امام شاہ عبدالعزیز دہلویؒ کی خدمات - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • امام شاہ عبدالعزیز دہلویؒ کی خدمات

    امام شاہ عبدالعزیزدہلویؒ ایک عام مولوی یا عالم نہیں ہیں بلکہ ایک انقلابی ہیں۔ جنہوں نےہندوستان میں سب سے پہلے فتویٰ دارالحرب کے ذریعے انگریزوں...

    By Salman Nawaz Published on Feb 10, 2025 Views 370

    امام شاہ عبدالعزیز دہلویؒ کی خدمات

    تحریر: سلمان نواز۔ بہاولپور

     

    ایک ایسا دورجہاں انگریز پورے برعظیم ہند میں اپنے پاؤں مضبوط کرنے کی بھرپور کوشش کررہا تھا تو اس دوران دہلی کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی حالات میں اہم تبدیلیاں آرہی تھیں۔ مغلیہ سلطنت اپنے زوال کے دور سے گزر رہی تھی۔ مغل بادشاہت کا اقتدار زیادہ تر ایسٹ انڈیا کمپنی کو منتقل ہوچکا تھا اور دہلی کی سلطنت کا اثر ورسوخ محدود ہوچکا تھا۔ اس مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ نے برعظیم ہند پر اپنا خاص کرم کیا کہ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی وفات کے بعد، ان کے بڑے صاحبزادے امام شاہ عبدالعزیز دہلویؒ ان کے جانشین بنے۔

    تعارف

    امام شاہ عبدالعزیز دہلویؒ 1746ء کودہلی میں پیدا ہوئے۔ پانچ سال کی عمر میں قرآن پاک پڑھنا شروع کیا اور مختصر عرصہ میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔ قرآن پاک حفظ کرنے کے بعد فارسی کے مختصر ادبی وتربیتی رسالے پڑھے اور دین اسلام کی ابتدائی تعلیمات حاصل کر لیں۔ گیارہ سال کی عمر میں عربی زبان کی ابتدائی کتب پر عبور حاصل کرلیا۔ آپؒ عبرانی زبان بھی جانتے تھے، تاکہ حالات کے تقاضے کے تحت، ضرورت کے مطابق تورات وانجیل سے استفادہ ہو سکے۔ آپؒ کے زمانہ میں اردو زبان مقبولیت حاصل کرچکی تھی، اس لیے خواجہ میردرد سے آپؒ نے اردو محاوروں کا فن سیکھا۔ آپ کو اس زبان میں اتنی مہارت حاصل ہوگئی کہ آپ ؒ کے دور کے شعرا ئےکرام، امرا اور شہزادے اپنے کلام کی اصلاح کے لیے آپؒ کی خدمت میں حاضرہوتے۔ تاریخ اور جغرافیہ میں بھی آپؒ بےنظیر کمال رکھتے تھے۔ آپؒ نے زیادہ تر تعلیم اپنے والد ماجد شاہ ولی اللہ دہلویؒ سے حاصل کی۔ مولانا شاہ محمد عاشق پھلتی اور مولانا محمد امین کشمیری ولی اللہی سے بھی تعلیم وتربیت میں تکمیلی درجے کا فیض حاصل کیا، کیوں کہ وہ امام شاہ ولی اللہ صاحبؒ کی جماعت کے اہم رکن اور بااعتماد ساتھی تھے۔ تیرہ سال کی عمر میں آپ نے فقہ، اصول فقہ، منطق، کلام، عقائد اور ریاضی وغیرہ میں مہارت حاصل کر لی۔ ان علوم کو حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنے والد ماجد امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی صحبت اختیار کی اور علم حدیث پڑھا۔ آپ نے دو سال میں حدیث مبارکہ کی کتابوں پر عبور حاصل کر لیا۔ آپؒ کو ایک سو پچاس علوم پر دسترس حاصل تھی۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ جن علوم کا میں نے مطالعہ کیا ہے اور جہاں تک مجھے یاد ہے وہ ایک سو پچاس علوم ہیں۔ نصف سابقین اولین کے ہیں اور نصف علوم دیگر ہیں۔ پندرہ سال کی عمر میں ہی اپنے والد ماجد سے تمام علوم عقلیہ ونقلیہ اور کمالات ظاہری وباطنی حاصل کر چکے تھے۔ جب آپؒ سترہ برس کے ہوئے تو آپؒ کے والد ماجد کا انتقال ہو گیا اور آپؒ کو ان کا جانشین تسلیم کیاگیا۔ آپ 63 سال تک بلند ہمتی اور جہد مسلسل سے اس پروگرام کی تکمیل میں مصروف رہے جسے آپؒ کے والد ماجد امام شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ نے شروع کیاتھا۔ 1823ء کو 80سال کی عمر میں رُکے اور تھکے بغیر دین کی خدمت کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ ؒ کی نماز جنازہ امام شاہ محمد اسحاق دہلویؒ نے پڑھائی جو آپ کے نواسے اور جانشین تھے۔ پچپن مرتبہ آپؒ کی نماز جنازہ پڑھی گئی اور پورے ہندوستان سے لوگ جوق در جوق اس میں شامل ہوئے۔

