ؒٓامام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • ؒٓامام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ

    امام شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ اٹھارہویں صدی کی عظیم ترین شخصیت ہیں۔آپؒ 21فروری 1703ء میں ضلع مظفر نگر کے ایک گاؤں پھلت میں پیدا ہوئے۔

    By Salman Nawaz Published on Dec 28, 2024 Views 417

    امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ

    تحریر: سلمان نواز۔ بہاولپور

     

    اگر ہندوستا ن کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اٹھارہویں صدی معاشرتی اور سیاسی انتشار کا دور تصور کیا جاتا ہے۔ مختلف طبقات کی سرکشی، مرہٹوں اور سکھوں کے خون ریز مظالم، نادرشاہ کا دِلی میں قتلِ عام، انگریزی اقتدار کا آغاز، اقتصادی عدم توازن اور نظام کی فرسودگی ایسے امراض نے سماج کو اپنے شکنجہ میں جکڑا ہوا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی شخصیت کو پیدا کیا، جس نے اپنے علم کے نور سے برعظیم پاک وہند کو روشن کیا جو حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے نام سے مشہور ہوئے۔

    تعارف:

    امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ اٹھارہویں صدی کی عظیم ترین شخصیت ہیں۔آپؒ 21فروری 1703ء کو ضلع مظفرنگر کے ایک گاؤں پھلت میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد شاہ عبدالرحیم دہلویؒ ہندوستان کے عظیم علما میں سے ہیں۔آپؒ کا تعلق والد صاحب کی طرف سے حضرت عمرفاروقؓ سے ہے۔ پانچ سال کی عمر میں شیخ محمد فاضل سندھیؒ سے قرآن پڑھا اور سات سال کی عمر میں حفظ کرلیا۔ دینی تعلیم اپنے والد محترم شاہ عبدالرحیم دہلویؒ سے حاصل کی ۔علم حدیث کی تعلیم اپنے والد اور مولانا افضل سیالکوٹی ؒسے حاصل کی۔ 17سال کی عمر میں والد محترم نے آپؒ کو اپنا نائب مقرر فرمایا اوربار بار یہ جملہ ارشاد فرمایاکہ: ‘‘اس کا ہاتھ میراہاتھ ہے’’ ۔اور اسی سال 1718ء میں وصال فرما گئے۔ بارہ سال تک مدرسہ رحیمیہ میں تعلیم وتربیت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ خود فرماتے ہیں کہ "والد صاحبؒ کی وفات کے بعد میں نے تمام علوم دینیہ و عقلیہ بارہ سال تک مسلسل پڑھائے اور ہر علم میں بڑی وسیع نظر کے ساتھ غوروخوض کیا۔ آپؒ نے ساری زندگی شریعت مقدسہ کو اِنفرادی آرا پر مبنی خیالات و تصورات سے نکال کر دین اسلام کے مجموعی نظام کے تحت مرتب اور منظم کیا- یوں دین کی خدمت کرتے ہوئے21 اگست 1762ء انتقال کر گئے۔

    تعلیمی عمل میں جدت :

    آپؒ نے درس و تدریس میں جدت پیدا کی۔ مدرسہ کے نصاب میں بھی تبدیلی کی اور قرآن کو نصاب کا حصہ بنایا۔ علوم دینیہ سے متعلق ہر علم پر غوروفکر کرکے اس کے بنیادی اصول، ضابطے اور قاعدے آپؒ کے ذہن نے متعین کیے۔ آپؒ کی اس کاوش سے ہر فن کا ماہر تیار ہوگیا۔

    شاہ عبدالعزیز دہلویؒ فرماتے ہیں: ‘‘والد ماجد نے ہر فن کے لیے ایک شخص تیار کر لیا تھا،جس فن کا جو طالب ہوتا اس کو اس فن کے استاد کے سپرد فرما دیتے تھے۔‘‘

    امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے مدرسہ رحیمیہ میں تفسیر، حدیث، فقہ، تصوف اور منطق کے علاوہ سیاسیات، اقتصادیات اور فکروفلسفہ پر نہ صرف تعلیم دی، بلکہ تصانیف مرتب کروا کر اس کی علمی شکل قائم کرنے کے لیے جماعت سازی بھی کی۔

