نشان پاکستان
منفرد کارناموں کو سرانجام دینے والے افراد کے لیے ان کا ملک مختلف اعلیٰ اعزازات کا اہتمام کرتا ہے. ان اعزازات کے ذریعے افراد کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے
نشان پاکستان
تحریر:محمد حارث خان یوسف زئی، راولپنڈی
اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل مخلص افراد اپنی قوم کے لئے کچھ نا کچھ منفرد اقدام کرنا چاہتے ہیں اور یقیناً سرانجام بھی دیتے ہیں.یہ اقدامات مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ایسے ہی منفرد کارناموں کو سرانجام دینے والے افراد کے لیے ان کا ملک مختلف اعلیٰ اعزازات کا اہتمام کرتا ہے۔ان اعزازات کے ذریعے افراد کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور ایسی ہی باصلاحیت افراد کی توجہ بھی اس طرف راغب کی جاتی ہے تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ ان کا وطن ان کے کار ہائے نمایاں کو نظر انداز نہیں کرتا.اس کرہِ ارض پر موجود تمام ممالک و ریاستیں ایسے اعزازات کا سلسلہ قائم رکھتی ہیں۔
وطن عزیز پاکستان میں بھی اعزازت کا سلسلہ موجود ہے، جو احترام و عزت کے لیے (پاکستان)،بہادری کے لیے (شجاعت)،امتیاز کے لیے(امتیاز)،اعزاز محمد علی جناح کے لیے(قائداعظم)،کسی قسم کی خدمت کے لیے (خدمت)، دیئے جاتے ہیں۔یہ شہری (civil) اعزازت چار درجات میں تقسیم ہیں،
اول درجہ "نشان" کو حاصل ہے،دوم "ہلال"،سوم "ستارہ"اورچہارم "تمغہ"
1.نشان پاکستان، نشان شجاعت، نشان امتیاز،نشان قائد اعظم، نشان خدمت.
2.ہلال پاکستان،ہلال شجاعت، ہلال امتیاز، ہلال قائد اعظم، ہلال خدمت.
3.ستارہ پاکستان، ستارہ شجاعت، ستارہ امتیاز، ستارہ قائد اعظم، ستارہ خدمت.
4.تمغہ پاکستان، تمغہ شجاعت، تمغہ امتیاز، تمغہ قائد اعظم، تمغہ خدمت.
یہاں ہم جس خاص اعزاز کا تذکرہ کریں گے
وہ ہے "نشان پاکستان":
یہ پاکستان کا سب سے بڑا شہری اعزاز ہے جو پاکستان یا پاکستانی قوم کی خدمت کے انعام میں دیا جاتا ہے۔اس کا اجراء 21 مارچ 1957ب ج ع میں کیا گیا تھا۔اور پہلی بار اس ایوارڈ سے ایرانی شاہ رضا شاہ پہلوی کو 1959ب ج ع میں نوازا گیا۔رضا شاہ پہلوی، جس نے ساری زندگی امریکی حق میں کردار ادا کیا. لیکن ایوارڈ سے نوازنے کی وجہ ریاست پاکستان کو سب سے پہلے قبول کرنا اور سب سے پہلے کسی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے پاکستان کا دورہ کرنا ہے اور یہ سب بھی رضا شاہ نے مغرب کے نمائندے کے طور پر کیا۔
دوسرا "نشان پاکستان" سب سے حیران کن شخصیت کو ملا۔کیونکہ وہ شخصیت اس ملک کی ملکہ ہے جس ملک سے پاکستان نے آزادی حاصل کی۔ملکہ الزبتھ کو ایوارڈ سے نوازنے کی اور کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟یہ ایوارڈ 1960ء میں دیا گیا۔تیسری بار 1961ب ج ع میں یہ ایوارڈ یوگوسلاویہ کے صدر جوزف بروز ٹیٹو کے حصے میں آیا، جیسا کہ ہم اپنے نظریے کا آج تک تعین نہیں کر پائے اسی طرح اعزازات کا بھی کوئی تعین نہیں.
