ہندوستان کا عظیم ترین ماہر تعمیرات اور ہمارا گمنام ہیرو( استاد احمد معمار لاہوری) - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • ہندوستان کا عظیم ترین ماہر تعمیرات اور ہمارا گمنام ہیرو( استاد احمد معمار لاہوری)

    برصغیر میں عادلانہ نظام کے نتیجے میں نہ صرف تعمیرات کے ماہرین کو پیدا کیا بلکہ ہر شعبہ کے اندر ایسی ہی ترقیات نظر آتی ہیں-

    By Muhammad Ikhlaq Published on Sep 04, 2025 Views 102

    ہندوستان کا عظیم ترین ماہر تعمیرات اور ہمارا گمنام ہیرو( استاد احمد معمار لاہوری)

    محمد اخلاق ۔راولپنڈی 


    سولہویں صدی کے عظیم ترین شہروں میں سے ایک شہر لاہور میں  1580ء میں پیدا ہونے والے استاد احمد لاہوری نے فن تعمیر میں علم ریاضی بالخصوص جیومیٹری، میٹریل سائنسز اور جیولوجی کا استعمال کرکے جو شاہکار ڈیزائن اور تعمیر کیے۔ اربوں لوگ انھیں تاج محل، دہلی کا لال قلعہ، جامع مسجد اور خوب صورت ترین شہر شاہ جہاں آباد کے نام سے یاد کرتے اور زندگی میں ایک بار دیکھنے کی حسرت رکھتے ہیں۔

    استاد احمد لاہوری نہ صرف دوراندیش سوچ رکھتے تھے، بلکہ اپنی متحرک شخصیت کی بدولت ہر منصوبے کو مکمل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ لیکن بدقسمتی سے اس خطے اور یہاں کے عظیم لوگوں کو—جو دنیا کی کسی بھی قوم سے کم نہیں تھے—جان بوجھ کر تاریخ کے صفحوں سے مٹا دیا گیا ہے، حال آں کہ ان میں کئی عظیم سائنس دان اور ہیروز شامل ہیں۔یہی وَجہ ہے کہ ہمارے کئی آرکیٹیکٹس بھی استاد لاہوری کا نام نہیں جانتے۔نہ صرف استاد احمد لاہوری کو بھلا دیا گیا، بلکہ لاہور اور چنیوٹ کے ان ہزاروں مستریوں، ترکھانوں، مزدوروں اور دیگر اہلِ علم و فن کو بھی، جنھوں نے تاج محل، لال قلعہ، جامع مسجد اور شاہجہان آباد سمیت مغل دور کی عظیم تعمیرات میں حصہ لیا۔ان عظیم معماروں کے بارے عجیب افسانے اور جھوٹی حکایتیں گھڑی گئیں کہ تاج محل کو بنانے والے معماروں اور مزدوروں کے ہاتھ کاٹ دیے گئے۔ ایسی سب باتیں جھوٹی اور حقارت آمیز ہیں۔استاد احمد لاہوری کا ان کی وفات  1649ء تک نہایت احترام سے سلوک ہوتا رہا اور شاہی دربار میں کسی کی ہمت نہیں تھی کہ استاد کے ساتھ یا ان کے عملے کے ساتھ کوئی بدتمیزی کرے۔ دورانِ تعمیر بھی ان مستریوں اور مزدورں کے کھانے پینے کے لیے بہترین باورچی رکھے جاتے تھے، جنھوں نے اس دوران کئی لذیذ ڈشز بریانی، نہاری اور حلیم انھی مزدوروں اور مستریوں کے لیے پہلی بار بنائیں جو آج تک عوام میں مشہور اور پسند کی جاتی ہیں۔

    استاد احمد لاہوری شہنشاہ شاہ جہاں کے دورِحکومت میں مغل معمار تھے۔ وہ کئی مغل یادگاروں کی تعمیر کے ذمہ دار تھے، بہ شمول آگرہ میں تاج محل اور دہلی میں لال قلعہ۔ یہ دونوں عالمی ثقافتی ورثہ ہیں۔ انھوں نے دہلی میں جامع مسجد کا ڈیزائن بھی بنایا۔احمد لاہوری کا تعلق آرکیٹیکٹس اور سول انجینئرز کے ایک نامور خاندان سے تھا۔ وہ ایک ہنرمند انجینئر تھے ، جنھوں نے اپنی تعمیراتی صلاحیتوں کی وَجہ سے شہنشاہ شاہ جہاں سے "نادرالعصر" (اپنے دور کا بے مثال انسان) کا خطاب حاصل کیا۔ ان کا فنِ تعمیر ہند اسلامی اور فارسی طرزِتعمیر کا مجموعہ ہےاور اس طرح ہند-فارسی ثقافت کی ایک بڑی مثال ہے۔ تاج محل کے فنِ تعمیر کو پوری دنیا میں سراہا جاتا ہے، جس سے اسے دنیا کے عجائبات میں شامل کیا جاتا ہے۔

