حضرت ابراہیم علیہ السلام: انسانیت کے امام - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • حضرت ابراہیم علیہ السلام: انسانیت کے امام

    حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت کا تعارف قرآن کریم ہمیں یوں کراتا ہے کہ آپ۔۔۔۔

    By اظہر گوپانگ Published on Sep 12, 2025 Views 299

    حضرت ابراہیم علیہ السلام: انسانیت کے امام

    تحریر: اظہرحسین۔ راجن پور 

     

     حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت کا تعارف قرآن کریم میں یوں کراتا ہے  کہ آپ "لِلنَّاسِ إِمَامًا" یعنی تمام انسانیت کے امام ہیں، نہ کہ کسی مخصوص قوم، نسل یا طبقے کے۔

    قرآن کریم (سورۃ البقرہ،124) میں ارشاد ہے:

    إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا

    "میں تمھیں تمام لوگوں کا امام بنانے والا ہوں"۔ 

    یہ اعلان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عالمی قیادت کا اعلان ہے۔ ان کی شخصیت صرف ایک مذہب یا جغرافیہ تک محدود نہیں، بلکہ وہ تین بڑے مذاہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت  کے روحانی پیشوا سمجھے جاتے ہیں، مگر قرآن کے مطابق وہ حنیف مسلم تھے اور شرک سے پاک، توحید کے علَم بردار اور کل انسانیت کے رہنما ہیں۔ 

    قرآن کہتا ہے:

    لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ

    "تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالیں"۔ (سورہ ابراہیم،1)

    یہ ہے قرآنی دعوت کا بنیادی ہدف کہ ظلم اور گمراہی سے نکال کر آزادی اور عدل و ہدایت کی روشنی کی طرف رہنمائی کریں۔قرآن محض ایک مذہبی کتاب نہیں، بلکہ یہ ایک جامع منشور (Revolutionary Manifesto) ہے جو فرد، معاشرہ اور ریاست کو ظلم، استحصال اور شرک سے نجات دِلاتا ہے۔ قرآن کا نظریہ توحید، عدل، آزادی، مساوات اور ظلم کے انکار پر قائم ہے۔ یہ نظریہ نہ صرف فرد کی روحانی اِصلاح کرتا ہے، بلکہ سماجی و سیاسی نظام کی تبدیلی کی بھی دعوت دیتا ہے۔ 

    توحید کا مطلب صرف اللہ کو "خالق" ماننا نہیں، بلکہ اقتدار، قانون سازی اور حاکمیت میں بھی صرف اللہ کو سپریم اتھارٹی تسلیم کرنا ہے۔ بلکہ سماجی انصاف، معاشی مساوات اور ظلم کا خاتمہ ہے۔

    "ابراہیمی اتحاد" میں توحید کا مفہوم مسخ کر کے اسے سیاسی مصالح کے تابع بنایا جارہا ہے۔ آج جو سامراج انسانیت پر ظلم کررہا ہے وہ سراسر قرآنی نظریہ(پروگرامِ انسانیت) کے خلاف ہے۔ 

    تل ابیب(اسرائیل) کے بل بورڈ پر درج نعرہ  "ابراہیمی اتحاد: وقت آ گیا ہے ایک نئے مشرقِ وُسطیٰ کا"  دراصل سیاسی مفادات کو مذہبی لبادہ پہنا کر ایک استعماری ایجنڈے کو فروغ دینے کی کوشش ہے۔ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت کو بہ طور "علامتِ امن" پیش کیا جارہا ہے، جب کہ عملی طور پر اس "اتحاد" کا مقصد مشرقِ وُسطیٰ میں:

    1۔ اسرائیلی قبضے کو مزید مستحکم کرنا

    2۔ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا

    3۔ فلسطینی مزاحمت کو تنہا اور کمزور کرنا

    4۔ روس چین اور آزاد اقوام کو غلام بنانا  

    یہ سب کچھ امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کے خوب صورت نعروں کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔قرآن ایسے اتحاد کو باطل کا ساتھ دینا قرار دیتا ہے:

    وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ

    "اور ظالموں کی طرف ذرا بھی نہ جھکو، ورنہ تمھیں آگ چھو لے گی"۔ (سورہ ہود،113)

    قرآنی نظریہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ظالم کے ساتھ کسی بھی قسم کا اتحاد حرام ہے۔ دین کو بہ طور سیاسی ہتھیار استعمال کرنے والے دراصل دین فروش ہیں۔ انسان باطل نظام، جھوٹے خداؤں، استعماری طاقتوں اور سرمایہ دارانہ ظلم کا انکار کرے۔ لیکن "ابراہم اکارڈ" اس کے بالکل برعکس ہے وہ ابراہیمؑ کے نام پر نئے طاغوتوں(امریکا، یورپ،اسرائیل سرمایہ دار اور ظالمانہ ملٹی نیشنل کمپنیوں) سے اتحاد کی دعوت دیتا ہے۔ 

    ابراہیمؑ نے سب سے پہلے اپنے وقت کے طاغوت (نمرود) کے مقابلے میں یہی اعلان کیا تھا کہ:

    إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حنیفا(سورۃ الانعام،79)