پہلے دو ایوارڈ بادشاہت کے حامل ممالک کے نمائندوں کو دیئے گئے اور پھر جوزف کو جو کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھتا تھا. لیکن یہ کمیونسٹ ممبر جس نے بطور آرمی آفیسر جنگ عظیم اول و دوم لڑی ہیں، کچھ مفادات کی بناء پر سٹالن اور روس کے مخالف ہو گیا تھا،یہاں تک کے ماسکو نے جوزف کے نظریے کو ٹیٹوزم کا نام دے کر کمیونزم سے مختلف قرار دے دیا۔اب ہمارا ایسے کمیونسٹ کو اعزاز دینا، یقیناً ماسکو دشمنی کا اظہار تھا۔پھومیپھون ادونیادیت نامی شخصتھائی لینڈ کا سب سے طویل ترین مدت تک رہنے والا بادشاہ تھا، جس کو پاکستان نے 1962ب ج ع میں چوتھا اعزاز پاکستان دیا۔لیکن آج تک سمجھ سے بالا تر ہے کہ کیوں دیا؟ جب کہ اس کی اپنے ملک کے حوالے سے جو تاریخ ہے وہ ظلم سے بھرپور ہے۔چلیں یوں سمجھ لیں اس کا پاکستان کا دورہ تھا اور اس وقت کے فیلڈ مارشل نے دوسرے ملک کے فیلڈ مارشل کو اعزاز سے نواز دیا.
پانچویں مرتبہ یہ اعزاز امریکی صدر اور سابقہ امریکی جنرل ڈیوائٹ ڈی آئزن ہاور کو دیا گیا، یہ جنرل نیوکلیئر ہتھیاروں کے استعمال کا زبردست حامی تھا اور یاد رہے کہ یہ وہ دور تھا جب پاکستان مکمل طور پر برطانیہ سے نکل کر امریکہ کے زیر سایہ جا رہا تھا۔کیونکہ چھٹا 'نشان پاکستان' بھی مشہور زمانہ امریکی صدر رچرڈ نکسن کو 1969ب ج ع میں دیا گیا۔نکسن وہ پہلا اور واحد صدر ہے جو اپنے عہدے سے مستعفی ہوا ہے،اس کے پیچھے واٹر گیٹ سکینڈل جیسی چیزیں ہیں، نکسن نے جنگ ویتنام کو خوب بھڑکایا اور کمبوڈیا جیسے ممالک پر قبضہ جمایا۔نکسن وہی شخص ہے جس نے 1971 ب ج ع میں جماعت اسلامی کی البدر جیسی تنظیموں کی بنگلہ دیش میں قتل عام کرنے پر خوب حوصلہ افزائی کی تھی۔اس عمل میں نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ہنری کسنجر بھی پیش پیش تھا۔
ساتواں اعزاز 1983 ب ج ع میں نیپال کے بادشاہ بائندرا کو دیا گیا تھا، کوشش کی گئی کہ بھارت کے خلاف اپنا ایک مہرہ تیار کیا جائے، لیکن نیپال ہماری طرح دور پار کے بجائے پڑوسی ممالک سے تعلق کو مضبوط بنانے پر یقین رکھتا تھا۔آٹھواں اعزاز بھی 1983 ب ج ع میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے صدرسر سلطان محمد شاہ ( آغا خان سوم ) کے جانشین پرنس کریم (آغا خان چہارم) کو دیا گیا. آغا خان پاکستان میں سٹیٹ گیسٹ کی طور پر آتا ہے لیکن ان کی اپنی ساری زندگی برطانیہ و کینیڈا میں گزری ہے۔کچھ خبریں کسی حوالے سے ثابت کرنا مشکل ہوتی ہیں لیکن پھر بھی یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان میں اس امام کے پیروکاروں کی کافی زیادہ تعداد اس پہاڑی سلسلے پر بستی ہے جس کے نزدیک چائنا ہے، اور امام و پیروکاروں کا زیادہ تر جھکاؤ امریکہ کی جانب ہے۔ہو سکتا ہے مستقبل میں امریکہ کے کہنے پر کوئی طبقہ پھر پڑوس ملک کے لیے استعمال ہو۔
