حضرت مولانا محمد عظیم شیدا ؒ (امام عبیداللہ سندھیؒ کے ایک گمنام شاگرد کی داستانِ حیات)
حضرت مولانا محمد عظیم شیدا ؒ (امام عبیداللہ سندھیؒ کے ایک گمنام شاگرد کی داستانِ حیات)

حضرت مولانا محمد عظیم شیدا ؒ
(امام عبیداللہ سندھیؒ کے ایک گمنام شاگرد کی داستانِ حیات)
تحریر: وسیم اعجاز (کراچی)
امامِ
انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے شاگردوں میں ایک نام حضرت مولانا محمد عظیم
شیدا سولنگیؒ کا بھی ملتا ہے۔ آپؒ کی ولادت 1870ء میں گاؤں گل برڑو، تعلقہ وارہ
( ضلع قمبر شہدادکوٹ) ہوئی۔ والدِ گرامی کا نام فقیر لعل بخش سولنگی تھا۔ سندھی
اور فارسی کی ابتدائی تعلیم اپنے بڑے بھائی اخوند فقیر محمد سولنگی ؒسے حاصل کی۔
بعدازاں گاؤں کے قریب مولانا عبدالعزیز خارانیؒ کے مدرسے میں داخل ہوئے، جہاں
ابتدائی عربی تعلیم حاصل کی۔ پھر شکارپور میں مولانا عبدالغفور ہمایونیؒ اور علامہ
سیّد محسن شاہؒ سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جیکب آباد کے مشہور عالم مولانا
خادم حسین جتوئیؒ کے پاس 4 سال تک زیرِ تعلیم رہ کر تعلیم سے فراغت حاصل کی۔
یہ وہ
دور تھا جب سندھ میں پیر جھنڈا میں دارالرشاد مدرسہ نے اپنی تعلیمی کارکردگی کی بنیاد
پر ایک خاص مقام حاصل کرلیا تھا۔ مولانا موصوفؒ نے دارالرشاد پیر جھنڈا میں داخلہ
لیا، جہاں امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی شاگردی اختیار کی اور قرآنِ حکیم
کے تفسیری اسلوب میں مہارت حاصل کی۔ حضرت سندھیؒ کی صحبت اختیار کرنے کے نتیجے میں
ان کی سوچ اور مزاج پر گہرا اثر رہا۔ حضرت سندھیؒ کے گرویدہ ہوگئے اور قومی سوچ
اور فکر کی ترویج میں ان کے ساتھ کردار ادا کیا۔
1915ء
میں جب حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ اپنے شیخ، حضرت شیخ الہند ؒ کے حکم سے
افغانستان ہجرت کر رہے تھے تو حضرت شیداؒ بھی ان کے ساتھ ہی روانہ ہوئے تھے، لیکن
سِبی پہنچ کر مولانا سندھیؒ نے ان سے فرمایا کہ آپ واپس جاکر تعلیمی سرگرمیوں میں
مصروف ہوں۔ امامِ انقلابؒ کے حسبِ ارشاد آپؒ واپس آ گئے اور تعلیمی جدوجہد میں
لگ گئے۔ اپنے گاؤں سے ہجرت کرکے’’ نصیرآباد‘‘ کے قریب گاؤں ’’خداداد خان
پٹھان‘‘ میں آباد ہوئے۔ اس کے بعد’ وگن‘، ’یاری دیرو‘ اوربالآخر 1953ء میں نصیرآباد
میں مستقل سکونت اختیار فرمائی، جہاں دینی تعلیم کے لیے مدرسہ قائم کیا اور ایک بڑی
’اُوطاق‘ تعمیر کی، جو مہمان نوازی کا مرکز بنی۔ ان کا مدرسہ ہمیشہ طلبا سے اور
اُوطاق مہمانوں سے بھری رہتی تھی۔
تعلیم
کے میدان میں حضرت شیداؒنے غریب بچوں کے لیے قیام، خوراک اور تعلیم کا بندوبست کیا
اور اپنے علاقے میں کئی مدارس قائم کیے۔ ان میں خداداد خان پٹھان، مائی شاہل، وگن
اور یارو دیرو کے مدارس خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ان مدارس میں غریب اور پس ماندہ
علاقوں کے بچوں کو دینی و دنیوی تعلیم دی جاتی تھی۔
تحریکِ
خلافت اس وقت کی اہم تحریکات میں سے ایک تھی۔ اس تحریک میں بھی مولانا موصوفؒ نے
بھرپور حصہ لیا اور سندھ بھر میں سرگرم کردار ادا کیا۔ 1920ء میں جب جمعیت علمائے
ہند کی بنیاد رکھی گئی تو سندھ میں لاڑکانہ شاخ کے صدر کے طور پر نامزد کیے گئے۔
