہد ساز شخصیت
شیخ الہند مولانا
محمود حسنؒ 1268ھ بمطابق1851ءمیں بریلی میں پیداہوئے، جہاں ان کے والد حضرت مولاناذوالفقار
علیؒ بسلسلہ ملازمت مقیم تھے۔ مولانا ذوالفقار علیؒ دارالعلوم دیوبند کی پہلی مجلس
شوریٰ کے ممتاز رکن تھے ۔حضرت شیخ الہندؒ کا سلسلہ نسب حضرت عثمان غنیؓ سے جاملتاہے
۔
آپ نے ابتدائی تعلیم
اپنے والد ماجد سے حاصل کی،مزید تعلیم کی غرض سے حضرت مولانا محمدقاسم نانوتویؒ کے
پاس تشریف لے گئے ۔ مولانا محمدقاسم نانوتویؒ کا قیام اس وقت میرٹھ میں تھا ۔ 1868ءمیں
دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا تو حضرت شیخ الہندؒ دیوبند تشریف لائے اور دارالعلوم
میں داخل ہوگئے اور مولانا محمودؒ ،مولانا محمدیعقوبؒ ابن حضرت مولانامملوک علی نانوتویؒ
اورسید احمد دہلویؒ سے علوم کی تکمیل کی۔1873ءمیں تحصیل علوم سے فارغ ہوئے۔آپ دارالعلوم
دیوبندکے پہلے طالب علم تھے۔ حضرت شیخ الہندؒ نے یہاں مولانامحمد قاسم نانوتویؒ سے
علوم دینی اور سیاست کی تعلیم بھی حاصل کی تھی اورتربیت بھی پائی تھی ،اب اس تحریک
سے وابستہ تمام احباب کی دینی وسیاسی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری آپ پر تھی ۔
1878ءمیں اس تحریک کے مجاہدوں کی تعلیم
وتربیت، اسے تنظیمی ڈھانچہ دینے اورسیاسی امر کی ادائیگی کی ذمہ داری آپ نے سنبھال
لی۔ آپ نے مولانا محمدقاسم نانوتویؒ کے ایماءپر فضلاءدارالعلوم کی ایک انجمن ”ثمرة التربیت “ کے نام سے قائم کی۔ 1909ءمیں جمعۃالانصار
کا قیام عمل میں آیا۔1913ءمیں حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے دہلی میں حضرت شیخ الہندؒ
کے حکم پر نظارةالمعارف القرآنیہ کے نام سے ایک
اجتماعی تربیت کا ادارہ قائم کیا ۔جس کا مقصد جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو حضرت امام
شاہ ولی اللہ کے فلسفہ کے مطابق ہندوستان کے
معروضی حالات میں سیاسی رہنمائی کرنا تھا۔ حضرت امام عبید اللہ سندھیؒ اس کے ناظم قرارپائے
جبکہ اس کے سرپرستوں میں حضرت شیخ الہندؒکے ساتھ ڈاکٹرمختاراحمد انصاریؒ اور نواب وقارالملکؒ
برابرشریک تھے۔
یوں حضرت شیخ الہندؒ
نے شاہ ولی اللہؒ کے اجتماعی افکار کی روشنی میں ملکی آزادی کی تحریک کا آغاز کیا۔
بقول مولانا حسین احمد مدنیؒ ،
” مولانا نے تھوڑی مدت میں بہت کچھ
کامیابی حاصل کرلی او ر کام کرنے والوں کے لیے شاہراہ عمل قائم کردی“۔
تاریخ آزادی کی اس
تحریک کو تحریک ریشمی رومال کے نام سے یاد کرتی ہے۔تحریک کے اہم ترین مراکز میں دیوبند
،دہلی،گوٹھ پیرجھنڈا،دین پور، امروٹ، کراچی، چکوال، ترنگ زئی، یاغستان،کابل،رائے پور،پانی
پت ، راجستھان، مدینہ منورہ شامل تھے ۔
تحریک ریشمی رومال
میں حضرت اقدس شیخ الہند مولانا محمود حسن قدس سرہ عام طورپر حضرت اقدس شاہ عبدالرحیم
رائے پوری قدس سرہ کے مشوروں پر عمل فرمایاکرتے تھے ۔