نواں نشان اعزاز بہت زیادہ حد تک حیران کن ثابت ہوگا کیونکہیہ اعزاز مسلم لیگی دو قومی نظریے کے سخت متضاد ثابت ہوگا۔یہ اعزاز پاکستان نے اپنے خود ساختہ ازلی دشمن بھارت کے چوتھے وزیر اعظم مورار جی ڈیسائی کو 1990ب ج ع میں دیا تھا۔یہ واحد وزیراعظم تھا جس کے پاس بیک وقت بھارتی اعلی ترین اعزاز،"بھارت رتن"اورپاکستانی اعلیٰ ترین اعزاز"نشان پاکستان" موجود تھا۔1971ب ج ع کی پاک بھارت جنگ کے بعد ایک طرف تو یہ افواہیں گردش میں تھیں کہ اگر پاکستان نے نیوکلیر بم چلایا تو بھارت پاکستان پر نیوکلیئر حملہ کر دے گا اور یہ دھمکی مورار جی ڈیسائی سے منسوب کی گئی تھیلیکن دوسری طرف یہ بات بھی مشہور ہوئی کہ 71 ب ج ع کی جنگ کے بعد دونوں ممالک میں امن کی کوشش مورارجی کی طرف سے کی گئی اور ضیاءالحق نے یہ اعزاز دینے کا فیصلہ کیا جو ان کے اپنے ہاتھوں سے تو نہیں لیکن بینظیر کے دور حکومت میں مورارجی ڈیسائی جن کی سیاسی پارٹی 'جنتا دل(dal)" تھی، ان کو نشان پاکستان سے نوازا گیا۔
دسواں اعزاز برونائی دارالسلام کے بادشاہ حسن البلقیہ کو 1992 ب ج ع میں دیا گیا۔جہاں تک اعزاز سے نوازنے کا تعلق ہے، اس کے علاوہ تو مجھے کوئی خاص وجہ نظر نہیں آئی، کہایک تو دونوں
'دولت مشترکہ'اور'او آئی سی' کے ممبرز ہیں۔دوسرا برونائی، پاکستانی دفاعی مصنوعات کا اچھا خریدار ہے
حسن البلقیہ کے حوالے سے ایک معلوماتی بات یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں الزبتھ کے بعد سب سے طویل بادشاہت بھی حسن البلقیہ کی ہی ہے۔
1992ب ج ع میں ہی گیارہواں اعزاز دنیا کے مشہور ترین سیاستدان اور جنوبی افریقہ کے پہلے جمہوری منتخب صدر نیلسن منڈیلا کو دیا گیا۔جس شخص کو نوبل ایوارڈ جیسا عالمی ایوارڈ مل جائے، اور وہ بھی سامراجی آقاؤں کی جانب سے تو اسے کسی اور ایوارڈ کی ضرورت نہیں رہتی، لیکن پھر بھی 'نشان پاکستان' سے منڈیلا کو محروم نہیں رکھا گیا۔یہ الگ بات ہے کہ غلط سمت میں کی جانے والی محنت کے نتیجہ میں افریقہ آج بھی انسانی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔چلیں کالے کو کالا شاید نہ کہا جاتا ہو لیکن کالے کے دن اور رات آج بھی کالے ہیں۔
یوں تو چین کو ہم نے سب سے پہلے قبول کیا، لیکن ان سے کچھ سیکھا نہیں، بس اپنی دوستی کو کتابوں یا نعروں کی حد تک شہد سے میٹھی، سمندر سے گہری اور ہمالیہ سے اونچی بناتے رہے، لیکن ایسا کوئی عمل جس سے ملک میں پائیدار بہتری لائی جاتی، ہم کوسوں دور رہے. لیکن 1999 ب ج ع میں ہمیں خیال آیا کہ جہاں پوری دنیا کو نشان پاکستان بانٹا ہے تو چلو پڑوسی دوست کو بھی دے ہی دینا چاہئیے۔بارہواں ایوارڈ کے لیے چین کے انقلاب میں حصہ لینے والے اور چین کے چوتھے وزیراعظم لی پنگ کا انتخاب کیا گیا۔