    ترجمہ قرآن حکیم:

    امام شاہ ولی دہلویؒ کی معاشرے کے بدلتے ہوئے حالات پر گہری نظر تھی ۔ آپؒ نے محسوس کیا کہ لوگ ثواب کی نیت سے قرآن پاک کی تلاوت تو ضرور کرتے ہیں، لیکن اس کے معانی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اسی وَجہ سے آپؒ نے قرآن پاک کا ترجمہ فارسی میں کیا جو  ‘‘فتح الرحمٰن’’  کے نام سے مشہور ہے۔

    "آپؒ نے واضح کیا کہ قرآن کا ترجمہ اتنے ہی الفاظ اور اسی جامعیت کے ساتھ ہونا چاہیے جس طرح کہ اصل قرآنی الفاظ اور اس کے عربی نظم کے ہیں۔ ترجمہ نہ اس سے زائد ہو نہ کم۔اور آیت کا مفہوم بھی پورا پورا ادا ہو"۔ (خطبات ملتان،از مولانامفتی عبدالخالق آزاد، رحیمیہ مطبوعات، ص114) 

    تاکہ لوگوں کے لیے قرآن کی اصل روح کو سمجھنا آسان ہوجائے۔ لیکن اس زمانے میں قرآن کا ترجمہ کرنے کو قرآن کی بے حرمتی سمجھا گیا اور اس عمل پر آپؒ کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کے آپؒ کو قتل کرنے کی کوشش بھی کی گئی،لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھا۔ آپؒ نے قرآن کے اصولی بنیادوں پر موجودہ دور کے مسائل کا حل پیش کیا۔ 

    تجدید دین کا کردار :

    ہر دور میں مجددین کی ایک جماعت ہوتی ہے جو اپنے دور کے تقاضوں پر نظر رکھتے ہیں کہ جب بھی معاشرے میں فرسودگی پیدا ہو تو معاشرے کو نئے سرے سے دین حق پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے۔ یعنی دین کے اصول وہی رہیں گے، لیکن ان اصولوں پر ایک نیا معاشرہ اور نیا ماحول قائم کرنا ہوتا ہے۔امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ اپنے دور کے ایک عظیم مجدد ہیں، جنھوں نے تجدید دین کا کام کیا اور اٹھارہویں صدی سے لے کر اَب تک مسلمانوں کے تقریباً تمام فرقے متفق ہیں۔یہی وَجہ ہے کہ امام شاہ ولی اللہؒ نے قرآن کی تشریح دور کے تقاضوں کے مطابق کی، بلکہ اس کا پورا پروگرام بھی دیا ۔ آپؒ نے اسلامی احکامات کے پیچھے موجود حکمتوں کو بیان کرتے ہوئے اسلام کو عقلی اور منطقی دلائل سے ثابت کیا۔ آپؒ نے فرمایا: تمام مذاہب کی بنیاد ایک ہی ہے۔ فر ق صرف اپنے اپنے حالات کے مطابق طریقہ کار میں ہے۔آپؒ فرماتے ہیں انسان جانوروں سے صرف اس لیے ممتاز ہے کہ وہ اپنی ضروریات کی تکمیل مہذب انداز میں کرتا ہے اور تعاونِ باہمی کی بنیاد پر زندگی میں آگے بڑھتا ہےاور معاشرے کو انسانیت کے فائدہ کے موافق بنانے میں کردار ادا کرتا ہے۔

    فلسفہ فک کل نظام:

    وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے آپؒ نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک سماج میں موجود فرسودگی کو ختم نہ کیا جائے اس وقت تک اس کی درستی ممکن نہیں۔ فرسودہ نظام کو ختم کر کے ہی عادلانہ سماج قائم کیا جاسکتا ہے۔ چناں چہ شاہ صاحبؒ نے اپنے اس فکر کو ‘‘فک کل نظام’’ یعنی نظام میں موجود تمام فرسودگی کو ختم کرکے نئے سرے سے عادلانہ بنیادوں پر نئے نظام کی تشکیل کے عنوان سے متعارف کرایا۔ کوئی فکر انسانی زندگی میں کیسے انقلاب برپاکرتا ہے اس کی اہمیت پر بھی بات کی ۔

