خان عبدالغفار خان ایک عظیم راہ نما
باچا خان برصغیر کی تاریخ کے ایک منفرد رہنما تھے جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ انسانیت کی خدمت، امن کے فروغ، اور برطانوی سامراج سے آزادی کے لئے ۔۔۔۔
خان عبدالغفار خان ایک عظیم راہ نما
تحریر: محمد اصغر خان سورانی۔ پشاور
پچھلے دنوں قلعہ بالاحصار جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ دو ہزار سال پرانا قلعہ جو کبھی پشاور کی شان تھا، برطانوی دور میں جیل کے طور پر استعمال کیا گیا۔ آزادی کے بعد اس کا ایک حصہ فرنٹیئر کور کے زیرِانتظام ہے، جب کہ دوسرے حصے کو میوزیم میں تبدیل کیا گیا ہے۔ اس میوزیم میں ایک کوٹھڑی خاص طور پر نمایاں ہے، جہاں خان عبدالغفار خان، جنھیں عام طور پر باچا خان کے نام سے جانا جاتا ہے، نے اپنی قید کا ایک حصہ گزارا۔ باچا خان نے اپنی 98 سالہ زندگی میں کُل 39 سال جیلوں میں گزارے، جن میں قلعہ بالاحصار، ہری پور، ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں کی جیلیں شامل تھیں۔ یہ کوٹھڑی آج بھی اسی حالت میں محفوظ ہے، تاکہ آنے والی نسلوں کو بتایا جا سکے کہ ان کے راہ نماؤں نے آزادی کے لیے کیسی کیسی مشکلات برداشت کیں۔
ابتدائی زندگی
باچا خان 6 فروری 1890ء کو ضلع چارسدہ کے گاؤں اتمان زئی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد خان بہرام خان علاقے کے معزز زمین دار تھے ۔ باچا خان نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے مدرسے میں حاصل کی اور بعد میں ایڈورڈ مشن ہائی سکول پشاور میں داخلہ لیا۔ اپنی تعلیم کے دوران ہی انھوں نے محسوس کیا کہ ان کی قوم تعلیم کی کمی کی وَجہ سے پس ماندگی کا شکار ہے۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ برطانوی فوج میں شامل ہوجائیں جو اس وقت پشتون نوجوانوں کے لیے ایک معزز پیشہ سمجھا جاتا تھا لیکن باچا خان نے فوج میں شمولیت کے بجائے اپنی قوم کی خدمت کا راستہ چنا۔
تعلیمی خدمات
چناں چہ 1910ء میں محض بیس سال کی عمر میں آپؒ نے پختونوں میں تعلیم کو عام کرنے کے لیے اپنے گاؤں اتمان زئی میں پہلا آزاد اسکول کھولا ۔ یہ مدرسہ اپنی نوعیت کا منفرد ادارہ تھا، جہاں پشتون بچوں کو جدید تعلیم دی جاتی تھی۔برطانوی حکومت کے زیرِانتظام مدرسوں کے برعکس، یہاں قومی شعور اور سماجی اصلاحات پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ ان کا یہ تعلیمی ادارہ محض علم کی درسگاہ نہیں، بلکہ پشتون معاشرے میں سماجی و فکری انقلاب کی پہلی کڑی ثابت ہوا ۔ انھوں نے تعلیم کو انسان کی فکری آزادی کا ذریعہ قرار دیا اور ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ ہر فرد کو اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع ملنا چاہیے۔
1911ء میں آپ نے حاجی صاحب ترنگزئی کے ساتھ مل کر تحریک اصلاح الافاغنہ کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد پشتونوں میں سماجی برائیوں کے خلاف آواز اٹھانا تھا۔اسی دوران ان کی ملاقات مہاتما گاندھی اور مولانا محمد علی جوہر جیسے راہ نماؤں سے ہوئی۔ 1914ءمیں پہلی جنگ عظیم کے دوران، برطانوی حکومت نے ان کے اسکول کو مشکوک سرگرمیوں کا مرکز قرار دے کر بند کروا دیا،لیکن اس نے ان کے عزم کو مزید مضبوط کیا۔ آپ نے 1915ء میں دارالعلوم اسلامیہ کے نام سے ایک اور تعلیمی ادارہ قائم کیا۔ یہ ادارہ اگلے کئی برسوں تک پشتون علاقے میں تعلیم و تربیت کا اہم مرکز رہا۔
