شيخ وقت كا مقام اورتعارف
حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری شریعت ، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت تھے اور اس دور میں شاہ ولی اللہ کا فیضان ہیں
شيخ وقت كا مقام اورتعارف
اُسامہ احمد،نسٹ یونیورسٹی اسلام آباد
جماعت کے پیرومرشد اور شیخ کے بارےمیں صوفیا کا قول ہے کہ
"نبی اکرمﷺ کے متبع کامل کسی شیخ و مرشد کا اپنی جماعت کے اندر ہونا، ایسا ہی ہے، جیسے نبی اپنی اُمت میں "
اور شیخ کامل وہ ہوتا ہے جو شریعت،طریقت اور دینی سیاست کا جامع ہو۔
امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ وہ عظیم مفکر ہیں، جنھوں نے غلبہ دین اور اسلام کے آفاقی اصولوں کی روشنی میں اِس ہزارہ دوم کے لیے (فلسفہ تشریع اسلامی) مرتب کیا اور اُمت محمدیہ پر بہت بڑا احسان فرمایا ۔ بے شک اللہ تعالیٰ کے ہاں احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ نہیں ۔
عالمی سامراجی ریشہ دوانیوں اور غاصبانہ جبری تسلط نے جہاں اس خطے (برعظیم پاک و ہند) کو معاشی طور پرکنگال کیا، اسی کے ساتھ ساتھ فکری و نظریاتی طور پر بھی مفلوج کرنے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی ، مگراللہ تعالی ٰکا فرمان ہے :
ترجمه : اُن ( دشمنانِ دین و دشمنان انسانیت) نے تدبیر( سازش ) کی اور اللہ نے بھی تدبیر کی اور بے شک اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔
اس مدبر اعظم نے ایک جماعت حقہ اور علمائے ربانیین کا ایک ایسا مستقل تسلسل برقرار رکھا، جس نے امام شاہ ولی اللہؒ کے فکر کو میلا نہیں ہونے دیا ۔ شاه صاحب کی فکرکے ایک جانشین شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ، شاه صاحب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ دنیا والوں کےلیے اللہ کی ایک نشانی ہیں ۔
شاہ صاحب کے فکر اور ان کی جماعت کے مشن پر ہی حضرت شاہ عبد الرحیم رائے پوریؒ نے اپنی خانقاہ رائے پور کی بنیاد رکھی۔
اس اُونچے فکر اور نظریے کی عظمت رائے پور میں جمع ہوئی ان نورانی نسبتوں کی کشش ہی تھی کہ جس نے (ڈھڈیاں) سرگودھا سے اتنے طویل فاصلے سے بھی جذب و کیفیت کے حامل نوجوان حضرت اقدس شاہ عبد القادر رائے پوریؒ کو تربیت و طریقت اور راہِ سلوک کی منازل طے کرنے کے لیے رائے پور کی طرف متوجہ کیا۔
رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:
"ایک فقیہ (دین حق کا شعورکامل رکھنے والا، شریعت ،طریقت اور نبوی سیاست کاجامع عالم دین) ہزار عابدوں سے زیادہ شیطان پر بھاری ہے ۔ "
یہ حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری کی فقاہت ہی تھی کہ جس نے 1950 ء میں ان ساری فکری، نظریاتی اور تربیتی نسبتوں کی امین ہستی اور ایک جید فقیہ نوجوان کو شاہ صاحب کے فکر کی لو تھما کر پاکستان روانہ کیا ۔ یہ ہستی شاہ عبدالعزیز رائے پوری کے فرزند اور شاہ عبدالقادر رائے پوری کے خلیفہ حضرت مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ تھے۔ حضرت رائے پوریؒ نے پاکستان تشریف لاکر سرگودھا میں قیام فرمایا ۔ حضرت کے نورانیت سے بھرے قلب مصفی کی جذب و کشش ہی تھی کہ جس نے ملک بھر کے نوجوانوں کواپنی طرف متوجہ کیا۔پاکستان کا کوئی ایسا کونا نہیں، کوئی ایسا ادارہ نہیں،کوئی ایسی درس گاہ نہیں، کوئی ایسا گلی کوچہ اور شہر نہیں، جہاں سے باصلاحیت نوجوان حضرت کی طرف متوجہ نہ ہوئے ہوں۔ دورِ جدید کے بدلتے ہوئے تقاضوں اور دہریت کے سیلاب کو دیکھتے ہوئے حضرت نے ان نوجوانوں کو دین اسلام اور شریعت محمدیہ و ملت حنیفیہ کا ایسا جامع پروگرام پیش کیا کہ جس سے ہر ذی ہوش اور عقل مند متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔ آپ نے عالمی سامراجی طاغوتی قوتوں کی چالوں اور مکر و فریب کو سمجھااور اس دور کے عفریت سے عوام الناس کو خبردار کیا۔ حضرت والا نے فرمایا " جس قوم کا نظام غالب ہوتا ہے، اس کا تہذیب و تمدن بھی غالب آتا ہے " ۔ آج یورپ کا سرمایہ دارانہ بنیادوں پر سرمایہ پرستی کا نظام غالب ہے تو کوئی بھی معاشرہ ان کے اس نظام اور کلچر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ۔