تیرواں نشان پاکستان ایوارڈ قطر کےامیرحمدبن خلیفہ آل ثانی کو دیا گیا،اپریل 1999 ب ج ع میں جب یہ ایوارڈ دیا گیا تو برسراقتدرا مسلم لیگ تھی، آف شورز کمپنیز سے اس کا کتنا تعلق ہے مجھے علم نہیں ویسے آج کل تو دوست قطری خطوط سے اچھی طرح واقف ہیں۔
2001 ب ج ع میں چودھویں بار نشان پاکستان کے لیے اومان کے سلطانقابوس بن سعید کا انتخاب کیا گیا۔اس سلطان نے اپنے والد کے خلاف ایک بغاوت کی جس میں تاج برطانیہ نے مکمل علی الاعلان قابوس کا تعاون کیا اور حکومت کا تختہ پلٹ دیا. اس وقت جنوبی یمن سے قابوس کے خلاف ایک مزاحمتی تحریک چلی تھی اور حیران کن بات یہ کہ اس تحریک کو ختم کرنے میں ایران نے اومان کا ساتھ دیا کیونکہ اس وقت ایران کا بادشاہ رضا شاہ پہلوی تھا جو سامراجیت کے حق میں کردار ادا کرتا تھا. خیر ان دونوں شخصیات کو پاکستان نے نشان پاکستان سے نوازا.
پندرھواں اعزاز نشان پاکستان سعودیہ کے بادشاہ عبد ﷲ کو 2006 ب ج ع میں دیا گیا، سعودیہ سے پاکستان کے برادرانہ تعلقات ہیں لیکن یہ اب تک کا پہلا ایوارڈ تھا جو کسی سعودی بادشاہ کو دیا گیا. عبداﷲ کم عمری سے ہی سیاسی امور میں دلچسپی لیتا تھا اور ان سعودی بھائیوں کی اقتدار کے لیے آپسی کشمکش سے کون واقف نہیں۔عبد ﷲ کو رومن کیتھولک کی جانب سے آرڈر آف دی گولڈن فلیس بھی دیا گیا جس پر عالمی دنیا میں کافی بحث ہوئی۔عبد ﷲ کے دور میں امریکہ اور سعودیہ کے تعلقات کو کافی تقویت ملی۔عراق اور لیبیا کی جنگ کو طوالت دینے میں کردار ادا کیا.
2006 ب ج ع میں پہلی بارچینی صدر ہو جن تاوؤ کو نشان پاکستان سے نوازا گیا.ہو جن تاو نے 2002 ب ج ع سے 2012 ب ج ع تک چین کو اس مقام پر پہنچانے میں اہم بنیادی کردار ادا کیا،پیراماونٹ لیڈرز میں اپنی جگہ بنائی.چین کی معیشت جتنا ان دس سالوں میں مضبوط ہوئی ماضی میں کبھی نہیں ہوئی.لیکن ہم نے اس نے کچھ سیکھنے کی بجائے حسب معمول دوستی کی خاطر ایوارڈ تھمایا، کچھ پروجیکٹس پر دستخط کروائے اور بس۔
2015 ب ج ع میں چین کے موجودہصدر زی جن پنگ کو اعزاز نشان پاکستان سے نوازا گیا ۔لگاتار دوسری بار چین کی شخصیات کو نشان پاکستان سونپا گیا جو اس بات کو بخوبی ظاہر کرتا ہے کہ ریجنل تعلقات کی جانب پاکستان تیزی سے بڑھنا چاہتا ہے۔لیکن ہم نے زی جن پنگ سے کیا سیکھا یہ چینی تاریخ کا ایسا صدر ہے جس کی اجتماعی و انفرادی زندگی کا ہر پہلو سیکھنے کے لائق ہے. زی جن پنگ کے سیاسی افکار کو چین کی کمیونسٹ پارٹی نے نا صرف پارٹی بلکہ ملک کے آئین میں شامل کیا. لیکن ہمارے لیے بے سود، ہم نے کچھ نہ سیکھا اس سے، بس امداد پر نظر رکھی، اور اسکا بے جا اسراف کیا.
