امام سندھی ؒ کی یاد میں - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • امام سندھی ؒ کی یاد میں

    .

    By Waqas khan Published on May 09, 2020 Views 1837
    امام سندھی رح کی یاد میں
    تحریر: وقاص خان، سرائے صالح

    دنیا کی تاریخ میں ہمیں کئی ایسے کردار ملیں گے جنہوں نے اپنے خطے کی قومی آزادی اور انقلاب کی راہ میں لازوال قائدانہ کارنامے سرانجام دیے جن کی بدولت وہ خطے آج ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں
    بر عظیم پاک و ہند کی آزادی اور اس کی ترقی میں ولی اللہی جماعت اور اس کی قیادت کی قربانیوں کا بھرپور کردار تاریخ کا ایک انمٹ حصہ ہے. 
    اس جماعت کے ایک سپوت نے قوم کی جدوجہد آزدی اور مجموعی ترقی کے لیے جس تن من دھن کی بازی لگائی اور اس راہ میں جن ناکامیوں رکاوٹوں دشمن کی سازشوں اور جان لیوا صعوبتوں کو شکست دی اس پر جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جاۓ کم ہے. تاریخ میں آپ کو امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.
    میرے خیال میں کسی بھی قومی ھیرو کی قدر کا حق تب ادا ہو گا جب اس کی سوچ اور گرانقدر کاز کا حکیمانہ انداز میں ابلاغ کیا جائے اور متعین میدان میں اس کو لاگو کرنے کی انتھک کوشش و جہدوجہد کے لیے عملی و دماغی قوتوں کو پوری طرح یکسوکر دیا جاۓ ۔ محض زبانی جمع خرچ  کوئی معنی نہیں رکھتا  جب تک تفہیمی فہم و بصیرت حاصل نہ ہو آپ آگے نہیں بڑھ سکتے ...
    بصیرت اتنی گہری اور صحت مند ہونی چاہیے کہ جو بات پیش کی جائےوہ ایسا پرمغز، جوہر اور وسعت ہو جس سے درپیش چیلنجز یا کئی اور سماجی گتھیاں سلجھانے کا بنیادی سرا ہاتھ میں آ جاۓ۔ آپ کی بات میں ایسا مواد ہو کہ جس کی تاثیر میں مسائل کی کلید نظر آۓ اور اس کی سوجھ بوجھ کی ڈور کھلتی چلی جاۓ ۔ جس طرح بیج سے تنومند درخت بننے کی صلاحیت ہوتی ہے آپ کی بات کی سچائی اور صداقت میں ایسی ہی ایک کشش ہو کہ نوجوان اس نظریہ کو شعور کے ساتھ اپنائیں اور اس پر مرمٹنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ محض عقیدت کے راگ الاپنے سے تو نفسیاتی آسودگی اور خودنمائی کے جذبے کی تسکین کے سوا کبھی کچھ حاصل نہیں ہوا۔ تو اصل بات عملی کام کی ہے ۔ بقول غالب :
    وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے.
    مولانا سندھی رح جیسے بہت بڑے اسکالر کے بارے میں تو
     کچھ زیادہ بات نہیں ہوسکتی بس آپ رح کی چند باتوں کے تذکرے سے یادیں تازہ کی جاسکتی ہیں۔ 
     حقیقت یہ ہے کہ کسی ذی ہوش انسان سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ آج ہمارے اجتماعی ماحول کی کیفیت بڑی دگرگوں ہے ۔ملکی عمارت کا کوئی ایسا کونہ باقی نہیں ہے جس کی تختی پر اس گندے ماحول کے گدلے نقوش ثبت نہ ہوں۔بالخصوص اقتصادی عدم توازن نے تو معاشرے کی چولیں ہلا ہلا کر کھوکھلی کر دیں جس پر اب تبصرے کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔
     مسائل کے حل کی طرف  دیکھیں تو کوئی قابل ذکر کوشش نظر نہیں آتی۔ جو کچھ ہو رہا ہے یہ بڑی افسوسناک بات ہے.
      آئیے ! اس پر اجمالی نگاہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں
    پہلے تو یہاں سنجیدہ اور باصلاحیت لوگوں کو 
    بے اثر کرنے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کے تحت اقتصادی حالات ایسے بنائے گئے ہیں جس سے مفاداتی ذہن کی نمو ہو رہی ہے اور تنازع للبقاء کے تحت ہر ایک نفسا نفسی کے عالم میں ہے ایسی ذہنیت پر مولانا سندھی رح نے کیا تیر بہ ہدف بات فرمائی کہ اس کے لیے ان کا پہلا قدم حکمرانوں کے دم چھلے بننا اور چاپلوسی کا کردار نبھانے والے ذہین لوگ ہوتے ہیں تاکہ زیادہ مال بٹور کر دیوہیکل تجوریوں کے منہ بھر دیں۔
