مسیح الملک حکیم حافظ اجمل خاںؒ (حیات و خدمات)
تحریک شیخ الہندؒ کے ایک انتہائی اہم رکن مسیح الملک حافظ حکیم اجمل خاںؒ کی حیات و خدمات کا تذکرہ
مسیح الملک حکیم حافظ اجمل خاںؒ (حیات و خدمات)
تحریر : وسیم اعجاز، کراچی
بیسویں صدی کے اوائل میں تحریکِ آزادی کے تناظر میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کی جماعت کا کردار بلا شبہ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ اس تحریک نے نہ صرف یہ کہ برعظیم ہند کی آزادی کے لیے بھر پور کردار ادا کیا، بلکہ دنیا کی تمام تحریکات کے لیے نشانِ راہ متعین کیا۔ اسی تحریک کے ایک نمایاں رُکن مسیح الملک حافظ حکیم اجمل خاںؒ بھی ہیں، جن کے تذکرے کے بغیر اس تحریک کا تعارف نامکمل رہتا ہے۔
حکیم اجمل خاںؒ 12 فروری 1868ءکو ہندوستان کے نامور طبیب حکیم محمود خاںؒ کے ہاں دہلی میں پیدا ہوئے۔ حکیم محمود خاںؒ کا تعلق سیّد الطائفہ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر ِمکیؒ اور ولی اللّٰہی جماعت کے دیگر اکابرینؒ سے تھا۔ حضرت سندھیؒ دیوبند میں تعلیم کے زمانے میں جب بیمار ہوئے تو انھیں حضرت شیخ الہندؒ نے حکیم محمودخاںؒ کے پاس علاج کے لیے بھیجا تھا۔ انھوں نے 1857ءکی جنگِ آزادی میں بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ جس کی پاداش میں انگریز حکومت کے ہاتھوں موصوف کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان کے پایہ استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ یہی خوبیاں وراثت میں حکیم اجمل خاںؒ کے حصے میں آئیں۔ حکیم اجمل خاںؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی۔ حفظ ِقرآن حکیم کی سعادت، درسِ نظامی کی تکمیل اور طبِ یونانی میں کمال استعداد حاصل کی۔ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں میں مہارت حاصل کی۔ حکیم صاحبؒ نے 18 سال کی عمر تک منطق و فلسفہ، طبیعات، حدیث، تفسیر اور فقہ وغیرہ کی تکمیل کر لی تھی۔
تعلیم کے حصول کے بعد 1892ءمیں رام پور میں شاہی طبیب تعینات ہوئے۔ وہاں قیام کے دوران رام پور کی لائبریری سے خوب استفادہ کیا۔ اسی دوران آپؒ کی ملاقات ڈاکٹر مختار احمد انصاریؒ سے ہوئی اور سیاسی امور کی جانب متوجہ ہوئے۔
1906ءمیں جب مسلم لیگ قائم ہوئی تو اس کے نائب صدر منتخب ہوئے، لیکن جلد ہی لیگ کی پالیسیوں سے بیزار ہو کر علاحدہ ہوگئے۔ 1913ءمیں امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے حضرت شیخ الہندؒ کی ہدایت پر دہلی میں ”نظارة المعارف القرآنیہ“ کی بنیاد رکھی تو اس کے سرپرستوں میں حضرت شیخ الہندؒ اور حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ کے ساتھ نواب وقار الملکؒ اور حکیم اجمل خاںؒ وغیرہ کے نام بھی شامل تھے۔
تحریکِ ریشمی رومال کے سلسلے میں جب حضرت شیخ الہندؒ کو دیگر رہنماﺅں کے ہمراہ مالٹا کی جیل میں قید کر لیا گیا تو اس کے خلاف ملک بھر میں زبردست احتجاج ہوا۔ اسیرانِ مالٹا کی رہائی کے لیے نومبر 1917ءکو ایک ”انجمن اعانتِ نظربندانِ اسلام“ قائم کی گئی، جس کے صدر را جہ محمد علی اور جنرل سیکرٹریز میں ڈاکٹر مختار احمد انصاریؒ اور حکیم اجمل خاںؒ شامل تھے۔ اس انجمن کے ماتحت ملک بھر میں ذیلی تنظیمیں قائم کی گئیں۔
