شاہ ولی اللہ کی بصیرت پر ایک نظر
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تعلیمات کی روشنی میں آج کےدور کی ضرورت کی سمجھ پیدا کرنے کے لئے لکھی گئی تحریر
شاہ ولی اللہ کی بصیرت پر ایک نظر
تحریر: محمد رضوان آزاد
حضرت شاہ ولی اللہؒ کی پیدائش اس دور میں ہوئی، جب برصغیر پوری دنیا میں سونے کی چڑیا کے نام سے مشہور تھا۔ اس شہرت کا سبب یہاں کا انصاف پر مبنی نظام تھا-یہاں فرقہ وارانہ سوچ نہیں تھی۔ مسلمانوں نے جتنا عرصہ بھی اس خطے پر حکمرانی کی، وہ اس خطے کو اپنا وطن بنا کر یہیں کے ہوکر رہ گئے تھے، جب کہ دوسری طرف ڈارک ایج میں رہنے والے یورپین اس خطے پر اپنے پنجے گاڑنے اور یہاں کی دولت کو لوٹنے کے لیے یہاں کے حکمرانوں کی خوشامد میں مصروف رہے اور یہاں کاروبار کرنے کے لیے اپنی خواہش کا اِظہار کرتے رہے۔
آغاز میں تو ان کو ایسی کوئی اجازت نہ ملی-بالآخر ایسٹ انڈیا کمپنی اجازت لینےمیں میں کامیاب ہوجاتی ہےلیکن اس نے یہاں کیے جانے والے ہر معاہدے کو توڑا اور لوٹ مار کابازار گرم کیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اپنی بصیرت سے آنے والے حالات کو دیکھ رہے تھے،آپ نے ہندوستان کو پیش آمدہ گرداب سے بچانے کے لیے علمی اور عملی کام کا آغاز کیا۔
حضرت شاہ صاحبؒ کی تحریک اس خطے میں بسنے والے تمام لوگوں کے لیے تھی۔ یہی وَجہ ہے کہ آج بھی ہر مکتبہ فکر ان کی تعلیمات کو قبول کرتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب ؒ چاہتے تھے کہ ہندوستان کی عوام امن کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں،ان کو کسی قسم کی معاشی تنگی میں مبتلا نہ کیا جائے۔ شاہ صاحب جدید نظام حکومت کانفاذبھی اس خطے میں چاہتے تھے-اس بات کی تشریح مولانا عبیداللہ سندھیؒ ایسے کرتے ہیں کہ شاہ صاحبؒ اس دور کے تقاضے کو سمجھ چکے تھےکہ آنے والا دورشہنشایت کا نہیں ہے، بلکہ جدید طرزحکمرانی کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے، جس میں وہ امام الحق (پارلیمنٹ) کا تصور پیش کرتے ہیں، جس میں ہر شعبہ کے ماہرین اجتماعی فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ شاہ صاحبؒ اس وقت ایک ایسی تشریح پیش کرتے ہیں جو کل انسانیت کے لیے باعث راہ نمائی ثابت ہوئی ، ہندوستان میں اس وقت مرکزی حکومت مسلمانوں کی تھی، اس لیے ان کے مخاطبین مسلمان تھے، لیکن یہ آنے والی تمام انسانیت کے لیے راہ نمائی تھی کہ جب بھی دور کا تقاضا تبدیل ہوتا ہے تو اسلام ایک عالمی نظریہ کے حامل اس کا حل پیش کرتا ہے، حضرت شاہ صاحب ؒنے بنیادی انسانی حقوق کے پیش نظر چار اصول بتائے۔
اول: خدا پرستی
دوم: عدل و انصاف
سوم: صحت و صفائی
چہارم: تربیت نفس
ہندوستان کا خطہ ایک کثیرالمذاہب خطہ تھا، اس لیے شاہ صاحبؒ کے مطابق تمام مذاہب کے طریقے الگ الگ ہیں، لیکن درج بالا چار اصولوں کے مطابق ہر مذہب انسانیت کی راہ نمائی کرسکتا ہے اور یہ تمام آفاقی اصول ہیں جو ہر مذہب کے ماننے والےان کو اپنا کر اپنے ماننے والوں کو بہترین ماحول مہیا کرسکتے ہیں ۔