2018 ب ج ع میں ایک اور سوشلسٹ انقلابی لیڈر فیڈل کاسترو کو نشان پاکستان دیا گیا. یہ کیوبا کے صدر اور وزیراعظم رہ چکے ہیں. لیکن یہ نشان پاکستان ان کی وفات کے بعد دیا گیا جو ان کے بیٹے نے وصول کیا. سابقہ صدر و ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کاسترو کی دوستی کافی گہری تھی جس پر امریکی تھنک ٹینکس مختلف خبر رساں اداروں کے ذریعے باتیں بھی کرتے رہے ہیں.
2019 ب ج ع میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو نشان پاکستان سے نوازا گیا
وہ مختلف ممالک کے دوروں پر تھے جس میں پاکستان شامل تھا۔یہاں انہوں نے تجارتی معاہدات کئے، پاکستان کے لیے اپنے برادرانہ جذبات کا اظہار کیا. محمد بن سلمان کے حوالے سے یہ بات مشہور ہے کہ وہ سعودی عرب کو جدید خطوط پر استوار کرنا چاہتے ہیں لیکن حیرانگی ہے کہ جدت کے تصور کو انہوں نےسنیما، کلبز، کنسرٹس اور اسی نوعیت کی بے مقصد عیاشی کا جامہ پہنا دیا ہے. ایسے حالات میں کہ جب سعودیہ کی بادشاہت کو خطرات لاحق ہیں کہیں یہ ولی عہد بادشاہی نظام میں آخری کیل نہ ثابت ہو جائے۔2019 ب ج ع میں ہی ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کو پاکستان آمد پر نشان پاکستان دیا گیا، پاکستان اور ملائشیا کے تعلق بہت مضبوط رہے ہیں اور ہیں۔دونوں ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام ہے اور یکساں نتیجہ دے رہا ہے. دونوں ممالک کی ایک دوسرے کے لیے کیا خدمات ہیں یہ سمجھ سے بالا تر ہے۔اگر کرپشن ختم کرنے کی بات کی جائے تو وہ بھی مہاتیر محمد نے ملائشیا میں کی تھی نہ کہ پاکستان میں. پاکستان میں اس سے سیکھنے والے بالکل مختلف سمت پر گامزن ہیں۔
2019 ب ج ع میں ایک بار پھر چین کے نائب صدر وانگ کیشان کو نشان پاکستان سے نواز کر پاک چین دوستی کی کتاب پر ایک اعزاز اور ثبت کر دیا۔لیکن سن 2000 ب ج ع کے بعد زیادہ تر اعزاز ریجنل ممالک کے افراد کو دیئے گئے جو وطن کی نئی سمت کا تعین کر رہا ہے۔2019 ب ج ع میں ہی امیر قطر تمیم بن حمد آل ثانی کو نشان پاکستان دیا گیا۔ویسے تو یہ اعزاز پاکستان یا پاکستانی قوم کے مفاد میں کئے گئے کسی بھی کام کے اوپر دیا جاتا ہے لیکن اس بار لگ رہا تھا کہ اعزاز پہلے دیا گیا ہے اور کام بعد میں لیا جائے گا۔
نشان پاکستان کے حوالے سے 2019 ب ج ع خاصا مہنگا رہا کیونکہ ملکی تاریخ میں پہلی بار 4 مہینوں میں 4 اعزاز دیئے گئے، یہ اور بات ہے کہ نئی حکومت کو امداد و قرضہ جات کی بھی اشد ضرورت تھی.