حضرت مصعب بن عمیرؓ ؛ قربانی کی ایک درخشندہ مثال
کسی بھی سماجی تحریک کی کامیابی کا انحصار دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ اس کے کارکنان کی نظریاتی پختگی اور نظریہ کی خاطر قربانی کے جذبہ پر منحصر ہے
حضرت مصعب بن عمیرؓ ؛ قربانی کی ایک درخشندہ مثال
تحریر: منیب ظفر ستی۔ کہوٹہ
کسی بھی سماجی تحریک کی کامیابی کا انحصار دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ اس کے کارکنان کی نظریاتی پختگی اور نظریہ کی خاطر قربانی کے جذبہ پر منحصر ہے۔تاریخِ انسانی کی وہ تمام تحریکات جنھیں ایسے جان نثار افراد کی اجتماعی قوت میسر آئی، جنھوں نے اپنے نظریے کو عملی شکل دینے کے لیے کسی بھی قسم کی جانی و مالی قربانی دینے سے دریغ نہ کیا، ہمیشہ لازوال کامیابیوں سے ہمکنار ہوئیں۔اگر اس پہلو سے نبی آخر الزماں ﷺ کی انقلابی تحریک کا جائزہ لیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس تحریک کی کامیابی میں ایک بہت بڑا کردار اس عظیم الشان اجتماعیت کا تھا جو صحابہ کرامؓ کی صورت میں آقائے نامدار ﷺ کو میسر آئی-انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد ایسے روشن ستارے نہ تو ان سے پہلے اور نہ ہی ان کے بعد انسانی تاریخ کے اُفق پر کبھی نمودار ہوں گے۔انسانیت کے ان محسنوں نے تاریخ کے اوراق پر اعلیٰ مقاصد کے حصول کی خاطر قربانی کے ایسے گہرے نقوش چھوڑے ہیں، جنھیں زمانے کی گرد کبھی بھی دھندلا نہ سکے گی اور یہ نقوش ہر دور کے پرستاران ِحق کے لئے مشعل ِراہ کا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
رشدوہدایت کے ان ستاروں میں سے ایک حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔ آپ قریش کے ایک نہایت ہی مال دار گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔حضرت مصعبؓ انتہائی قیمتی لباس زیب تن کرتے جو خصوصی طور پر شام سے تیار ہو کر آتا اور آپ کا جوتا یمن سے بن کر آیا کرتا تھا۔آپ ایسی قیمتی خوشبو کا استعمال کرتے جو بڑے اُمرا خصوصی مواقع پر استعمال کیا کرتے اور جہاں کہیں سے آپ گزر جاتے وہاں لوگ خوشبو سونگھ کر بتا دیتے کہ یہاں سے مصعب بن عمیرؓ کا گزر ہوا ہے۔الغرض اپنےحسن و جمال، نفاست اور زندگی کی ان تمام تعیشات کے ساتھ آپ ایک ایسی بہترین زندگی گزار رہے تھے، جس کا تصور آپؓ کی عمر کا کوئی بھی نوجوان کرسکتا تھا۔آسودگی کے اس ماحول میں پلنے والے اس نوجوان کی زندگی میں ایک انقلابی موڑ اس صدائے حق نے پیدا کیا، جس کی باز گشت اَب مکہ کے ہر گھر اور ہر مجلس میں سنی جا سکتی تھی۔یہ صدا اللہ کے اس پیارے رسولﷺ کی تھی جو لوگوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں لانے کے لئے مبعوث ہوا تھا،جب یہ آواز حضرت مصعبؓ کے کانوں میں پڑی تو آپ کاروانِ نبوت میں شامل ہونے کے لیے دربار رِسالت میں پیش ہو گئے، اور نبی محترمﷺ کے دستِ مبارک پر دین اسلام قبول کرلیا،دینِ اسلام کے یہ ابتدائی اور مشکل ایام تھے۔ لہٰذا آپ نے اپنے دین کو مخفی ہی رکھا۔آپ ہر رات آنحضرتﷺ کی صحبت سے فیض یاب ہونے کے لیے دارارقم تشریف لے جاتے،جس کے نتیجے میں دین محمدی کی گہری بصیرت آپ کو حاصل ہو گئی۔یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا یہاں تک کے آپ کے اسلام قبول کرنے کی خبر آپ کی ماں کو ہو گئی اور وہی لاڈلہ جس کے جسم پر کبھی ریشم کا نرم لباس ہوا کرتا تھا، اسے زنجیروں میں جکڑ دیا گیا اور دوبارہ اپنے قدیم مذہب کوقبول کرنے پر مجبور کیا جانے لگا،لیکن نور ِنبوت سے جب کسی انسان کا قلب روشن ہو جائے، اس کے بعد ماضی کی تاریکیوں میں واپسی بھلا کیسے ممکن ہوسکتی ہے۔
حبشہ کی طرف جب ہجرت کاحکم ہوا تو آپ نے قید سے فرار ہو کر حبشہ کی جانب ہجرت کا فیصلہ کیا،چوں کہ بڑے نازوں سے پلے بڑھے تھے، لہٰذا کٹھن سفر کے دوران آپ کے پاؤں لہو لہان ہوگئے۔کچھ عرصہ حبشہ میں قیام کے بعد مکہ میں حالات کے بہتر ہونے کی خبر پاکر آپ واپس مکہ تشریف لے آئے۔جب آپ کی ماں نے دوبارہ قید کرنے کی دھمکی دی تو فرمایا کہ خدا کی قسم میں ان سب کو قتل کر ڈالوں گا جو مجھے گرفتار کرنے میں آپ کی مدد کریں گے اور دوبارہ بھاگ جاؤں گا۔اپنے بیٹے کے اس عزم کے آگے بالآخر ماں کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور یہ کہہ کرآپ کو اپنے گھر سے نکال دیا کہ یہاں سے چلے جاؤ اور آج کے بعد میں تمھاری ماں نہیں ہوں۔اس کے ساتھ ہی آپ کو ان تمام دنیاوی آسائشوں سے بھی محروم کر دیا گیا جو خاندان کا چشم و چراغ ہونے کی وَجہ سے آپ کو میسر تھیں۔کسی وقت میں ہر طرح کی دنیاوی شان و شوکت رکھنے والے اس نوجوان پر غربت کے ایسے دن بھی آئے جب ایک دن روٹی میسر آتی اور ایک دن بھوکا رہنا پڑتا، لیکن یہ کٹھن حالات عزم و ہمت کے اس پہاڑ کو ایک لمحے کے لئے بھی اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ ہٹا سکے۔ایک مرتبہ آپ صحابہؓ کی ایک مجلس میں تشریف لے گئے، جہاں رسول خدا ﷺ بھی موجود تھے۔ اس حالت میں کہ آپ کے جسم پر ایک چادر تھی، جس پر مختلف جگہ پر کپڑے کی جگہ چمڑے کے پیوند لگے ہوئے تھے۔ان کی اس حالت کو دیکھ کر اصحاب رسول ﷺ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے ساتھی کی طرف شفقت بھری نگاہوں سے دیکھا اور فرمایا: ’’میں نے مصعب کو اسلام لانے سے پہلے بھی دیکھا ہے،پورے مکہ میں اس سے زیادہ والدین کا لاڈلا کوئی نہ تھا۔ساری سہولتیں اور آسائشیں اس کو میسر تھیں، مگر اس نے یہ ساری نعمتیں اللہ اور اس کے رسول کے لیے قربان کر دی ہیں‘‘۔اسی طرح کی قربانیاں پیش کرنے پر ہی اللہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں قرآن میں فرمایا:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ۔(البقرۃ :207)
(اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی جانیں بیچ دیتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔)