حضرت شاہ صاحبؒ کی سیاسی بصیرت کی عمدہ مثال یہی ہے کہ انھوں نے اس دور میں شہنشاہیت کی وَجہ سے پیدا ہونے والے فاسد نتائج کے بارے میں قوم کو تفصیلاً روشناس کیا۔ آپؒ نے توجہ دِلائی کہ رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں قیصر و کسریٰ نے تمام دنیا کو اپنی بادشاہت کی بنیاد پر تنزلی کا شکار کیا ہوا تھا، تب رحمت خداوندی کا نزول آپ ﷺ کی صورت میں ہوا، اور تمام انسانیت کو ایک ہمہ گیر اَمن کے نظام کے تابع کیا، اسی طرح آج (برصغیر)کے حکمرانوں کے پاس بھی ان اجتماعی بیماریوں کا کوئی حل موجود نہیں ہے تو ان پر بھی زوال آئےگا جو اس دور کا خاتمہ اور نئے دور کا آغاز کرے گا، اس کا ثبوت اس دور میں واضح بھی ہوگیا تھا کہ مرہٹوں اور سکھوں نے اپنی اپنی چھوٹی ریاستوں کا اعلان کر دیا تھا وہ مرکزی حکومت سے کنارہ کشی اختیار کرچکے تھے۔ گویا وہ خود کو مرکز سے کاٹ کر علاحدہ نظام کے حامی تھے، جب کہ شاہ صاحب ؒ اجتماعی اصولوں پر مسائل حل کرنے کے قائل تھے۔
حضرت شاہ ولی اللہ جس نظام کی دعوت دے رہے تھے وہ کسی مخصوص فرقہ کے لیے نہیں تھا، بلکہ کل انسانیت کی بقا اس سے وابستہ تھی، آپ نے قرآن کا ترجمہ اس دور کی زبان فارسی میں پیش کیا، تاکہ ہر مسلمان اس سے راہ نمائی لے سکے پھر قرآن کی تشریح کے مطابق آنے والے دور کے حالات و واقعات کی ترجمانی کی۔
حضرت شاہ صاحب نے ایک ایسی تحریک کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد اس وقت بھی کل انسانیت کی بقا تھا اور لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق مہیا کرنا،امن و امان اور انصاف کا ماحول پیدا کرنا تھا۔ آج بھی ضرورت انھی تعلیمات کی ہے، تا کہ ہم آنے والے وقت کو بہتر بناسکیں اور آنے والی نسلوں کی قرآنی اصولوں پر تربیت کرسکیں۔ حضرت شاہ صاحب نے بہت سی کتابیں جن میں فتح الرحمن" جوکہ قرآن پاک کا فارسی ترجمہ ہے"الفوزالکبیر" جس کا بنیادی مقصد اصول تفسیر کو واضح کرنا ہے"فتح الخیبر " قرآن پاک کے مشکل الفاظ کے معانی پر مشتمل ہے "حجۃ اللہ البالغہ" اسرار دین پر معرکۃ الآرا تصنیف ہے، جس میں انسان کی تمدنی، دینی اور سیاسی زندگی پر سیر حاصل تفصیل بیان کی گئی ہے اور حضرت شاہ ولی اللہ کی فکر کو سمجھنے کے لیے بہت اہم کتاب ہے، "خیر کثیر " تصوف پر لکھی کتاب ہے اور "فیوض الحرمین" قیام حجاز کے دوران پیش آنے والے روحانی تاثرات بیان کیے گئے ہیں۔ گویا آپ نے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اپنا موضوع بحث بنایا، اور آپ کی ہر تصنیف پر بہت سی تشریحات اور تفصیلات بیان کی جاسکتی ہیں۔ بہرکیف ان کے علاوہ بھی حضرت شاہ ولی اللہ نے بہت سی تصانیف لکھیں ہیں، جن کو سمجھنے کے لیے ان کی تحریک کے علم بردار مولانا عبیداللہ سندھیؒ کے علوم اور پھر خانقاہ رائے پور کے علما و مشائخ کی صحبت اختیار کرنےسے ہی ہم حضرت شاہ ولی اللہ کی فکر کی سمجھ پیدا کر سکیں گے اور کل انسانیت کے فلاح کے لیے کام کرسکیں گے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے انسانی تمدنی ترقی کے جو اصول واضح کیے اور ارتفاقات معاشیہ اور ارتفاقات الہیہ کا جس طرح تجزیہ کیا، اس سے ان کی فکر کی بلندیوں کا پتا چلتا ہے۔ اللہ پاک ان کے درجات عالیہ کو بلند کرے آمین!