جمعیت علما میں سندھ بھر کے علما سے رابطوں کا ایک مربوط نظام بنانے میں اہم کردار
ادا کیا۔ اسی بنا پر جمعیت علمائے ہند کی مرکزی کمیٹی کے ممبر کے طور پر بھی کام کیا۔
جب
مولوی محمد عظیم شیداؒ پہلی بار حج کے لیے گئے، اس وقت ہندوستان میں طاعون اور ہیضہ
جیسی وبائیں پھیلی ہوئی تھیں، جن سے لاکھوں افراد جاں بحق ہو چکے تھے۔ جب وہ اپنے
قافلے کے ساتھ مکہ مکرمہ پہنچے تو وہاں کے حاکم شریف حسین نے حکم جاری کیا کہ
’’ہندوستان سے آئے حجاج‘ حرم شریف میں صرف ایک دن قیام کریں اور پھر روانہ ہوجائیں،
کیوں کہ ان سے بیماری پھیلنے کا خدشہ ہے‘‘۔ شیدا صاحبؒ نے اس حکم کے خلاف فتویٰ
جاری کیا۔ آپؒ کے خلاف وارنٹ جاری ہوا، لیکن حکومتِ وقت کو حضرت شیداؒ نے مکمل دلائل
سے قائل کیا۔ ان کے دلائل اور دلیری سے مجبور ہو کر حکومت کو نہ صرف وہ فیصلہ واپس
لینا پڑا، بلکہ مولانا موصوفؒ کو شاہی مہمان کا درجہ دیا گیا۔
1924ء
میں جب سندھ ہاری تحریک کی بنیاد رکھی گئی تو آپؒ اس سندھ ہاری کمیٹی میں شامل
ہوئے۔ 1937ء میں سندھ میں پہلی بار انتخابات کے بعد تعلیم کا محکمہ قائم ہوا اور جی
ایم سیّد اور پیر الٰہی بخش نے وزارتِ تعلیم سنبھالی۔ اس وقت انگریزی کو سکولوں میں
متعارف کرایا گیا۔ حضرت شیدا ؒ اُن اوّلین علما میں شامل تھے، جنھوں نے دونوں وزرا
کو خط لکھ کر پیش کش کی کہ ان کے مدارس میں بھی انگریزی پڑھائی جائے۔ خواتین اور
بچوں کی تعلیم کے حق میں تھے اور جہاں بھی موقع ملتا‘ اپنے اس مؤقف پر ضرور بات
کرتے تھے۔شیدا صاحبؒ کو عربی و فارسی زبان کے مختلف لہجوں پر بھی مکمل عبور حاصل
تھا۔ ایران، عراق، یمن، شام اور مصر کے سفر بھی کیے۔ فارسی بولنے والوں کے لہجے سے
ان کے علاقے کا اندازہ لگا لیتے تھے۔ انھیں شاعری سے خاص شغف تھا۔ شیداؔ تخلص کرتے
تھے۔ فقیر ہدایت اللہ تارک نجفی اور دادن فقیر جویو جیسے شعرا اِن کے مستقل مہمان
ہوتے تھے۔ ان کے قریبی احباب اور صحبت دار علما میں حضرت مولانا غلام مصطفی قاسمیؒ،
حضرت مولانا عبدالکریمؒ بیر شریف والے، مولانا محمد قاسم مشوریؒ، ڈاکٹر نبی بخش
خان بلوچؒ، پیر نجیع اللہ شاہ راشدیؒ وغیرہ شامل تھے۔ حضرت سندھیؒ کے دیگر شاگردوں
میں سے حکیم فتح محمد سیوہانیؒ اور مولانا دین محمد وفائیؒ سے محبت و دوستی کا
تعلق تا عمر قائم رہا۔
انھوں
نے جوانی میں ہی پیغمبرِ اسلام ﷺ کی سیرت پر سندھی زبان میں ’’سیرتِ مصطفی‘‘ کے
نام سے کتاب لکھی۔ 1980ء میں اس کتاب پر صدارتی ایوارڈ اور دس ہزار روپے انعام
ملا۔ یہ کتاب سندھی ادبی بورڈ نے تین مرتبہ شائع کی۔ ان کے بیٹے معروف وکیل منصور
الحق سولنگی کی کوششوں سے 2013ء میں ڈاکٹر حبیب اللہ صدیقی نے اس کا انگریزی ترجمہ
کیا۔ اس کے اُردو اور فارسی ترجمے پر کام جاری ہے۔
یہ عظیم
عالم، استاد، ادیب، رہنما، حکیم، شاعر اور مفسر 1988ء میں وفات پا گئے۔ ان کا مزار
جامع مسجد صدیقیہ نصیرآباد میں واقع ہے۔
(اس
سوانحی مضمون کوہم مولاناؒ کے صاحب زادے محترم منصورالحق سولنگی ایڈووکیٹ کے تعاون
سے مکمل کر پائے۔ اس کے لیے ہم پر ان کا شکریہ واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر
سے نوازے۔)
حوالہ: ماہنامہ مجلہ رحیمیہ، لاہور۔ جون 2025ء