حضرت مصعبؓ کو خدا نے قرآنی تعلیمات پر ایسی گہری بصیرت عطا فرمائی کہ دیگر جلیل القدر صحابہ کی موجودگی کے باوجود آنحضرت ﷺ نے حضرت مصعبؓ کے ذمے اہم ترین ذمہ داری لگائی۔رسول اللہ ﷺ نے آپ کو مدینہ کی طرف اپنا سفیر اور داعی بناکر بھیجا۔یوں آپ کو اسلام کے پہلے سفیر اور مدینہ کے پہلے مبلغ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔آپ کی اپنے نظریہ پر ایسی گرفت تھی اور ایسا اسلوب دعوت تھا کہ پہلے ہی سال 75 لوگوں نے آپ کے دست مبارک پر اسلام قبول کر لیا۔یوں مدینہ میں اپنے دین کی تحریک کے لیے ایک سازگار ماحول بنا دیا اور رسول اللہﷺ کی ہجرت مدینہ کے لیے راہ ہموار فرمائی۔
آپ نے غزوہِ بدر و اُحد میں شرکت کی اور غزوہ احد میں اسلام کا علم تھامنے کا شرف آپ کو حاصل ہوا۔دینی نسبت آپ پر اس قدر غالب تھی کہ بدر کے قیدیوں میں آپ کا بھائی بھی مسلمانوں کے ہاتھ آگیا،جب حضرت مصعبؓ نے اپنے بھائی کو دیکھا تو فرمایا ”اس کی رسی مضبوطی سے باندھو اس کی ماں بہت مال دار ہے بھاری معاوضہ ملے گا“۔اسلام کے پہلے سفیر اور اہل مدینہ کے اس امام نے میدانِ اُحد میں بے مثال جرات و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔جب رسول اللہﷺ کی نظر مبارک اپنے اس جانثار ساتھی پر پڑی تو آپﷺ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ ۔(الاحزاب:23)
”مؤمنوں میں کچھ ایسے مرد ہیں، جنھوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا، اسے سچ کر دکھایا“۔
جب آپ کو دفنانے کا موقع آیا تو صرف ایک چادر ہی میسر آئی جسے اگر سر کی طرف ڈالا جاتا تو پاؤں ننگے ہوجاتے اور اگر پاؤں ڈھانپتے تو سر ننگا ہوجاتا،آپﷺ نے فرمایا کہ چادر سر کی طرف رکھ دو اور پاؤں پر گھاس ڈال دو، یہ ہے داستاں ایک ایسے نوجوان کی جس نے اپنے مشن کی راہ میں اپنے مال اپنے پیاروں اور سب سے بڑھ کر اپنی جان تک قربانی کر ڈالی، مگر اپنے نظریہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹا۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسی جماعت یقیناً دوبارہ کبھی پیدا نہیں ہوسکتی، لیکن حق کا معیار رسول اللہﷺ کی یہی عظیم الشان جماعت ہے اور اسی کسوٹی پر ہر دور کی جماعتوں کو پرکھا جائے گا۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حضرت مصعب بن عمیرؓ اور ان جیسے دیگر اصحاب کی قربانیوں کو سامنے رکھ کر اپنے کردار کا جائزہ لیں۔کسی فکر کو محض قبول کر لینا اور دل میں اچھا جاننا ہی کافی نہیں، بلکہ اس فکر کو سوسائٹی میں غالب کرنے کے لئے عملی کردار بھی ادا کرنا ضروری ہے۔زندگی کے مقصد اور زندگی کی ضرورتوں میں سے انتخاب کے لیے ہمارے لیے مشعل راہِ حضرت مصعب بن عمیرؓکا اُسوہ ہے۔ظلم کی ان تاریک راتوں میں وہ چراغ جو ہم اپنی قربانی سے جلائیں گے یہی چراغ طلوعِ سحر کا ذریعہ بنیں گے۔









