نوشیرواں عادل اور نظامِ عدل کی ضرورت و اہمیت
نوشیرواں عادل اور نظامِ عدل کی ضرورت و اہمیت

نوشیرواں عادل اور نظامِ عدل کی ضرورت و اہمیت
محمد رضوان غنی ۔میرپور آزاد کشمیر
یوں تو رَب تعالیٰ تمام مخلوقات کا مالک و مولا ہے، لیکن انسان چوں کہ اشرف المخلوقات ہے، اس لیے اس کے ساتھ رَب کا تعلق زیادہ گہرا ہے۔ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان میں سے دو گروہوں کو زیادہ پسند کرتا ہے؛
ایک گروہ انبیاعلیہم السلام کا ہے، جن کو اللہ تعالیٰ اپنی قوم کی طرف رہنما بنا کر بھیجتا ہے، تاکہ وہ ان کے بگڑے نظاموں کی اِصلاح کرسکیں اور ان کی زندگیاں مشیتِ الٰہی کے مطابق ڈھال سکیں۔نتیجے کے طور پر ان کو دنیا و آخرت کی کامیابی نصیب ہو۔
دوسرا گروہ عادل حکمرانوں کا ہے جو نبی تو نہیں ہوتے، لیکن اپنی قوم کے والی ہوتے ہیں اور اپنی قوم کے تمام مادی اور روحانی تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔
انبیاعلیہم السلام تو معصوم ہوتے ہیں اور ان کی زندگی کا ہر پہلو راہِ عمل ٹھہرتا ہے، دوسری طرف حکمران اگر اپنی حکومت کو عدل پر قائم رکھیں تو حدیث کے رو سے رَب کا سایہ بن جاتے ہیں۔ اور اگر ظلم کو روا رکھیں تو ظالمین میں شمار ہوکر عذابِ الٰہی کے حق دار قرار پاتے ہیں۔
ابن آدم اپنی پیدائش سے لے کر اَب تک مختلف مراحل سے گزر چکا ہے اور مختلف طرزِحکمرانی دنیا میں موجود رہے ہیں اور ہر دور میں اس کی مختلف اشکال سامنے آتی رہی ہیں۔ بعض انبیاعلیہم السلام کے ادوار کی مثالوں سےبھی ہم آگاہ ہیں۔
تاریخ میں گزرے انبیا علیہم السلام کے واقعات ،آنے والے دور کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ایسے ہی قرآن عادل بادشاہوں کی حکومت کے بارے میں بھی تذکرہ کرتا ہے، جن میں حضرت ذولقرنین کا ذکر ہے،جنھوں نے اپنی قوم کو یاجوج ماجوج کی دستبرد سے سدِسکندری کے ذریعے محفوظ کیا۔
حضرت طالوت کا ذکر ملتا ہے، جنھوں نے جالوت سے مقابلہ کرکے اس کو شکست سے دوچار کیا اور اپنی قوم کو حضرت داؤد علیہ السلام جیسا عادل حکمران عطا کیا۔ یوں انھوں نے ایک مثالی معاشرے کی بنیاد رکھی جو عدل پر مبنی تھی۔
نبی کریم ﷺ نے حکمرانی کے ذریعے دارالکفر کو دارالامن بنایا اور ریاست مدینہ کی شکل میں ایک عادلانہ مثالی معاشرہ قائم کیا، جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ آپ ﷺ نے اس دور کے عادل بادشاہوں پر بھی اعتماد کا اِظہار کیا۔ آپ صلی اللہعلیہ وسلم کے دور میں نجاشی جیسا عادل حکمران بھی موجود تھا اور نوشیرواں عادل بھی آپﷺ کی پیدائش کے نو سال بعد فوت ہوا۔
