سقراط ، استاد افلاطون ؛ ایک تعارف - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سقراط ، استاد افلاطون ؛ ایک تعارف

    سقراط کی شخصیت اور فلسفے کا تعریف ، سقراط خود کو فہم کا دائی کہتا تھا۔سچائی تک پہنچنے کیلئے سوال کو بنیاد بناتا تھا۔ نصب العین پر جان قربان کر دی

    By ابرہیم خان Published on Jun 16, 2025 Views 127
    سقراط ، استاد افلاطون ؛ ایک تعارف
     تحریر : محمد ابراہیم خان مانسہرہ 

    دنیائے مغرب کے فلسفیوں کو متاثر کرنے والے افلاطون کا استاد سقراط ہے۔ سقراط (469۔399ق م)یونان کی ریاست ایتھنز میں ایک سنگ تراش کے گھر پیدا ہوا۔ والدہ محترمہ دایہ تھی۔ سقراط پُر مزاح انداز میں کہا کرتا تھا کہ میں نے اپنی ماں کا کام سنبھال لیا ہے، وہ اپنے آپ کو فکر وفہم کے حوالے سے اس طرح کہا کرتا تھا۔ ایتھنز میں لوگ آپ کو ذہانت کی دکان والے (Shopkeepers of Wisdom) کہتے تھے کیونکہ ایتھنز کا یہ سنہری دور تھا جہاں علم و ادب، فنونِ لطیفہ اور حکمت عروج پر تھی۔ 
    سقراط نے ادب، موسیقی اور جمناسٹک میں باقاعدہ ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ وہ بعد میں علم معانی وبدیع (Rhetorical) اور جدلیات (Dialectical) سے واقف ہوا۔ ابتدا میں سقراط نے والد کے پیشے کو اپنایا اگلے درجے میں مجسمہ ساز بنا۔ سقراط نے کئی جنگوں میں بھی اپنی صلاحیتوں اور شجاعت کا غیرمعمولی مظاہرہ کیا۔ 
    سقراط کی منفرد بات یہ تھی کہ وہ زبانی بحث ومکالمے کو تحریر پر فوقیت دیتا تھا۔ سقراط نے اپنی بالغ زندگی کا زیادہ تر حصہ ایتھنز کی گلیوں اور بازاروں میں دلیل وحجت کے استعمال میں گزارا۔ کیوں کہ اسے یقین تھا کہ ملک و قوم کی خدمت اور فلسفہ کو مقصدِ حیات بنانا اس کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے وہ ایتھنز کے لوگوں کے تجزیہ نفس اور روحانی اصلاح میں مصروف ہو گیا۔ 
    سقراط نے کسی اکیڈمی سے تعلیم حاصل نہیں کی اور نہ ہی اس کا کوئی استاد تھا۔ وہ خود ہی چیزوں کو دیکھتا، اس کے ذہن میں سوال ابھرتے پھر وہ لوگوں سے اس پر بات چیت کرتا۔ سوال در سوال کرتا، اسی جستجو اور تلاش کے عمل میں اسے منزل مل گئی۔ ( To , Ti) ایک یونانی لفظ ہے جس کا مطلب ہے کہ "یہ کیا ہے؟" مثلاً یہ کائنات کیا ہے؟ اسے کس نے بنایا؟ ہم کون ہیں؟ ہم کیسے سوچتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ ۔ 
    یہی وہ چابی تھی، جس سے سقراط نے چیزوں کی اصلیت کا تالا کھولا اور فلسفے کی بنیاد رکھی۔ کائنات کے حوالے سے سقراط کا نظریہ یہ تھا کہ یہ کائنات عقلِ کُل نے بنائی ہے۔ اس کے نزدیک عقلِ کُل سے مراد خدا کی ذات ہے اور سقراط پہلا یونانی فلاسفر ہے، جس نے خدا کے ایک ہونے کا تصور دیا۔ سقراط کا یہ تصور ایتھنز کی عمومی عوامی سوچ کے خلاف تھا۔ 
    سقراط کا نوجوانوں سے تعلق 
    سقراط کے حلقہ احباب میں زیادہ تر نوجوان شامل تھے۔ زینوفون، اینٹی شینز، ارسطیفوس، الکبیدش اور افلاطون اس میں نمایاں تھے۔ سقراط کے نظریات اور فلسفے کو افلاطون نے دنیا کے سامنے تحریری شکل میں پیش کیا۔ 