    نسبہ "لاہوری" سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مغلیہ سلطنت میں لاہور (پنجاب) سے تعلق رکھتے تھے۔ انھیں ایک پنجابی مسلمان یا فارسی ورثے کا ہندوستانی بتایا گیا ہے۔ ان کے خاندان کی دہلی ہجرت کے بعد بھی، آج بھی ان کے خاندان کو "لاہوری" کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ مسلم ہندوستان میں، تاریخی مصنفین نے "لاہوری" کو پنجابی کے مترادف کے طور پر استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر، امیر خسرو نے اسے پنجاب کے لوگوں کی بولی جانے والی زبان کے لیے استعمال کیا۔

    شاہ جہاں نے اپنے دربار کی تعمیرات میں براہِ راست حصہ لیا،اور یہ بات درست ہے کہ کسی بھی دوسرے مغل شہنشاہ کے مقابلے میں انھیں نئی شان دار عمارتوں کی تعمیر میں سب سے زیادہ دلچسپی تھی۔ وہ اپنے معماروں اور نگرانوں سے روزانہ ملاقاتیں کرتے تھے۔ عدالتی مؤرخ، عبدالحمید لاہوری لکھتے ہیں: "شاہ جہاں، جو کچھ بھی ماہر معماروں نے کافی سوچ بچار کے بعد ڈیزائن کیا ہوتا تھا، اس میں مناسب تبدیلیاں کرتے اور معماروں سے سوالات پوچھتے۔ 

    لاہوری کے بیٹے لطف اللہ مہندیس کی تحریروں میں دو معماروں کا نام لیا گیا ہے۔ استاد احمد لاہوری اور میر عبد الکریم۔ استاد احمد لاہوری نے دہلی میں لال قلعہ کی بنیاد رکھی تھی اور1638ء اور 1648ء کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا۔ میرعبدالکریم شہنشاہ جہانگیر کے پسندیدہ معمار تھے اور تاج محل کی تعمیر کے لیے مکرمت خان کے ساتھ مل کر ایک نگران کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔لاہوری کے تین بیٹے تھے: عطاء اللہ (یا عطاء اللہ راشدی)، لطف اللہ (یا لطف اللہ مہندیس) اور نوراللہ (یا نوراللہ)، جو ریاضی جیسے دیگر شعبوں کے علاوہ فن تعمیر سے بھی وابستہ تھے۔

    احمد لاہوری نے جیومیٹری، ریاضی اور فلکیات کے فنون سیکھے تھے۔ان کے بیٹے، لطف اللہ مہندیس کے مطابق وہ نہ صرف تعمیرات اور عملی انجینئرنگ میں مہارت رکھتے تھے، بلکہ سائنسی علوم سے بھی واقف تھے۔ انھیں یونانی ریاضی دان یوکلڈ( (Euclidتقریباً 300 قبل مسیح کی کتاب "عناصر" (Elements) سے واقفیت حاصل تھی، جو جیومیٹری کی بنیاد اور صدیوں تک ریاضی کی سب سے مؤثر درسی کتاب رہی۔ اسی طرح وہ مشہور یونانی ماہرِ فلکیات اور جغرافیہ دان بطلیموس( (Ptolemyتقریباً 100 تا 170 عیسوی کی تصنیف "المجسطی" (Almagest) سے بھی آگاہ تھے، جس میں فلکیاتی نظریات اور کائنات کے ارض مرکز (Geocentric) ماڈل کو بیان کیا گیا۔1631ء میں شاہ جہاں نے انھیں تاج محل کی تعمیر کے منصوبے پر مقرر کیا۔ تعمیراتی منصوبے نے احمدلاہوری کی سربراہی میں بورڈ آف آرکیٹیکٹس کی رہنمائی میں تقریباً 20 ہزار  کاریگروں کو ملازمت دی۔ کمپلیکس کی تکمیل میں 12 سال لگے۔ اس کے بعد اسے دہلی منتقل کر دیا گیا، جہاں شہنشاہ نے اسے 1639ء میں نئے شاہی شہر شاہجہان آباد کی تعمیر کا حکم دیا۔ لال قلعہ سمیت شہر کی عمارت 1648ء تک مکمل ہوچکی تھی۔ 1648ء میں احمد لاہوری نے دہلی میں شاہی مسجد کے منصوبے پر کام شروع کیا، جسے اَب جامع مسجد دہلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مسجد کی بنیاد رکھنے سے پہلے 1649 ءمیں ان کا انتقال ہوا۔ مسجد کو بعد میں معمار استاد خلیل نے مکمل کی۔

    آخر میں سوئٹزرلینڈ کی ایک تنظیم فرسٹ گلوبل کا شکریہ کہ جنھوں نے استاد لاہوری کے نام سے ایک ایوارڈ کا آغاز کیا ہے، جو انجینئرنگ کے شعبے میں جدت لانے والوں کو دیا جا رہا ہے۔ 

    https://en.wikipedia.org/wiki/Ustad_Ahmad_Lahori

    Share via Whatsapp