نوشیرواں عادل ساسانی سلطنت کا روشن باب تھا۔ 531ء سے 579ء تک بادشاہت اس کے حصے میں آئی جو شاہِ ایران کی بادشاہت سے بھی بڑھ کر تھی۔ کیا ازروئے عدل و سیاست اور کیا ازروئے انصاف و تدبر۔ وہ ان تمام خصوصیات کا حامل تھا اور اپنی دانش مندی ، انصاف پسندی اور عادلانہ طرزِحکمرانی کی وَجہ سے عالمی شہرت یافتہ تھا۔ اس کے دورِحکومت میں زراعت نے ایسی ترقی کی کہ اس کے علاقے کے کسی خطے میں اگر کوئی بنجر زمین نظر آجاتی تو اس علاقے کے گورنر کو سولی پر چڑھا دیتا تھا۔ معاشی خوش حالی ، فنِ تعمیرات، سائنسی اور ثقافتی ترقی ، فوجی کامیابیوں کا سہرا اسی کے سَر جاتا ہے۔
ایک حکایت ہے کہ ایک مرتبہ ہندوستان کے راجہ نے اپنا قاصد نوشیرواں کے پاس بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ چوں کہ میں صلاحیت میں تم سے بہتر ہوں تو آپ کو چاہیے کہ آپ میری حکومت کو خراج دیں، تب نوشیرواں نے قاصد کو اپنے پاس روکا اور دو دن بعد اربابِ سلطنت کو بلایا اور اس قاصد کو بھی بلایا اور اس کے سامنے ایک صندوق رکھا اور اس کو کھولنے کا کہا۔ اس صندوق کے اندر ایک چھوٹا صندوقچہ تھا، اس کو کھولا تو اس میں ایک سرکنڈا موجود تھا ۔ وہ نکال کر قاصد کو دکھایا اور پوچھا کہ کیا تمھارے علاقے میں یہ سرکنڈا ہوتا ہے؟ تو قاصد نے فوراً کہا کہ جی حضور کثرت سے پایا جاتا ہے۔ تب نوشیراں نے کہا کہ اپنے راجہ سے بولو کہ اپنے علاقے کو آباد کرے، کیوں کہ یہ سرکنڈے غیرآباد علاقوں میں ہوتے ہیں۔ میری حکومت میں اگر یہ سرکنڈا مل جائے تو پھر خراج کی بات کرنا۔
عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ عوام اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتی ہے۔ اگر بادشاہ اپنے رعایا کے ساتھ انصاف کرے تو لوگ بھی آپس میں امن سے رہتے ہیں۔ نوشیرواں کے دورِحکمرانی میں ایک شخص نے ایک رقبہ اراضی دوسرے شخص کو بیچ دی ، جب تعمیر کی غرض سے اس شخص نے کھدائی کی تو اس کو وہاں حزانہ ملا، جو وہ لے کر مالک کے پاس چلا گیا، جس نے وہ اراضی اس کو بیچی تھی اور کہا کہ یہ خزانہ آپ کی زمین سے ملا ہے اس پر آپ کا حق ہے،لیکن دوسرے آدمی نے بھی لینے سے انکار کردیا کہ میں اپنی جگہ تمھیں دے چکا ہو ں تو یہ خزانہ تمھارا حق ہے۔ معاملہ نوشیرواں کی عدالت میں پہنچا تو وہ بہت خوش ہوا اور کہا کہ تمھاری اولاد ہے؟ ایک نے کہا کہ اس ایک کی لڑکی ہے اور دوسرے کا ایک کا لڑکا تھا۔ تو نوشیرواں نے ان کی شادی کروا کر یہ خزانہ دونوں میں تقسیم کر دیا۔
اگر یہ اشخاص کسی ظالم بادشاہ کے تسلط میں ہوتے تو کیا بادشاہ کے پاس جاتے؟ حکما نے بادشاہ کو بازار سے تشبیہ دی ہے، جہاں وہی سامان لے کر جایا جاتا ہے، جس کی مانگ ہوتی ہےاور جس چیز کی مانگ نہیں ہوتی اس کو بازار میں نہیں لایا جاتا، کیوں کہ اس کا مول نہیں لگتا۔
