شاہ ولی اللہ کی خدمات
شاہ ولی اللہ کی خدمات کا مختصر تعارف
شاہ ولی اللہؒ کی خدمات
مصنف: گریش ماتھور
ترجمہ: محمد عثمان
عرض مترجم: ”درج ذيل تحریر ہندوستانی تاریخ دان اور صحافی” گریش ماتھور “کے مضمون کا ترجمہ ہے جو1963ء میں ایک انگریزی ہفت روزہ ” پیٹریاٹ“ میں شائع ہوا۔ عام طور پر پاکستان کے غیر دینی اور مذہب بےزار دانش ور حلقوں میں شاہ ولی اللہ ؒکو ایک روایتی عالم دین سمجھا جاتا ہے، جنھوں نے کچھ مذہبی عقائد اور ماضی کے علوم پر کام کیا ہوگا۔ اس کے برعکس شاہ ولی اللہؒ کا حقیقی تعارف ایک سماجی مفکر کے طور پر پیش کیا جانا چاہیے، جنھوں نے ہندوستانی معاشرے کو زوال پذیر ہوتے دیکھا، تو نہ صرف اِس زوال کے سیاسی، معاشی اور سماجی اسباب کا کھوج لگایا ،بلکہ اِس زوال سے نکلنے کی حکمت ِعملی (موجودہ نظام کو جڑسے اکھاڑ کر نئے نظام کو قائم کرنا) تجویز کی۔ اور اس کے لیے عملی میدان میں کوششیں بھی کیں۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کےمشن کو آپ کی تیار کردہ ولی اللہی جماعت نے آگے بڑھایا ،جِس کا حتمی نتیجہ برعظیم پاک و ہند کی آزادی کی صورت میں نکلا۔ قیام پاکستان کے کم و بیش تہتر (73) سال بعد ہم آج بھی ایک زوال یافتہ اور ناکام سماج کے طور پر کسی معجزے کا انتظار کررہے ہیں۔ ملک کا دانش ور اور نوجوان اپنی تاریخ ، تہذیب اور دینی روایت سے نہ صرف لاعلم ہے،بلکہ فکری انتشار، مرعوبیت اورمایوسی کا شکار بھی ہے۔ ایک غیر مسلم تاریخ دان کامضمون ترجمہ کرنے کا مقصد یہی ہے کہ شاید اِس کو پڑھ کر ہمارے دانش ور حلقے شاہ ولی اللہؒ کے اَفکار کی طرف متوجہ ہوں اور اِن اَفکار کی روشنی میں ایسا لائحہ پیش کرسکیں جو ملک کے نوجوان کو مایوسی، انفرادیت اور بے عملی سے نکال کر سماج کو تبدیل کرنے کی ایک فعال قوت بنا دے۔مضمون میں شاہ ولی اللہؒ کی خدمات کی طرف محض چند اشارے کیے گئے ہیں۔ اِن خدمات کی تفصیلات جاننے کے لیے شاہ ولی اللہ ؒکی اپنی تصنیفات اور ولی اللہی تحریک سے متعلق شائع کردہ کتب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ترجمے میں قاری کی آسانی اور تفہیم کے لیے چند اضافے کیے گئے ہیں۔“
1963ء کا سال گزرتا جارہا ہے، لیکن دہلی شہر کے باسی (اِس موقع سے)غافل ہیں کہ وہ اُس عظیم شخصیت کی وفات کی دو سو ویں برسی منائیں، جس کا شمار اِس شہر کی ہزاروں سال پر محیط تاریخ میں پیدا شدہ عظیم ترین انسانوں میں کیا جاتا ہے۔
اسلام کی نشأۃ ثانیہ:-
1763ء میں شاہ ولی اللہؒ کی وفات ایک ایسے مسلمان مفکر کی موت تھی، جس نے برصغیر میں اسلام کو ایک نئی سمت اور توانائی فراہم کی ۔شاہ ولی اللہؒ نے ہندوستان میں ایک ایسی علمی وفکری تحریک کی بنیاد رکھی جو آپ ؒکےفرزند اور شاگرد شاہ عبدالعزیز ؒکی قیادت میں برطانوی سامراج کو درپیش اولین عوامی مزاحمت کی شکل میں سامنے آئی۔