اس لیے حضرتؒ نے اہل علم اور بالخصوص نوجوانوں کو اس سرمایہ پرستی کے عفریت سے بچنے ، اس کی پہچان کرنے اور اسے اپنے معاشرے اور ملک و قوم سے نکال باہر پھینکنے کی طرف توجہ دلائی۔ حضرت رائے پوری ؒ"فقیہ واحد" اور " الشيخ في قومه " کے عملی مصداق نظر آئے ۔ حضرت نے امام شاہ ولی اللہ دہلوی کے فکرو فلسفہ اور علوم ومعارف کو عوام الناس تک منتقل کرنے کے لیے 1990ء میں "شاہ ولی اللہ میڈیا فاؤنڈیشن" کی بنیاد رکھی، جو اَب تک بہت عمدہ اور قیمتی لٹریچر طبع کر چکا ہے ۔ حضرت اقدسؒ کے قلب اطہر پر شاہ صاحب کے علوم و افکار کو مستقل زندہ رکھنے اور نوجوانوں کو ان کے نظریے پر جمع کرنے کا جو داعیہ الٰہیہ جوش مار رہا تھا، اسی کے سبب آپ کے فیضِ نورانی و علم بُرہانی نے تقاضا کیا کہ ایک جامع تربیتی ادارہ بنایا جائے، جہاں سے شاہ صاحب اور ان کی جماعت کا فیضان مستقل زندہ رہے۔ آپ نے 2001ء میں لاہور میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ قائم کیا،جس کے ذریعے وہ بحر ذخار جو حضور اقدس ﷺ کے علوم نبوت کی شکل میں جماعتی تسلسل سے شاہ ولی الله صاحب کے قلب میں داخل ہوا، اور ان کے بعد یہ فیضِ معلّٰی حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری کے ذریعے ملک بھر کے نوجوانوں کے قلوب کی توجہ کا مرکز بنا ۔ آپ کی محققانہ بصیرت اور مؤمنانہ فراست ہی تھی کہ آپ نے عاقلانہ فہم اور عاشقانہ جذب کی حامل شخصیت ، اپنے خاص تربیت یافتہ اور جانشین حضرت مولانا مفتی شاہ عبد الخالق آزاد دامت برکاتہم العالیہ کو نوجوانوں کی تربیت اور ولی الٰہی افکار کی ترویج و تدوین کےلیے مستقل طور پر ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور میں قیام کا حکم دیا ۔ آپ رح کی مشکوۃِ ولایت ہی کا طُرّہ امتیاز ہے کہ آپ نے علومِ نبوت اور افکار ولی اللّٰہی و تشریحات عبیداللہ سندھی پر ایک تربیت یافتہ جماعت پیدا کی ۔ حضرت مولانا مفتی شاہ عبدالخالق آزاد رائے پوری ، ڈاکٹر مفتی سعیدالرحمن اعوان ، مولانا مفتی محمد مختار حسن، مولانامفتی عبدالمتین نعمانی ، مولانامفتی عبد القدير ، جیسے قیمتی جواہرحقیقی حضرت عالی شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کے ہی خزینہ ولایت کا پَرتو ہیں۔ آپؒ نے غلبہ دین کا وہ جامع پروگرام جو حضور اقدس ﷺ اور آپ کی جماعت حقہ کے ذریعے سے ہوتا ہوا، امام شاہ ولی الله تک پہنچا ، اسے پوری جرأت، ہمت اور استقامت کے ذریعے سے اپنی جماعت اور ملک بھر کے نوجوانوں کے قلوب میں منتقل کیا۔ اسی لیے آپ امام ِعزیمت و حکمت ہیں۔ حضرت اقدس شریعت ، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں ۔ آپ کا لاکھ لاکھ شکریہ کہ آپ نے علوم نبوت کا وہ فیضان بہ طور امانت اور امامت کی ذمہ داری کے تحت ہمارے قلوب میں منتقل کیا ۔ اللہ تعالی ہمیں اس امانت کو سنبھالنے اور اس پراپنی تربیت کروانے اور عمل پیرا ہونے کی جرأت ، ہمت ، جذبہ اور استقامت عطا فرمائے ۔ حضرت اقدس شاه سعيد احمد رائے پوریؒ 26 ستمبر 2012 ء کو لاکھوں نو جوانوں کو آبدیدہ چھوڑ کر خالقِ حقیقی سے جاملے۔ پروردگار عالم حضرت کی مرقد انور پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور آپ کے درجات عالیہ کوبے انتہا بلندیاں عطافرمائے اور آپ جاری کردہ اس فیض کو تاابد جاری وساری رکھے۔ آمین!