تاریخی اعتبار سے بادشاہت کے ان ادوار میں حالات اتنے پیچیدہ نہیں ہوئے تھے۔ شعبہ جات میں اتنی ترقی نہیں ہوئی تھی کہ ہر شعبے کا ماہر علاحدہ ہوتا۔ لہٰذا ایک بادشاہ اور اس کے چند وزیر اپنی حکمت عملی سے ملکی نظم و نسق کو چلانے کی اہلیت رکھتے تھے۔ تبھی اتنی سلطنت پر عدل کا قیام ممکن رہا۔ نوشیروان جب تخت پر بیٹھا تو اس کے وزیر یونان نے کہا کہ آپ کو معلوم ہوناچاہیے کہ بادشاہت تین چیزوں سے قائم ہے:
1۔ بادشاہ رعیت کے ساتھ انصاف کرے اور ان سے اپنے لیے کچھ نہ چاہے۔
یہ بہت بلند درجہ ہے۔
2۔ بادشاہ خود بھی انصاف کرے اور رعایا سے بھی انصاف کا طالب ہو۔
یہ درمیانی درجہ ہے۔
3۔ آخری درجہ یہ ہے کہ رعایا سے تو اپنے لیے وفاداری چاہے، لیکن رعایا کے ساتھ انصاف نا کرے۔ تو حکومت کرنے کا یہ بہت گِرا ہوا ظالمانہ درجہ ہے۔
نوشیرواں نے اپنے وزیر یونان سے کہا کہ مجھے پچھلے بادشاہوں کی سیرت کے متعلق بتاؤ! وزیر با تدبیر نے کہا کہ ان کی توصیف تین چیزوں کے ساتھ کروں، دو چیزوں کے ساتھ کروں یا ایک چیز کے ساتھ؟ نوشیرواں نے کہا تین چیزوں کے ساتھ کرو! وزیر نے کہا:
1۔ میں نے ان کا کوئی شغل اور عمل جھوٹ پر مبنی نہیں پایا۔
2۔ ان کو رعایا کے حقوق سے غافل نہیں پایا۔
3۔ اور انھیں عدل کرنے والا پایا۔
نوشیرواں نے کہا اَب دو چیزوں سے توصیف بیان کرو، وزیر نے کہا:
1۔ہمیشہ بھلائی کی طرف سبقت لے جاتے تھے۔
2۔ اور برائی سے بچتے تھے۔
پھر نوشیرواں نےایک چیز سے توصیف پوچھی تو وزیر نے کہا:
1۔ ان کی حکومت بہ نسبت رعایا کے اپنے نفس پر زیادہ تھی۔
تاریخ میں کسی بھی دور کے طرزِحکمرانی کو سمجھنے کے لیے اس دور میں لوگوں کی طرزِزندگی پر غور کرنا ضروری ہے۔ حضرت محمدﷺ اورخلافت ِراشدہؓ کا دور تو ہمارے لیے نمونہ کا دور ہے اور ان کے بعد بنو امیہ، بنو عباس ، خلافت عثمانیہ اور مغل دورِحکومت میں ایک طرف حکمرانی بادشاہت کی شکل میں موجود رہی تو دوسری طرف علما و حکما کا بورڈ بھی موجود تھا جو اس بات پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے کہ اگر بادشاہ عدل سے ہٹتا ہے تو اس کے خلاف کھڑے ہوجاتے اور اگر بادشا ہ عدل پر قائم رہتا تو اس کی تعریف کرتے۔ اس طرح مسلم سوسائٹی بہ حیثیت مجموعی ترقی کی راہ پر گامزن رہی۔ گویا مقصد حکمرانی عدل کا قیام تھا۔قرآن میں انسان کو نائب کا درجہ دیا گیا ہے اور حدیث میں حکمران(بادشاہ) کو زمیں پر اللہ کا سایہ کہا گیاہے، تو جس انسان کو اتنی بڑی زمہ داری دی جائے، اس کا کام ہے کہ وہ مخلوقِ خدا سے محبت کرے۔
ایک اور جگہ قرآن میں "اللہ ، رسول اور اولوالامر کی اطاعت کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں" تاکہ انسان ایک اجتماع کے ساتھ جڑ سکے اور اپنی ذہنی استعداد کو بہتر بنا سکے۔ دنیاوی اور اُخروی زندگی میں سرخرو ہو سکے۔
اور یہ سب اسی صورت ممکن ہے جب عقلائے قوم ان عادل بادشاہوں کی زندگیوں کا بہ نظر غائر مطالعہ کریں اور پھر آج کے قومی جمہوری دور کے تقاضوں کے مطابق ان کے مثبت پہلوؤں سے آج کے دور کے لیے رہنمائی لیں۔