سرسید احمد خان اور مولانا ابوالکلام ؒجیسی متضاد سیاسی اور مذہبی نظریات رکھنے والی شخصیات اپنے فکر و عمل میں شاہ ولی اللہؒ سے متأثرتھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے دو سو سال میں برصغیر کے مسلمانوں میں شاید ہی کوئی ایسی تحریک ابھری ہوجس پر شاہ ولی اللہ ؒ کے نظریات اور تعلیمات کا اثر نہ ہوا ہو۔
یورپ میں سائنسی اشتراکیت کے نظریات کی تشکیل سے کم و بیش ڈیرھ سو سال پہلے، شاہ ولی اللہؒ اپنی بصیرت کی روشنی میں یہ نتیجہ نکال چکے تھے کہ انسانی سماجوں کو درپیش بحرانوں کا اصل سبب معاشی مسائل ہیں۔ اِس بحران کا حل آپ نے ایک متوازن معاشی نظام اور فلاحی ریاست کی شکل میں پیش کیا جس کی بنیاد بادشاہت کے خاتمے(عوامی جمہوریت کے قیام) اور شاہانہ عیش و عشرت اور دوسروں کی محنت پر پلنے والے طبقات کے خاتمے پر مبنی تھی۔( آپ نےمعروف مغربی مفکرین بہ شمول کارل مارکس سے کم و بیش سو سال پہلے روٹی،کپڑا، مکان ،نکاح کرنے کی استطاعت اور بیوی بچوں کی پرورش کے لیے روزگار کو ہر انسان کا بنیادی حق قرار دیا اور کام کے اوقات محدود کرنے کا نظریہ پیش کیا تاکہ مزدور ،کسان اور محنت کش طبقات معاشی جدوجہد کے ساتھ اپنی اخلاقی اور ذہنی ترقی کی طرف بھی متوجہ ہوسکیں، نہ یہ کہ وہ گدھوں او بیلو ں کی طرح ساری زندگی جسمانی محنت ہی کرتے رہیں۔)
آپ نے اپنی ساری زندگی ایک ایسے مشن کے نام کردی جس کا ہدف موجودہ نظام کی تبدیلی اور سماجی تحفظ پر مبنی نئے نظام کی تشکیل تھا۔ لازم تھا کہ ایسے عظیم مقاصد کے لیے جدوجہد کرنے والے ریفارمر (اصلاح کرنے والا) کو طاقتور طبقات کی طرف سے مزاحمت اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑے۔ آپ اور آپ کے بیٹےشاہ عبد القادؒ پر قاتلانہ حملے ہوئے، یہاں تک کہ آپؒ کے بیٹے کو اپنے خاندان سمیت دہلی کو خیرباد کہنا پڑا۔ آپؒ کے نواسے شاہ اسماعیل(شہیدؒ) اِنھیں مقاصد کے حصول کے لیے لڑتے ہوئے شہادت کے منصب پر فائز ہوئے۔
اپنے نظریات کےلیےتکالیف سہنے اور قربانی دینے کا سبق شاہ ولی اللہؒ نے اپنے والد شاہ عبدالرحیمؒ سے سیکھا تھا جو (مغل بادشاہ) اورنگزیب عالمگیر کے زمانے کے اہم اور مشہور عالم تھے۔بادشاہ نے دور کے تقاضوں کے مطابق شریعت کے احکام مرتب کرنے کے لیے علما کی ایک وسیع جماعت تشکیل دی تھی۔ ان احکامات کے مجموعے کو فتاویٰ عالمگیری کا نام دیا گیا۔ شاہ عبد الرحیمؒ نےخطرناک نتائج بھگتنے کے امکانات کے باوجود دربار میں ملازمت اور پُرکشش مراعات کی پیش کش کو کبھی قبول نہ کیا۔
اُن دنوں اکبرِ اعظم کی اسلام کو مقامی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور مذہبی رواداری کو فروغ دینے کی کوششوں کو شدت پسندی سے دبانے کا سلسلہ جاری تھا۔دین کی تشریح کا کام درباری علما کے گھر کی لونڈی بنا ہوا تھا (جسے وہ اپنی خواہشات کے مطابق بدلنے میں مصروف تھے)۔ شاہ عبدالرحیم اِس عمل کا حصہ بننے کو تیار نہ تھے۔اورنگزیب کے دور حکومت میں کیے جانے والے اِن قدامت پسند اقدامات کے نتائج شاہ ولی اللہ کے دور میں نکلنے لگے۔(جدید علمی تحقیق اورنگزیب پر مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کے الزامات کو انگریز دور میں غلط تراجم اور تحاریر کے زریعے اورنگزیب اور دیگر مسلمان حکمرانوں کے کردار کو مسخ کرنے کی تحریک کا حصہ ثابت کررہی ہے۔ (ع-م)