    سقراط نے جب لوگوں سے سوالات کا سلسلہ شروع کیا اور انھیں ان کی غلطیوں سے آگاہ کیا تو یونانی لوگ اس کے خلاف ہوگئے۔ سقراط نے انتظامیہ اور حکومت پر تنقید کی تو اشرافیہ اس کے خلاف ہوگئی۔
    سقراط کہا کرتا تھا کہ میں سچائی پر ہوں، جب بھی میں کوئی غلط کام کرنے لگتا ہوں تو غیبی آواز (طاقت) مجھے روکتی ہے اور میری درست رہنمائی کرتی ہے۔ یہی غیبی آواز ہے، جس نے مجھے عملی سیاست میں حصہ لینے سے روکا۔ اسی غیبی آواز نے شاگردوں کے انتخاب میں میری رہنمائی کی اور ایسے شاگردوں کو میرے حلقہ احباب کا حصہ بنایا جو اس کے اہل تھے، تجزیہ (تربیت) نفس اور روحانی اصلاح میں مگن تھے۔ سقراط کہا کرتا تھا کہ روح کی پاکیزگی اصلِ حیات ہے۔ ایتھنز کے لوگوں سے کہتا تھا کہ جان ومال کو اول درجہ نہ دیں، بلکہ تجزیہ نفس اور روح کو اول درجہ دیں، روحانی ترقی حاصل کریں۔ 
    سقراط کا تربیتی عمل سے تعلق اور افکار 
    سقراط کے ایک دوست زینوفن نے کہا تھا ؛ "سقراط ہمیشہ محبت کی زبان استعمال کرتا اور تجزیہ نفس کی دعوت دیتا تھا۔ اخلاقی تعلیم اس کے پیش نظر ہوتی۔ اس کی نظر انصاف کے ظاہر پر نہ تھی، بلکہ وہ اس کے عقلی پہلو کو مقدم رکھتا۔" 
    افلاطون کی مشہورِ زمانہ کتاب "ریاست" میں انھی افکار ونظریات کی تشریح ہے۔
    سقراط پر سسٹم اور مذہبی اشرافیہ کا الزام 
    سقراط کے مداح زیادہ تر نوجوان لڑکے تھے۔اس لیے ایتھنز کی اشرافیہ اور مذہبی حلقوں نے سقراط پر نوجوانوں کو گمراہ کرنے کا الزام لگایا، حال آں کہ اس نے کبھی نوجوانوں کو گمراہی کے راستے پر نہیں لگایا، بلکہ ہمیشہ یہ تعلیم دی ؛ 
    "انفرادی مفاد کو اجتماعی مفاد کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے اور اچھے لوگ اپنی خوب صورتی پر برائیوں کے دھبے نہ پڑنے دیں۔" 
    سیاست پر اس کی تنقید مدلل تھی۔ حکومت کو درست راہ پر چلانے کا اس نے بہترین فارمولا پیش کیا۔ سقراط نے سیاسی قیادت کو صاف بتلایا : 
    "جب اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے، اس میں جہاز رانی کے مسائل پر بحث ہوتی ہے۔ تو ان مسائل کے حل کے لیے انھیں طلب کیا جاتا ہے جو جہاز رانی کے بارے میں علم رکھتے ہوں۔ لیکن جب حکومت چلانے کا مرحلہ آتا ہے تو ہر اس شخص کو شامل کیا جاتا ہے جو اہل نہیں ہوتا۔ نا اہل لوگوں  کی وَجہ سے قوم زوال کا شکار ہوجاتی ہے۔" 
    سقراط کی اس پر وضاحت
    " اسمبلی احمقوں، معذوروں، ترکھانوں (عقلیت سے زیادہ جسمانی عملیت پسند طبقے)، دکان داروں اور ناجائز منافع خوروں پر مشتمل ہے۔ جو ہر وقت یہ سوچتے ہیں کہ کیسے سستی چیزیں (ہوشربا) مہنگے داموں بیچ کر منافع کمایا جائے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عوام کے مسائل کے بارے میں ایک دفعہ بھی نہیں سوچتے۔" (یہاں یہ پیشِ نظر رہے کہ سقراط کے عہد میں ایتھنز میں ترکھان، لوہار، دکان دار اور دیگر پیشہ ور اسمبلی کے ممبر ہوتے تھے۔ جب اسمبلی کا اجلاس ہوتا تو سارے کاروبار بند ہو جاتے تھے۔) 
