حضرت مولانا محمد صادق کھڈویؒ
تحریکی سرگرمیوں میں مولاناؒ نے اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا۔ حضرت شیخ الہندؒ اور امام انقلابؒ سے محبت و عقیدت کا یہ عالم تھا کہ زندگی کے ہرموڑ پر ان کے
حضرت مولانا محمد صادق کھڈویؒ
تحریر: وسیم اعجاز، کراچی
بیسویں صدی عیسوی کا آغاز برعظیم پاک و ہند کی تاریخ میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، انگریزوں کے غاصبانہ قبضے کے خلاف ملکِ عزیز کے ہر کونے سے تحریکاتِ آزادی میں حصہ لینے والے رجالِ کار اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔ انھی دنوں تحریکِ شیخ الہندؒ نے آزادی و حریت کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ کی اس تحریک کے ایک نمایاں رُکن کراچی سے، مولانا محمد صادق کھڈویؒ بھی ہیں۔
مولانا محمد صادقؒ کی ولادت 15 مارچ 1874ء کو کھڈہ (لیاری) کراچی میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد ِگرامی سے حاصل کی۔ 1894ء میں دارالعلوم دیوبند میں حضرت شیخ الہندؒ کے حلقہ درس میں شامل ہوئے۔ جلد ہی ان کا شمار حضرت شیخ الہندؒ کے خصوصی تلامذہ میں ہونے لگا۔ جون 1895ء میں دارالعلوم دیوبند سے سند ِ فراغت حاصل کرنے کے بعد اپنے والد ِگرامی کی نگرانی میں مدرسہ مظہر العلوم کھڈہ کراچی میں تدریسی کام میں مشغول ہوگئے۔
1914ء میں اُن کے والد ِگرامی کی وفات ہوئی تو حضرت مولانا محمد صادقؒ مدرسے کے مہتمم مقرر ہوئے۔ اُن کے دور میں مدرسہ مظہرالعلوم آزادی کے ایک اہم مرکز کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ انھوں نے اس مدرسے کا الحاق دارالعلوم دیوبند سے کرایا اور نصب العین، مقاصد اور دستورُ العمل میں اس کے تابع کیا۔ نوجوانانِ وطن کو تحریکِ شیخ الہندؒ کے ساتھ جوڑا۔ حریت کے اس مرکز میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، امام انقلابِ حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ، حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ، حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ اور مولانا ابوالکلام آزادؒ وغیرہ کے متعدد دورہ جات ہوتے رہے۔
1910ءمیں حضرت شیخ الہند ؒ نے مولانا عبیداللہ سندھیؒ اور مولانا محمد صادق کھڈوی ؒ کو خاص طور پر دیوبند طلب فرمایا اور ”جمعیة الانصار“ کے قیام کے لیے مشاورت کی۔ ”جمعیة الانصار“ کے دیگر مراکز کے ساتھ ساتھ کراچی میں ایک مرکز قائم کیا گیا، جس کی نگرانی مولانا محمد صادقؒ نے کی۔ اس مرکز نے نہ صرف کراچی اور اس کے گردو نواح میں حریت و آزادی کی شمعیں روشن کیں، بلکہ بلوچستان کے علاقوں میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔
1915ء میں حضرت شیخ الہندؒ کی قیادت میں جاری تحریکِ ریشمی رومال میں بھی مولانا صادقؒ کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے اس تحریک میں کلیدی کردار ادا کیا۔ تحریکِ ریشمی رومال میں مولانا سندھیؒ نے جب ایک فورس ”جنودِ ربانیہ“ کے نام سے تشکیل دی تو سندھ سے مولانا تاج محمود امروٹیؒ، مولانا محمد صادق کھڈویؒ، شیخ عبدالرحیم سندھیؒ وغیرہ کو شامل کیا، جنھیں مختلف ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ مولانا محمد صادقؒ کو اس فوج میں ایک اہم عہدے پر فائز کیا گیا اور ان کے مدرسہ مظہر العلوم کھڈہ کو تحریک کا مرکز بنا یا ۔