قرآن حکیم کے اولین مترجم:-
شاہ ولی اللہ نے محسوس کیا کہ لوگوں نے قرآن سے رہنمائی اور بصیرت لینی چھوڑ دی ہے۔ قرآن کو حِفظ اور تلاوت تو کیا جاتا ہے لیکن اِس کے معانی سمجھنے کی کوشش کم ہی کی جاتی ہے۔ چناں چہ شاہ ولی اللہ نے قرآن کو برصغیر کے اہلِ علم کی زبان یعنی فارسی میں ترجمہ کیا۔قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ قرآن کا کسی بھی ہندوستانی زبان میں پہلا ترجمہ تھا، جس طرح بھگوت گیتا کا ترجمہ اور تبصرہ تِلک اور گاندھی نے کیا تھا ، اسی طرح قرآن کا یہ ترجمہ بھی گہرے سماجی مقاصد لیے ہوئے تھا۔ اُس زمانے میں قرآن کا ترجمہ کرنے کو قرآن کی بے حرمتی خیال کیا جارہا تھا اور اِس عمل پر شاہ ولی اللہ کو شدیدمخالفت اور تنقید کا سامنا تھا۔ ایک موقع پر قدامت پرست علما کے بھڑکائے ہوئے ہجوم نے فتح پوری مسجد سے نکلتے ہوئے آپ کو گھیر لیا اور آپ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے ایک بیٹے (شاہ رفیع الدین) نے قرآن کواہل ِدہلی کی زبان یعنی ہندی/اردو میں ترجمہ کیا۔ آپ کے ایک اور بیٹے (شاہ عبد القادرؒ )نے قرآن کی اردو زبان میں تفسیر بھی لکھی۔
علم و حکمت کی تلاش میں بے قرار طبیعت، شاہ ولی اللہؒ کو حجاز کے سفر پر لے گئی،جہاں آپؒ نے الجیریا، ترکی اور دیگر مسلم ممالک کے سماجی حالات کا مطالعہ کیا۔ وطن واپسی پر آپ رح نے اپنے والد کی قائم کردہ درس گاہ میں درس و تدریس کے کام کا آغاز کیا۔ اِس کے ساتھ ساتھ آپؒ نے اپنے نظریات کی ترویج کے لیے مختلف مراکز بھی قائم کیے۔آپؒ نے (دینیات، سماج ،تاریخ سمیت) مختلف موضوعات پر تقریباً ایک سو پانچ (105) کتابیں تصنیف کیں۔ شاو ولی اللہ ؒپر دین میں قدامت پرستی کا الزام عائد کیا جاتا ہے ۔ لیکن( حقیقت یہ ہے کہ) جب وہ قرآن کی طرف رجوع اور اسلامی روایت سے رہنمائی کی بات کرتے ہیں، تو اِس عمل سے ان کا مقصد اِجتہاد کی اہمیت واضح کرنا ہوتا ہے ۔اِجتہاد ، دین کی متواتر تشریح کا وہ عمل ہے جِس کے ذریعے اسلام ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔شاہ ولی اللہؒ سمجھتے تھے کہ اسلام کی آفاقیت کو بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اُسے ایک مخصوص علاقے کی تعبیر اور پیرہن میں قید کرنے سے بچا یا جائے۔اس تعبیر کو شاہ ولی اللہؒ کے پیروکار اہل ِعلم عرب قومیت (یا عرب رسم و رواج) کے نام سے بیان کرتے ہیں۔