    دوسرا طبقہ دانشوروں کا ہے جن کا ذہن بھی مذکورہ طبقے کے ذہن کا آئینہ دار ہی ہے۔یہ مسائل کی پوری فہرست ہاتھ میں تھما دیں گے لیکن نسخہ نہیں بتائیں گے ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کے مفادات بالائی طبقے سے وابستہ ہوتے ہیں
    دوسری بات ان میں مطلوبہ قابلیت کا فقدان ہوتا ہے اور کوئی واضح دوٹوک روڈ میپ نہیں ہوتا جس میں کوئی بیک گراونڈ پر مستقل پروگرام کا کوئی انتظام ہو۔ بس ! پیسے بٹورتے ہیں اور خاص خاص رحجان اور مفادات کے زیر اثر ہر دن کوئی نیا شوشہ چھوڑتے ہیں جس سے فکری انتشار وخلفشار بڑھ رہا ہوتاہے ۔
    پھر ان میں کچھ ذہنیت ایسی بھی ہوتی ہے جن کو صرف اپنے انفرادی مطالعے کے بل بوتے پر نوجوانوں کا ذہنی شکار کرنا ہوتا ہے اور خودنمائی کی نفسیات کو تسکین کی شراب پلانی ہوتی ہے اور بس۔ 
    مولانا ابوالکلام آزاد رح نے کہا تھا کہ ہمارے ہاں ذہنی شکار کرنے والے بہت ہیں 
    لیکن ان کے کسی قدم سے کم ہی کچھ سیدھا ہوتا ہوا نظر آیا ہے۔ وہ محض اپنی چرب زبانی سے گرمی محفل کرنے کا بھرپور جوہر رکھتے ہیں.
     مولانا سندھی رح کے مطابق ہم انسانیت کے مسائل حل کرنے کے بجاۓ غیر ضروری مباحث میں الجھ گئے ہیں 
    جبکہ مولانا کے مایہ ناز استاد مجاہد کبیر تحریک آزادی  شیخ الہند رح کی ایک خوبصورت  بات ہے کہ 
    "دو چار پھڑکتے ہوۓ جملے بلاشبہ عارضی طور مجلس کو محظوظ تو کر سکتے ہیں مگر میں خیال کرتا ہوں کہ میری قوم اس وقت فصاحت و بلاغت کی بھوکی نہیں ہے اور نہ اس قسم کی عارضی مسرتوں سے درد کا اصلی درمان ہو سکتا ہے 
    اس کے لیے ضرورت ہے ایک قائم و دائم جوش کی ،نہایت صابرانہ ثبات قدم کی،دلیرانہ مگر عاقلانہ طریق عمل کی،اپنے نفس پر پورا قابو پانے کی۔
    غرض ایک پختہ کار بلند خیال اور ذی ہوش محمدی بننے کی"
     ان جملوں کی تروتازگی اور معنویت اور مقصدیت  ہنوز قائم ہے ہمیں چاہیے کہ عمل کا مجسم پیکر بن جائیں. 
     مولانا سندھی رح کی اپنی کتاب "برصغیر میں تجدید دین کی تاریخ" کے حرف تعارف کے عنوان میں یہ بات کہی گئی ہے کہ آج بڑے بڑے ایوانوں میں مسائل پر غلغلے بلند ہوتے ہیں۔ پڑھا لکھا آدمی بھی ان کی نشاندہی کرتا ہے لیکن حل کا سرا ہاتھ میں نہیں آتا اس کی وجہ یہاں بھانت بھانت کے افکار ہیں اور درست تجزیے کی اہمیت شناسی مفقود ہے 
    میرے خیال میں ان کا تریاق نظریہ توحید کا درست مفہوم کے ساتھ سمجھنا اور اس کے عملی تقاضوں کو پورا کرنا ہے جس میں بنیادی تقاضا ظالمانہ نظام کو اجتماعی قوت سے توڑ کر عدل کا نظام قائم کرنا ہے 
    مولانا سندھی رح ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ ہمارے ہاں کئی طبقے موروثی طور پر توحید کو مانتے ہیں لیکن توحید کے خلاف ماحول کے سامنے کھڑا ہونے کی کوئی حرارت نہیں رکھتے...میں کہتا ہوں کہ جو توحید کو مانتا ہے اس میں غیر فطری قائم نظام کو مٹانے کی حرارت کیونکر نہ پیدا ہو؟
    لہذا ہمیں توحید کی سمجھ اور اس کے مطابق عملی قوت اپنے اندر پیدا کرنا ہو گی. اس سے مولانا سندھی فرماتے ہیں کہ انسان میں خود اعتمادی اور اس میں استحکام پیدا ہوتا ہے اور یہ ہی انقلابی جہاد کے لیے شرط اول ہے
     وہ کہتے ہیں کہ جس شخص کو انقلابی جہاد میں جس کا مقصد عدل کا قیام ہے خود اعتمادی کے لیے کسی دوسرے کو واسطہ نہ بنانا پڑے وہ پکا موحد بن جاتا ہے 
    اس کی ذہنی مضبوطی کو متزلزل کرنا ناممکن ہو گا 
    انبیاء نے مفاداتی ذہنیت کے خاتمے کے لیے اپنی تحریکوں میں اسی مادہ توحید کو رچایا بسایا  تاکہ بےلوث پن پیدا ہو.
    آج امام سندھی رح ہم میں موجود نہیں لیکن آپ کے افکارونظریات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں آپ کی نظریاتی مشن کی صورت میں اس سے وابستہ ہزاروں نوجوان امام سندھی رح کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔جو دشمن کی پہچان رکھتے ہیں اور اس پر حکمت کے ساتھ وار کرنا بھی جانتے ہیں۔
    Share via Whatsapp