1916ء میں مولانا محمد صادقؒ نے لسبیلہ بلوچستان میں مینگل قوم کے ذریعے انگریزوں کے خلاف بغاوت کرادی۔ مولاناؒ نے فتویٰ جاری کیا کہ: ”انگریز فوج میں بھرتی ہوکر ترکوں سے جنگ لڑنا کفر ہے۔“ اس بغاوت کی وَجہ سے انگریزوں کو بہت زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ بلوچوں میں حریت و آزادی کی روح پھونکنے کی پاداش میں مولاؒنا کو 3 سال تک پونہ شہر کی جیل میں نظربند کردیا گیا۔
1918ء میں پہلی جنگِ عظیم کے اختتام پر انگریزوں نے ہندوستانیوں پر جبر کے پہاڑ توڑ دیے۔اس جنگ کے دوران خلافتِ عثمانیہ کو بہت نقصان پہنچا، جس کو بچانے کے لیے مسلمانانِ ہند نے تحریکِ خلافت کی بنیاد رکھی۔ 1919ء میں جب تحریکِ خلافت کا آغاز ہوا تو مولانا موصوفؒ نے اس میں شمولیت اختیار کرلی۔ سندھ میں تحریک ِ خلافت کی ابتدا اور بعد کی سرگرمیوں میں کلیدی کردار ادا فرمایا۔ 1921ء میں آل انڈیا خلافت کانفرنس کا ایک اہم اجلاس کراچی میں ہوا۔ مولاناؒ اس کانفرنس کی استقبالیہ کمیٹی کے چیئرمین تھے، جس میں ہندوستان کے متعدد علما شریک ہوئے۔
جماعتِ شیخ الہندؒ کے قائم کیے گئے اداروں میں سے ایک اہم نام جمعیت علمائے ہند کا بھی ہے، جس کی تاسیس 28 دسمبر 1919ء میں ہوئی۔ مولانا محمد صادقؒ اس میں شامل ہوئے اور جمعیت علمائے ہند کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن منتخب ہوئے۔ جمعیت علمائے ہند کے کام کو سندھ دھرتی میں منظم کرنے اور سیاسی کردار ادا کرنے کے لیے جب جمعیت علمائے سندھ کی بنیاد رکھی گئی تو انھیں اس کا پہلا صدر منتخب کیا گیا۔ سندھ کی سطح پر سیاسی سرگرمیوں اور عام و خاص کی تربیت میں جمعیت علمائے سندھ نے بھر پور کردار ادا کیا۔ تحریکِ شیخ الہندؒ کا مرکز مدرسہ مظہرالعلوم کھڈہ لیاری ان سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔
1939ء میں جب امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی ؒ وطن واپس تشریف لائے تو استقبال کے انتظامات کرنے والوں میں مولانا محمد صادقؒ پیش پیش تھے۔ حضرت سندھیؒ نے وطن واپسی کے بعد اپنا پیغامِ انقلاب پہنچانے کے لیے بیت الحکمت قائم فرمایا تو مولانا موصوفؒ حضرت سندھیؒ کے معاون کے طور پر ذمہ داریاں سرانجام دیتے رہے۔
1945ءمیں آل مسلم پارٹیز کانفرنس دہلی میں جمعیت علمائے ہند کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تو اس کانفرنس میں طے پایا کہ سیاسی پارٹیوں کا ایک مشترکہ بورڈ قائم کیا جائے، جس کا نام ”آل انڈیا مسلم پالیمینٹری بورڈ“ ہو، اس کے تحت صوبائی بورڈ قائم ہوں۔ اس بورڈ کے ممبر کے طور پر مولانا محمد صادقؒ کو بھی شامل کیا گیا۔ وہ سندھ پارلیمینٹری بورڈ کے صدرمنتخب ہوئے۔
تحریکی سرگرمیوں میں مولاناؒ نے اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا۔ حضرت شیخ الہندؒ اور امام انقلابؒ سے محبت و عقیدت کا یہ عالم تھا کہ زندگی کے ہرموڑ پر ان کے پیش کیے گئے آزادی کے نظریے کے مطابق عمل کرتے رہے۔ زند گی کے آخری دنوں میں ضعف و کمزوری میں مبتلا ہوگئے۔ مولاناؒ 18 جون 1953ءبروز جمعرات کو عالمِ بقا کی جانب عازمِ سفر ہوئے۔ ان کا مزار کراچی میں کھڈہ لیاری کے قبرستان میں مرجعِ خلائق ہے۔