اسی دور میں وہ خلافت تحریک میں بھی شامل ہوئے اور 1919ء میں پہلی بار جیل گئے۔ یہ ان کی طویل جدوجہد کا آغاز تھا، جس نے بعد میں خدائی خدمت گار تحریک کی شکل اختیار کی۔
خدائی خدمت گار تحریک
"باچا خان نے 1929ء میں خدائی خدمت گار تحریک کی بنیاد رکھی، جو پشتون معاشرے میں ایک انقلابی قدم تھا۔معاشرتی مساوات، بھائی چارے اور امن کے اصولوں پر قائم تھی۔تحریک کے بنیادی اصول یہ تھے عدم تشدد کی پالیسی پر عمل، معاشرے سے طبقاتی امتیاز کا خاتمہ، پشتون رسم و رواج میں مثبت تبدیلی ،تعلیم کا فروغ، خودداری اور خدمتِ خلق کا جذبہ۔
خدائی خدمت گار تحریک نے پہلی بار پشتون معاشرے میں جاگیرداری نظام کو کھلا چیلنج کیا ۔ باچا خان نے خاص طور پر کسانوں اور مزدوروں کو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی ہمت دی۔ وہ کہتے تھے کہ 'خدمتِ خلق، خدمتِ خدا ہے' اور اسی اصول پر انھوں نے اپنی تحریک کی بنیاد رکھی۔یہ تحریک صرف سیاسی نہیں تھی، بلکہ ایک وسیع سماجی اصلاحی تحریک بھی تھی۔ اس نے پشتونوں کو خون خرابے کی روایت سے نکال کر امن و آشتی کی راہ پر گامزن کیا۔ باچا خان نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا کہ بندوق کے بجائے قلم اٹھائیں، بدلے کے بجائے بھائی چارہ اختیار کریں اور جہالت کے بجائے علم کو اپنی مشعلِ راہ بنائیں
خواتین کے حقوق اور تعلیم کا فروغ
باچا خان نے اس دور میں خواتین کے حقوق کی آواز بلند کی، جب پشتون معاشرے میں عورتوں کو گھر کی چار دیواری تک محدود سمجھا جاتا تھا۔ انھوں نے صرف نظریاتی طور پر ہی نہیں، بلکہ عملی طور پر بھی خواتین کی ترقی کے لیے اقدامات کیے۔ اپنی بیٹی مہر تاج کو نہ صرف اعلیٰ تعلیم دلوائی، بلکہ اسے سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں بھی شامل کیا، جو اس وقت کے پشتون معاشرے میں ایک انقلابی قدم تھا۔ باچا خان کا کہنا تھا کہ 'کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی، جب تک اس کی خواتین تعلیم یافتہ اور باشعور نہ ہوں۔' وہ اکثر کہتے تھے کہ عورت قوم کی بنیاد ہے، اگر بنیاد کمزور ہو تو عمارت مضبوط نہیں ہوسکتی۔
سیاسی جدوجہد
باچا خان نے سیاسی میدان میں عدم تشدد اور امن پسندی کو اپنا شعار بنایا۔ ان کی جدوجہد اور فلسفہ برصغیر میں ایک منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے موہن داس گاندھی اور دارالعلوم دیوبند کے باقی سیاسی علما کے ساتھ مل کر ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں ایک فعال کردار ادا کیا ۔آپ تقسیم ہند کے سخت مخالف تھے۔ آپ کا خیال تھا کہ مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرنے سے نہ صرف برصغیر کی عوام میں نفرتیں جنم لیں گی، بلکہ یہ عمل انسانی جانوں کے ضیاع اور ناقابلِ تلافی نقصان کا باعث بھی بنے گا۔ 1947ء میں تقسیم کے دوران ہونے والے فسادات اور خونریزی نے ان کے خدشات کو صحیح ثابت کیا۔