شاہ ولی اللہؒ نے اسلامی تعلیمات کو اندھے اعتقادات اور توہم پرستی سے آزاد کرواتے ہوئے دین اسلام کو نئے دور کے تقاضوں کے مطابق پیش کیا۔ آپؒ نے اسلامی احکامات کے پیچھے موجود حکمتوں کو بیان کرتے ہوئے اسلام کو عقلی اور منطقی دلائل سے ثابت کیا۔آپؒ نے اس بات پر زور دیا کہ تمام مذاہب کی بنیاد اور مقاصد مشترک ہیں (فرق صرف اِن مقاصد کواپنے اپنے حالات اور زمانے کے مطابق حاصل کرنے کے طریقہ کار میں ہے)۔ آپؒ نے مسلمانوں کے تمام فرقوں کو یکجا کرنے اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوششیں بھی کیں۔ مرہٹوں کی مخالفت کرتے ہوئے آپؒ نے مسلم دیہات کی طرح ہندؤں کے دیہات کی تباہی کی بھی اِسی شَدّومَد سے مذمت کی۔ اِسی طرح نادر شاہ کے حملےاور اس کے نتیجے میں دہلی کے ہندو اور مسلم شہریوں کےقتل عام پر بھی آپؒ نے سخت غم و غصے کا اظہار کیا ۔(اِن واقعات سے نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آپ رح کی طرف سے کسی حکمران کی مخالفت یا حمایت مذہبی بنیادوں کے بجائے خالصتا ًانسانی بنیادوں اور زمینی حقائق پرمبنی تھی۔)
شاہ ولی اللہؒ کی کوششوں کا مقصد نہ تو مغلیہ سلطنت کی بحالی تھا اور نہ کسی نئی مسلم بادشاہت کا قیام تھا۔ اس کے برعکس آپؒ کی جدوجہد کا محور پرانے اور شکست خوردہ سیاسی نظام کی جگہ ایک نئے نظام کی تشکیل تھا۔شاہ ولی اللہؒ انتشار پسند(انارکسٹ: ایسا مفکر جوسماج میں ریاستی ڈھانچے کو غلط سمجھے اور ریاستی نظام کے بغیر سماج کا خواب دیکھے) نہیں تھے۔ لیکن آپؒ سمجھتے تھے کہ اگر سماج کو منظم انداز میں چلانا ہے ، تو اس کے لیے ایسی قیادت کی موجودگی ضروری ہے جو باصلاحیت ہو اور اسے (جمہوری بنیادوں پر) معاشرے کی تائید بھی حاصل ہو۔ آپؒ نے بیان کیا کہ انسان جانوروں سے اِسی بنیاد پر امتیاز رکھتا ہے کہ وہ اپنی ضروریات کی تکمیل ایک شائستہ اورمہذب انداز میں کرتا ہے اور یہ سارا عمل انسانوں کے درمیان باہمی تعاون کی بنیاد پر تکمیل پذیر ہوتا ہے۔
(معاشی معاملات میں) آپ رح نے نظریہ پیش کیا کہ پیدائش ِدولت کی بنیاد محنت ہےاور جو شحض پیدائشِ دولت کے اِس عمل میں حصہ نہیں لیتا یا سماجی بھلائی کا کوئی اور کام سرانجام نہیں دیتا، اُسے ملکی وسائل سے فائدہ اٹھانے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ آپ نےکسانوں اور دستکاروں کے حقوق کی فراہمی پر زور دیا۔ آپ رح تجارت پر غیر ضروری پابندیوں اور ٹیکسوں کے قائل نہیں تھے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ تجارتی بدعنوانیوں پر سخت گرفت کرنے پر بھی یقین رکھتے تھے۔ اِنہیں وجوہات کی وجہ سے جاگیرداروں نے اُنہیں اپنا دشمن خیال کیاجبکہ عام عوام نے آپ رح کو اپنا علمی اور فکری رہنما بنایا۔
سامراجی نوآبادیاتی نظام کی مزاحمت:-
شاہ ولی اللہ ؒکے اَفکار سے متأثر ہوکر جو تحریک جاگیرداری نظام کے خلاف شروع ہوئی تھی ، اُس کا رخ انگریز سامراج کے خلاف موڑنا پڑا جو کہ دہلی سمیت پورے ملک پر قابض ہورہا تھا۔(ان حالات میں دور کا تقاضا یہی تھا کہ نظام کی تبدیلی کی تحریک کو ملک کی آزادی کی تحریک میں بدل دیا جائے)۔
آپ ؒ کے فرزند شاہ عبد العزیز ؒ نے (1802ء میں) برطانوی حملہ آور طاقت کے خلاف جہاد کا فتویٰ (جسے فتویٰ دارالحرب کہا جاتا ہے) جاری کیا (تاکہ عوام میں ملک کی غلامی کاشعور اور اسے آزاد کروانے کا جذبہ پیدا ہو)۔