    فکری وراثت کا تسلسل

    امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے امام شاہ عبدالعزیزدہلویؒ کو ان کا جانشین تسلیم کیا گیا۔ امام شاہ عبدالعزیز دہلویؒ نے کوئی نیا کام شروع نہیں کیا، بلکہ اپنے والد ماجد کے مشن کو نئی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھایا۔ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے مخاطب امرائے سیاست، اعلیٰ درجے کے اہل علم اور کامل المعرفت صوفیائے کرام تھے، مگر آپ کشف اور عقل کی عام فہم چیزیں نقلی علوم میں استعمال کرتے تھے، یعنی اپنے والد کے علوم کو عوام کی زبان میں لکھتے تھے۔ جو انقلاب امام ولی اللہ دہلویؒ اپنے خواص سے مکمل کرانا چاہتے تھے، اسی مقصد کو آپ ؒاپنے حالات و زمانہ کے مطابق عوام سے پورا کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے آپ نے ہندوستان میں درس قرآنِ حکیم کا سلسلہ شروع کیا۔ مدرسہ رحیمیہ دہلی کے ذریعے تعلیم و تربیت اور نشرواشاعت کا سلسلہ اس قدر ترقی کر گیا کہ سارے ہندوستان میں کوئی علمی حلقہ یا عالم ایسا نہیں تھا، جس کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ آپؒ سے نہ ہو۔

    باکمال حافظہ

    سرسید احمد خان آپؒ کے حافظہ کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس طرح کا حافظہ عطا فرمایا کہ جب وہ اپنے شاگردوں کے سامنے قدیم کتب کا درس دے رہے ہوتے تو لمبی لمبی عربی عبارت پڑھتے تو سننے والوں کو بعض اوقات یہ خیال ہوتا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی لمبی عبارت میں کوئی فرق نہ ہو۔ جب وہ جا کر اصل کتابوں سے چیک کرتے تو ایک لفظ کا بھی فرق نہ پاتے۔ ہو بہ ہو ویسے ہی پاتے جیسے آپؒ نے عبارات پڑھی ہوتیں۔آپؒ کو 6000 حدیث کے متن زبانی یاد تھے۔

    فتویٰ دار الحرب

    دارالحرب کا لغوی معنی "جنگ کا گھر یعنی جنگ کا ملک" ہے۔ فقہی وقانونی اصطلاح میں اس سے مراد ایسی جگہ ہے "جہاں مسلمانوں کے خلاف جنگ جاری ہو یا وہاں اسلامی حکومت یعنی نظام عدل کے قوانین کا نفاذ نہ ہو۔ ہندوستان کی تاریخ میں انگریزوں کے خلاف امام شاہ عبدالعزیز دہلویؒ نے’’فتویٰ دارالحرب‘‘ دیا۔ اس فتویٰ کا اثر یہ ہوا کہ ہر ہندوستانی کے دل میں آزادی کی شمع روشن ہوگئی۔ آزادی کی جتنی بھی تحریکیں چلائی گئیں یا جنگیں لڑیں گئیں ان سب کی روح یہی فتویٰ تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ تقریباًبیس سال اقتدار مرہٹوں کے ہاتھ میں رہا، کئی بار دہلی پر قبضے کی کوشش بھی کی گئی۔ ان کے ظالمانہ و باغیانہ حملوں سے عوام الناس تنگ تھے تو شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے ان کی طاقت کو توڑنے کے لیے احمد شاہ درانی ابدالی کو توجہ دِلائی اور اس نے اس میں کردار ادا کیا، لیکن چوں کہ وہ بدیسی طاقت نہیں تھے، اس لیے ان کے خلاف فتویٰ صادر نہیں کیا گیا۔

    آزمائشیں

    ہو ا کے رُخ کے مخالف سمت میں اگر سفر کرنا ہو تو سفر مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی حال آپؒ کے ساتھ بھی ہوا۔ آپؒ خود فرماتے ہیں رمضان المبارک میں ایک بازاری عورت کو شراب پلاکر مسجد کے باہر کچھ غنڈے ڈھول بجاتے اور طرح طرح کی آوازیں کستے۔ آپؒ کو تکلیف دینے کے لیے جائیداد ضبط کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس سے بھی راحت نہ پہنچی تو آپؒ کو مع اہل وعیال شہر بدر کر دیا گیا۔ آپؒ کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی اس طرح کہ دو دفعہ زہر دیا گیا۔ یہ بھی روایت ہے کہ آپؒ کے جسم پر چھپکلی کا اُبٹن ملا گیا جس سے برص ہوگیا تھا۔ فتویٰ دارالحرب کی وَجہ سے آپؒ پر ہندوستان کی سر زمین کو تنگ کر دیا گیا۔ ان سب حالات کے پیچھے انگریزوں کے غلامی اور لوٹ مار کے ناپاک عزائم تھے۔ دوسری طرف خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ آپؒ کی تین بیٹیاں آپؒ کی زندگی میں ہی وفات پاگئیں، آپؒ کے بازو آپؒ کے تینوں بھائی بھی انتقال کرگئے، جب کہ آپؒ خود بھی اپنی بیماری کی وَجہ سے مشکل میں تھے۔ ان سب آزمائشوں کے باوجود آپ ؒ نے دین کی خدمت کا کام جاری رکھا اور آزادی کی انقلابی جدوجہد میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آنے دی۔

    امام شاہ عبدالعزیزدہلویؒ عام عالم نہیں تھے، بلکہ اجتماعی جدوجہد کے حامل علمائے ربانیین کا تسلسل تھے۔ ہندوستان میں فتویٰ دارالحرب کے ذریعے انگریزوں کے سسٹم پر قبضہ کے خلاف آواز بلند کی اور ہندوستانی عوام کے دل میں آزادی کی شمع کو روشن کیا۔ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے غلبہ دین کی جس فکر کو پیش کیا اسے آگے بڑھانے کا سہرا آپؒ کے سر جاتاہے کہ آپؒ کی جماعت کے تسلسل نے انگریزوں کو برعظیم پاک وہند سے جانے پر مجبور کر دیا۔ 

    اللہ تعالیٰ ہم نوجوانوں کو بھی ان کے حصول آزادی کے مشن کا وارث بنائے، عصر حاضر کو سمجھتے ہوئے معاشرے کی عدل کی اساس پر تشکیل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین !

     

    Share via Whatsapp