    فکروفلسفہ کی اہمیت :

    امام شاہ ولی اللہ نے راہ نمائی کی کہ سماجی تبدیلی کے لیے ایک جامع فکروفلسفہ اختیار کیا جائے۔ ایسا فکر جو اجتماعی ضروریات کی تکمیل بھی کرتا ہو اور سوسائٹی کے مسائل کا جامع حل بھی پیش کرتا ہو۔اس فکر کی بنیاد پر جماعت کی تربیت کی جائے۔ جماعت کے ہر ہر فرد کو فکر کا شعور دیا جائےکہ جماعت کا مطمع نظر کیا مشن ہے تاکہ نئے سماجی ڈھانچے کی تشکیل کے خدوخال بھی واضح ہوجائیں کیوں کہ معاشرہ وہی ترقی کرتا ہے جو ایک فکر پر متحد ہو۔ ذہنی طور پر وہ بنیادی اساسی اصولوں پر متفق ہو کہ کس طرح پورے معاشرے کو نئے خطوط پر آگے بڑھانا ہے۔جدید دور کے مسائل کا حل آپؒ نے اس انداز سے پیش کیا ہے، جس کی مثال نہیں ملتی ۔ اسی وَجہ سے آپؒ کو ‘‘قائم الزمان’’ اور  ‘‘مجدد دوراں’’ کے القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔

    سیاسی نظام:

    امام شاہ ولی اللہؒ کے دور میں ایک طرف تو فکری اور دینی بحران کی یہ حالت تھی کہ کتاب وسنت ایک طرف رہ گئے تھے۔اور دوسری طرف سیاسی عدمِ استحکام تھا۔ آپ ہندوستان کی سیاسی حالت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ خود آپؒ نے دس سے زیادہ حکمران یکے بعد دیگرے بدلتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔اس طوائف الملوکی کی اصل وَجہ حکمران طبقہ کی ذاتی عیش و عشرت میں مبتلا ہوکر قومی و اجتماعی معاملات میں قوت فیصلہ جیسی اہم طاقت سے محروم ہونا تھا۔اور حالت یہ ہوگئی کہ صبح کو ایک مشورہ طے کرتے اور شام کو اسے توڑ دیتے۔ جب ایسا سیاسی نظام غالب آجائے تو معاشی نظام بھی اس سے ضرور اَثر انداز ہوتاہے۔

    معاشی نظام:

    جب حکمران نااہل اور عیاش ہوجائیں تو ملکی خزانے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ حکمرانوں کی عیاشی کی حالت یہ ہے کہ اگر کمر کے گرد پٹکا بھی باندھنا ہوتا تو وہ بھی کئی کئی لاکھ روپے کا ہوتا ہے۔مجلس میں اس بات پے فخر کیا جاتا ہے کہ میرے پاس کتنا قیمتی جبہ ہے، کتنا قیمتی پٹکا ہے اور میں نےکتنی بڑی کلاہ لگارکھی ہے۔ یہ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا ہی کارنامہ ہے کہ آپؒ نے انسانی معا شرے کی مادی اساس دین اسلام کے معاشی نظام پر راہ نمائی کی۔ آپؒ نے واضح کیا کہ دین اسلام کے معاشی نظام کی اساس محنت ہے،جس میں جسمانی اور دماغی محنت دونوں شامل ہیں۔ اسی طرح آپؒ نے مزید واضح کیا کہ جو شخص سماجی بھلائی کا کوئی کام سرانجام نہیں دیتا اسے ملکی وسائل سے فائدہ اٹھانے کا کوئی حق حاصل نہیں۔

    امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا فکر ، دین اسلام کا صحیح، جامع اور مکمل بیانیہ ہے۔ جو ایک علمی تجزیہ، فکروفلسفہ پر عملی نظام اور ایک مربوط ڈھانچہ ہمارے سامنے رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے اس جامع فکروعمل کو سمجھنے اور اس کے مطابق معاشرے کی تشکیل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!

     

    Share via Whatsapp