تقسیم کے بعد باچا خان کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کو اپنے اصولوں اور نظریات کے باعث پاکستان کی نئی حکومت کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور انھیں بارہا قید کیا گیا،لیکن ان کی جدوجہد اور قربانیاں ان کے عزم کو کمزور نہ کرسکیں۔ وہ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ تشدد سے کبھی بھی پائیدار امن حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
پشتو زبان اور ثقافت کی خدمت
باچا خان اپنی مادری زبان پشتو کے زبردست حامی اور مداح تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ کسی بھی قوم کی سماجی، ثقافتی اور تعلیمی ترقی کا پہلا قدم یہی ہے کہ تعلیم مادری زبان میں فراہم کی جائے۔ ان کے نزدیک زبان صرف رابطے کا ذریعہ نہیں، بلکہ ثقافت، شناخت اور اجتماعی شعور کا مرکز بھی ہے۔باچا خان نے پشتو زبان کی ترقی کے لیے کئی نمایاں اقدامات کیے۔ ان کا سب سے اہم کارنامہ "پختون" نامی ایک مجلہ جاری کرنا تھا۔ یہ رسالہ نہ صرف پشتو ادب کو فروغ دینے کا ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہوا، بلکہ خدائی خدمت گار تحریک کی مقبولیت میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
باچا خان کا نظریہ تھا کہ بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دینا، ان کی فکری اور ذہنی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے اپنی تاریخ، ثقافت اور ورثے سے جڑے رہتے ہیں، جو ان کے شعور کو گہرائی اور ان کی شناخت کو مضبوطی فراہم کرتی ہے۔ پشتو زبان کے فروغ کی ان کی کوششیں صرف ادبی میدان تک محدود نہیں تھیں، بلکہ انھوں نے زبان کو ایک ذریعہ بنایا تاکہ پختونوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دیا جا سکے۔ ان کا موقف تھا کہ زبان اور تعلیم کی ترقی سے قوم خودمختاری اور خوش حالی کی طرف گامزن ہوسکتی ہے۔
وفات
صبر و استقلال کے مجسمہ اور اِنسانیت کے سفیر خان عبدالغفار خان نے 20 فروری سنہ 1988ء کو آخری سانس لی۔ ا ن کی وصیت کے مطابق افغانستان کے شہر جلال آباد میں تدفین عمل میں لائی گئی ۔ یاد رہے کہ حکومت ہند نے خان عبدالغفار خان کو 1987ءمیں بھارت رتن ایوارڈ سے نوازا ۔(بھارت رتن (بھارت کا جوہر) جمہوریہ بھارت کا اعلی ترین شہری اعزاز ہے۔ یہ ایوارڈ "غیر معمولی عوامی خدمات، کامیابیوں "اور "انسانی کوشش کے کسی بھی شعبے"میں خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے۔)
خلاصہ کلام
باچا خان کا امن، محبت اور خدمت پر مبنی فلسفہ آج بھی دنیا بھر کے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کی شخصیت اس بات کا ثبوت ہے کہ مضبوط عزم اور اعلیٰ اقدار کے ذریعے دنیا کو ایک بہتر اور پرامن جگہ بنایا جا سکتا ہے۔ باچا خان جیسے راہ نما صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ ان کی شخصیت برصغیر کی تاریخ میں ایک ایسا روشن باب ہے جو ہمیشہ انسانیت کے لیے وقف رہے گا۔ انھوں نے اپنی زندگی کو انسانیت کی فلاح و بہبود، سماجی انصاف اور عدم تشدد کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے گزارا۔ باچا خان کی تعلیمات نہ صرف ان کے اپنے دور کے لیے اہم تھیں، بلکہ آج کے دور میں بھی مشعلِ راہ ہیں ۔ ان کی خدمات آج بھی راہ نما اصول کی حیثیت رکھتی ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا اثاثہ ہیں جس پر عمل کر کے دنیا کو بہتر اور پرامن بنایا جا سکتا ہے۔