شاہ ولی اللہؒ (اور ان کی جماعت کی پیدا کردہ) تحریک نے انگریز کے خلاف پہلی مُسلح جِدوجہد کو مُنظم کیا (جِس کا ایک اظہار تحریکِ ریشمی رومال کی صورت میں سامنے آیا) لیکن اَگلے دور (پہلی جنگِ عظیم میں سلطنت ِعثمانیہ کے خاتمے کے بعد) میں جب گاندھی نے عدم تشدد کی بنیاد پر جِدوجہد کا نظریہ پیش کیا،تو اِسی ولی اللہی تحریک نے سب سے پہلےآزادی اور سماجی تبدیلی کے لیے عدم تشدد کے اِس نظریے کی تائید کی۔ ہندوستان میں انگریز اقتدار کے خلاف سازش کا پہلا مقدمہ اِنہیں رہنماؤں (شیخ الہند مولانا محمودحسن ؒ کے ساتھیوں)کے خلاف بنا، جس کے نتیجے میں اُنھیں کالا پانی کی سزا دی گئی۔ اِسی طرح(1915ء میں) آزاد ہندوستان کی پہلی عبوری حکومت بھی اِسی جماعت کے ارکان نے کابل میں قائم کی۔ (مولانا عبید اللہ سندھی ؒاِس حکومت کے وزیر داخلہ اورمولانا برکت اللہؒ بھوپالی وزیراعظم مقرر ہوئے۔)ولی اللہی تحریک ہندوستان کی پہلی اجتماعیت تھی، جس نےتمام مذاہب (اور قومیتوں) کے اتحاد کی بات بہ طور اصول کے کی۔ولی اللہی تحریک نے سید احمد خان اور کانگریس کی مذہبی تقسیم پر مبنی سوچ کی بھی مخالفت کی جِس کے حتمی نتیجے کے طور پر ہندوستان مختلف ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔
اگر معاشر ے میں اِن حقائق کا تعارف بہت محدود ہے، تو اِس کی بنیادی وجہ ولی اللہی تحریک کے قائدین کا اپنے امور کو خفیہ رکھنا ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعدانگریز نے جس بربریت اور سفاکی کا مظاہرہ کیا، اِخفا (معاملات کو رازداری سے سَرانجام دینا) کی یہ روایت اُس کا لازمی تقاضا تھا۔ (اِسی پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے 1857ء کی جنگِ آزادی میں بہ ظاہر ناکامی کے بعد دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں لایا گیا اور انگریز کے خلاف جِدوجہد پر علمی چادر ڈال دی گئی)۔ آگے چل کر ہندومذہب کے ماتحت چلنے والی فرقہ وارانہ تحریکیں بھی اِس رازداری کی ایک وَجہ تھیں۔(رازداری کی ایک اور وَجہ ولی اللہی علما کا تقویٰ یعنی صرف رَضائے الٰہی کے لیے جدوجہد کرنا اور ریاکاری اور نمود و نمائش سے بچنے کی تدبیر کرتے رہنا بھی تھی ۔)1930ء کی دہائی میں (مولانا)عبیداللہ سندھیؒ نے ولی اللہی علوم واَفکار کو دارالعلوم دیو بند جیسے تعلیمی اداروں کی چار دیواری سے نکال کر عوام میں مقبول بنانے کی کوششوں کا آغاز کیا (لیکن برصغیر کی تقسیم کے بعد اِن کوششوں کو شدید دھچکا پہنچا۔ قیام پاکستان کے بعد شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے معاشرے میں ولی اللہی علوم کے فروغ کے لیے دل وجان سے کوشش کی۔) مختصراً یہ کہ ہماری لاعلمی اپنی جگہ ، لیکن اِس حقیقت سے فرار ممکن نہیں کہ آزادی کی قومی تحریک پر رہنمائی اور توانائی لینے کے حوالے سے ولی اللہی اَفکار و اعمال کے گہرے اثرات نَقش ہیں۔