حضرت مولانا حسین
احمد مدنیؒ فرماتے ہیں :’دونوں حضرات (شیخ الہندؒ اور شاہ
عبدالرحیم رائے پوریؒ )یکجان ودوقالب ہوگئے اوراخیر تک اسی پر قائم رہے ، تحریک آزادی
کی خاطرجب حضرت شیخ الہندؒ حجاز جانے لگے توانہیں کو اپنا قائم مقام بناگئے اوراپنے
کارکنوں کو تاکید کردی کہ مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ کو میرا قائم مقام سمجھنا
اور اہم امور ان سے مشورہ لے کر اور پوچھ کر انجام دینا‘۔ دونوں اکابرین کی باہمی محبت کا اندازہ حضرت
شیخ الہند کے ان اشعار سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو حضرت رائے پوری عالیؒ کے وصال پر
آپؒ نے تحریر فرمائے۔ یہ اشعار مسدسِ مالٹا کے نام سے مشہور ہوئے۔
1915ءمیں حضرت شیخ الہندؒ نے حجاز پہنچتے
ہی مکہ معظمہ کے گورنر غالب پاشاسے ملاقات کی جو پہلے ہی آپ سے واقف تھے ،آپ نے انہیں
ہندوستان کی صحیح صورتحال اور اپنے منصوبے سے آگاہ کیا ۔غالب پاشا نے ہر طرح کی آپ
کی امداد اورآپ سے تعاون کا یقین دلایااور اس سلسلے میں آپ کوکئی تحریریں دیں ۔ایک
تحریر مسلمانان ہند کے نام تھی جس میں انہیں ظالم انگریز کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی
تلقین کی گئی تھی اور کہاگیاتھا کہ اہل ہند کو آزادی کامل پر آمادہ ہوجاناچاہیے اوراپنی
جدوجہدکو تیز کردینا چاہیے ۔یہی وہ تحریر ہے جو تاریخ میں’ غالب نامہ‘ کے نام سے مشہور ہے۔حضرت شیخ الہندؒ یہ تحریریں
لے کر مدینہ منورہ تشریف لائے ۔حسن اتفاق سے غازی انورپاشااورجمال پاشابھی وہاں پہنچ
گئے ،اس طرح ان دونوں ترکی زعماءسے آپ کی ملاقات مدینہ منورہ ہی میں ہوگئی ۔ جمال پاشا
آپ کے خیالات سے بہت متاثر ہوئے اور ملاقات کے بعد آپ کی استعمار دشمنی کویوں خراج
تحسین پیش کیا :اگر محمودحسن کوجلاکر راکھ بھی کردیاجائے تواس کی راکھ بھی انگریز سے
کتراکرگزرے گی۔
حضرت شیخ الہندؒ نے وہ خطوط مولانا ہادی حسنؒ کے ذریعہ ہندوستان
اورمولانا محمدمیاں منصور انصاریؒ کے ذریعے آزاد قبائل میں پہنچادیئے۔تحریک کی معلومات
ریشمی رومال پر تحریر کر کے حضرت شیخ الہندؒ تک پہنچانے کا بندوبست کیا گیا لیکن اگست
1916ءمیں ان خطوط کا علم انگریز کو ہوگیا۔آزادی کی اس تحریک کی سربراہی کی پاداش میں
فروری 1917ءمیں حضرت شیخ الہندؒ کو ان کے ساتھیوں کے ہمراہ جزیرہ مالٹامیں قید کر دیاگیا
۔اس زمانہ میں ان صبر کے پیکروں نے قوم ووطن کے لیے بڑے مصائب برداشت کیے ،تکلیفیں
اٹھائیں ۔دورانِ قید حضرت شیخ الہندؒ مستقل بیماریوں میں مبتلا ہوگئے لیکن آپ کی استقامت
میں لغزش پیدانہ ہوئی ۔ مالٹا میں آپ تقریباً ساڑھے تین سال تک اسیر رہے۔15مارچ بروز
1920ءکو آپ کی رہائی کے احکامات جاری ہوئے ۔ بمبئی کی بندرگاہ پر ہزارہا آزادی کے متوالوں
نے آپ کا پرجوش استقبال کیا،اورخلافت کمیٹی کی جانب سے آپ کی خدمت میں سپاسنامہ پیش