حکیم صاحبؒ نے 1919ءمیں امرتسر میں جلیانوالا باغ میں ہونے والے شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے کانگرس، جمعیت علمائے ہند اور خلافت کمیٹی کے ساتھ بھرپور کردار ادا کیا۔ 1920ءمیں جب انگریزوں کے استبدادی نظام کے خلاف ترکِ موالات کا خاکہ تیار کیا گیا تو اس کے اوّلین نمائندوں میں مولانا ابو الکلام آزادؒ کے ساتھ حکیم اجمل خانؒ بھی پیش پیش تھے۔ اسی تحریک کے دوران حکومتِ وقت کی جانب سے ملنے والا ”حاذق الملک“ کا خطاب (1908ء) اور دیگر تمغے حکومتِ برطانیہ کو واپس کردیئے۔ تحریکِ ترکِ موالات میں موصوفؒ کی بے مثال قربانیوں کی وَجہ سے قوم کی جانب سے ”مسیح الملک“ کا خطاب ملا، جو آپؒ کے نام کا حصہ بن گیا۔
اسی تحریک کے دوران ایک آزاد تعلیمی ادارے کے قیام کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا گیا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے حضرت شیخ الہندؒ کی تیار کردہ جماعت نے بھرپور کردار ادا کیا، جن میں حکیم اجمل خاںؒ کے ساتھ مولانا محمد علی جوہرؒ، ڈاکٹر ذاکر حسینؒ، ڈاکٹر سیف الدین کچلوؒ اور ڈاکٹر مختار احمد انصاریؒ کے نام نمایاں ہیں۔ 29 اکتوبر 1920ءمیں علی گڑھ کے ایک ویرانے میں چند خیموں کی شکل میں وجود میں آنے والے اس ادارے ’جامعہ ملیہ اسلامیہ‘ کا افتتاح حضرت شیخ الہندؒ نے فرمایا۔ آج یہ ادارہ دہلی میں مرکزی یونیورسٹی کی شکل میں موجود ہے۔ حکیم صاحبؒ اس عظیم ادارے کے” شیخ الجامعہ“ مقرر ہوئے۔ آپؒ کی زیر نگرانی اس ادارے نے خوب ترقی ثکی۔ جامعہ میں تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کر کے دیگر تعلیمی اداروں کی نسبت ایک مثالی درس گاہ بنا دیا۔ دیگر رہنماﺅں کے ساتھ ساتھ حکیم صاحبؒ جامعہ کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہا کرتے تھے۔ آپؒ کے وصال کے بعد جامعہ کا ایڈمنسٹریٹو بلاک ”خیابانِ اجمل“ کے نام سے موسوم ہے۔
حکیم اجمل خاںؒ 1921ءمیں انڈین نیشنل کانگریس کے پانچویں صدر بھی منتخب کیے گئے۔ مسیح الملک نے سیاسی امور کے علاوہ طب اور طبی تصانیف کی طرف بھی توجہ فرمائی۔ آپؒ کی طبی تصانیف نے اس شعبے کو بامِ عروج پر پہنچایا۔ طب سے متعلق مصروفیات کے سلسلے میں آپؒ نے یورپ کے اسفار بھی کیے۔ حکیم صاحبؒ نے اپنی جدوجہد اور اپنے سرمائے سے طبیہ کالج بھی قائم کیا۔ یہ کالج آج بھی ہندوستان کا بے مثال ادارہ ہے۔ جو آج آپؒ کے نام سے منسوب ہے۔ حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجہ کے خطاط، ادیب اور صاحب دیوان شاعربھی تھے۔ اردو، فارسی اور عربی زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ بعض جگہوں پر ان کا تخلص ” حافظ“ پایا جاتا ہے، لیکن بعد میں ”شیدا“ کے نام سے مشہور ہوئے۔ آخری عمر میں دل کے عارضے میں مبتلا ہوگئے تھے۔ اسی بیماری کے وَجہ سے آپؒ کا وصال 28 دسمبر1927ءکو رام پور میں ہوا، جب کہ تدفین دہلی میں کی گئی۔ آپؒ کے وصال کی ایک وَجہ رام پور میں ایک شقی القلب کی جانب سے زہر دینا بھی بتایا جاتا ہے۔ موصوف کا ہی ایک شعر ہے
درد کو رہنے بھی دے دل میں ، دوا ہو جائے گی
موت آئے گی تو اے ہم دم! شفا ہو جائے گی