    "میں نے اپنا رخ اس کی طرف کر لیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ "

    ابراہیمی راستہ وہ ہے جو توحید کی بنیاد پر طاغوت کی نفی کرتا ہے نہ کہ ان سے اتحاد کرتا ہے۔

    یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ فرعون (ظالم ریاستی و عالمی طاقت)، ہامان (سازشی دماغ/ مذہبی پیشوا ) اور قارون (سرمایہ دار) یہ تینوں کردار آج بھی سیاسی استعمار، مذہبی استحصال اور معاشی غلبے کی شکل میں زندہ ہیں اور آج کی دنیا میں:

    فرعون: سامراجی طاقتیں (مثلاً امریکا و اسرائیل)

    ہامان: ان کے مشیر، میڈیا اور تھنک ٹینکس،نام نہاد مذہبی پیشوا 

    قارون: تیل سے مالا مال عرب حکمران اور کارپوریٹ دنیا، ملٹی نیشنل کمپنیاں، سرمایہ دار و جاگیردار

    یہ سب مل کر عالمِ اسلام کی آزادی، خود مختاری اور روحانی مزاحمت اور آزاد اقوام کی آزادی کو کو کچلنے کے لیے سرگرم ہیں۔

    حضرت ابراہیم علیہ السلام کا انکار نمرود کے سیاسی نظام سے تھا، صرف بتوں سے نہیں۔

    إِنِّي بَرَاءٌ مِّمَّا تَعْبُدُونَ(سورۃالزخرف، 26)

    حضرت ابراہیمؑ نے نہ صرف بتوں کو توڑا، بلکہ سیاسی نظامِ شرک کو چیلنج کیا۔

    آج بھی "ابراہیمی اتحاد" کے نام پر ظالم طاقتوں کے ساتھ اتحاد کر کے اسی نمرودی و فرعونی نظام کو فروغ دیا جا رہا ہے، جس کے خلاف ابراہیمؑ کھڑے ہوئے تھے۔

    "خدا بچاؤ تحریک" ہو یا "ابراہیمی اتحاد"، یہ سب مذہب کے نام پر سیاست کے کھیل ہیں۔ جب خدا کے نام پر عوام کو دھوکا دیا جائے، تو اصل مسئلہ دین کے نام پر دنیاوی مفادات کا حصول ہوتا ہے۔ مذہب کو بہ طور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس سے قرآن نے خبردار کیا تھا:

    وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا(سورۃ البقرہ،41)

    "اور میری آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لو"۔  

    عرب حکمرانوں کی پالیسیوں میں قرآنی پروگرام کی جھلک نہیں، بلکہ منافقانہ کردار کی جھلک ملتی ہے۔وہ نہ صرف ظلم کو قبول کرتے ہیں، بلکہ امن کے نام پر استعماری منصوبوں کو سپورٹ کرتے ہیں۔

    تصویر اور تصور کی دنیا بہت دلکش اور حسین ہوا کرتی ہے، لیکن اس کا اندر(باطن) چنگیز کی بربریت سے بھی زیادہ خطرناک ہوا کرتا ہے۔ یہی صورت ان خوشنما بیانات اور نعروں کی ہے۔ بہ ظاہر تو تصویریں اور نعرے دلکش لگتے ہیں دِلوں کو مسحور اور عقل پر غالب بھی آتے ہیں، لیکن اس کے پیچھے چھپے سامراجی بھیڑیے ہوتے ہیں۔ 

    "ابراہیمی اتحاد" درحقیقت توحید کی علامت حضرت ابراہیمؑ کے نام پر ایک مشرکانہ نظام کی توسیع ہے، جو ظاہری امن کا دعویٰ تو کرتا ہے، لیکن اس کے اندر فلسطین، شام، یمن اور عراق کی خون آشام تاریخ چھپی ہوئی ہے۔

    "ابراہم اکارڈ" قرآنی ابراہیمؑ(کل انسانیت کے پروگرام) کی توہین ہے،یہ ایک نوآبادیاتی ایجنڈا ہے، کیوں کہ وہ باطل نظاموں کے توڑنے والے تھے، نہ کہ ان کے ساتھ اتحاد کرنے والے۔یہ ایک نیا سامراجی منصوبہ ہے جو امن کے نام پر ظلم کو پائیدار بنانا چاہتا ہے 

    قرآن ہمیں سکھاتا ہے :

    "وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ" (سورۃ البقرہ، 193)

    "اور ان سے لڑو(جدوجہد کرو) تاکہ فتنہ(سامراج و ظلم) باقی نہ رہے"۔

    قرآنی دعوت تو ابراہیمؑ کی سنت سے شروع ہوتی ہے اور استعماری ابراہیمی اتحاد اس سنت کا مذاق ہے۔ 

    یہ وقت ہے کہ ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اصل سنت — باطل کے خلاف کھڑے ہونے، توحید پر قائم رہنے اور ظلم سے انکار — کو سمجھیں اور دنیا میں پھیلائے گئے سامراجی و مذہبی استحصال کے دھوکے کو بے نقاب کریں اور "خدا پرستی اور انسان دوستی" کے نظریہ پر تمدن کی تشکیل نو کریں۔

    Share via Whatsapp