کیاگیا اور آپ کو’ شیخ الہند ‘کا خطاب دیاگیا ۔
تحریک ریشمی رومال
کے بعد حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد تحریک کی حکمتِ عملی میں تبدیلی پیدا کی اور فرمایا
کہ آج کا دور تشدد پر مبنی جدوجہد کی بجائے مطالبہ حقوق کا دور ہے۔آپؒ نے مذہب کے گروہی
اور تقسیم انسانیت پر مبنی نظریہ کی نفی کرکے عدم تشدد کی بنیاد پراسلام کے انسان دوست
تصور پر مبنی قومی حکمت عملی کی اہمیت کو اُجاگر کیا ۔ حضرت شیخ الہندؒ کی حکمت عملی
آغاز سے یہ رہی کہ جدوجہد آزادی میں علماءکے شانہ بشانہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کوشامل
ہونا چاہیے ، چنانچہ ڈاکٹر مختاراحمد انصاریؒ،حکیم اجمل خاںؒ، مولانامحمدعلی جوہرؒ،مولانا
حسرت موہانیؒ، ڈاکٹر سیف الدین کچلوؒاور خان عبدالغفار خانؒ جیسے لوگ آپ کی جدوجہد
کے ساتھی رہے۔
حضرت شیخ الہندؒ باوجود سخت علالت اور نقاہت کے 29اکتوبر1920ءکو
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے افتتاح کے لیے علی گڑھ تشریف لے گئے ،بیماری کی بناءپر احباب
نے روکنا چاہاتو فرمایاکہ:’ اگرمیری صدارت سے انگریز کو تکلیف
ہوگی تو ضرورشریک ہوں گا‘۔حضرت شیخ الہندؒاپنے خطبہ میں
مزید فرماتے ہیں :’اے نونہالان وطن !جب میں نے دیکھا
کہ میرے اس درد کے غم خوار (جس سے میری ہڈیاں پگھلی جارہی ہیں ) مدرسوں اورخانقاہوں
میں کم، سکولوں اور کالجوں میں زیادہ ہیں، تو میں نے اور میرے چند مخلص احباب نے ایک
قدم علی گڑھ کی طرف بڑھایا اور اس طرح ہم نے ہندوستان کے دوتاریخی مقاموں (دیوبند اور
علی گڑھ) کا رشتہ جوڑا۔‘
حضرت شیخ الہندؒ نے
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی اورتاسیسی اجلاس میں قنوطی مذہب کے حوالہ سے تشکیل
پانے والے رویوں پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’بہت سے نیک بندے ہیں ،جن کے چہروں پر نماز
کا نور اور ذکر اللہ کی روشنی جھلک رہی ہے ،لیکن جب ان سے کہاجاتاہے کہ خدارا اٹھو
،اور اس امت مرحومہ کو کفار کے نرغے سے بچاﺅ تو ان کے دلوں پر خوف و ہراس مسلط ہوجاتاہے
۔ خداکانہیں بلکہ چند ناپاک ہستیوں کا اوران کے سامان حرب و ضرب کا‘۔حضرت شیخ الہندؒ نے موجودہ دور کی نشاندہی
کرتے ہوئے فرمایا کہ اس دور میں دو اسباب سے ہم زوال کا شکار ہیں ایک قرآنی انقلابی
تعلیمات سے دوری اور دوسرا آپس کے شدید اختلافات۔ آپؒ کے یہ الفاظ آج بھی ہمیں جدوجہد
کی دعوت دیتے ہیں۔
مالٹا سے واپسی کے صرف 6ماہ بعد یہ عظیم لیڈر اور ہندوستانی قوم
کے جلیل القدر قائد 30نومبر1920ءبروز منگل ڈاکٹر مختار احمد انصاریؒ کے مکان پراللہ
کا ذکر کرتے ہوئے اس دارفانی سے رخصت ہوگئے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں
ولی اللہی تحریک کے اکابرین کے مشن پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)