    سقراط نے ایک خدا کا تصور پیش کیا اور مذہبی اشرافیہ پر کھل کر تنقید کی۔ مذہبی اشرافیہ اور ریاست کی طرف سے سقراط کے کردار کو داغ دار کرنے کی کوشش کی گئی۔ مثلاً سقراط کے متعلق مشہور ہو گیا کہ وہ نوجوانوں کو دیوتاؤں کی پوجا سے روکتا ہے۔
    سقراط کا کہنا تھا کہ اپنے آپ کو پہچانو۔ فلسفی ویل ڈیورانٹ کی رائے میں اصل فلسفہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب انسانی ذہن اپنی طرف متوجہ ہو جائے اور خود کو پرکھنے کی صلاحیت پیدا کر لے۔ کیا اپنی ذات کا تجزیہ کرنا اور نتیجتاً کسی صریح یقین تک پہنچنا مشکل ہے؟ سقراط کا ایک مقولہ بہت مشہور اور مقبول عام ہے ؛ 
    "میں ایک بات بخوبی جانتا ہوں وہ یہ کہ میں کچھ نہیں جانتا" یقیناً سقراط کا یہ جملہ اس کے تجزیہ نفس کے تحت عجز وانکساری کا ثبوت ہے۔ سقراط کی کامیابی سننے والوں کو سوچنے اور مسلمہ دستور وقوانین کے بارے میں سوال اُٹھانے کی تحریک دینا تھی۔ سقراط کا کہنا تھا کہ سچائی تک پہنچنے کے لیے سوال ضروری ہے۔ 
    فلسفے میں سقراط کا کام اخلاقی نوعیت کا تھا۔ انصاف، محبت اور نیکی جیسے تصورات کی تفہیم اور ان پر یقین، اس کی تعلیمات کی اساس تھی۔ وہ یقین رکھتا تھا کہ تمام برائی لاعلمی اور جہالت کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ از خود انسان برا نہیں ہوتا، بلکہ برائی غلط ماحول سے جنم لیتی ہے۔ 
    نیکی علم ہے، درست علم رکھنے والا درست عمل ہی اختیار کرے گا۔ درست علم اور عمل درست ماحول کو جنم دیتا ہے۔
    معاشرے کے تین طبقے
    سقراط نے معاشرے کو تین طبقوں میں تقسیم کیا۔
    سقراط کے خیال میں سب سے نچلا طبقہ تاجروں کا ہونا چاہیے جن کے ہاتھوں میں معاشی امور ہوں۔ 
    دوسرا طبقہ ریاست کی انتظامیہ کا ہے جو فوجیوں پر مشتمل ہے۔ ریاست کا انتظام ان کے ہاتھوں میں ہوگا۔ 
    سب سے پہلے اور اوپر اہلِ علم کی جماعت کو رکھا جائے جو ریاست کی سرپرستی کریں، کیوں کہ یہی سوسائٹی کا عقل مند طبقہ تصور کیا جاتا ہے۔ 
    سقراط کو سزائے موت 
    سیاسی اور مذہبی اشرافیہ پر تنقید کے جرم میں سقراط کو جمہوریہ ایتھنز کی عدالت نے موت کی سزا سنائی، جس کے باعث اسے جیل جانا پڑا۔ سقراط کے دوستوں نے جیل کے داروغہ سے ساز بار کرکے اسے، جیل سے نکالنے پر راضی کر لیا، لیکن سقراط کو جب پتہ چلا تو اس نے صاف انکار کر دیا اور کہا ؛  
    "اگر میں جیل سے بھاگ گیا تو مر گیا اور اگر حق کی خاطر زہر کا پیالہ پی لیا تو قیامت تک زندہ رہوں گا۔" 
    سقراط نے حق کی خاطر، قانون کی اطاعت اور نصب العین کی کامیابی کے لیے قربانی پیش کی اور تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔
    نوٹ ؛ قبل از مسیح تاریخ کی گنتی الٹی لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔
    *مآخذ! ایک سو عظیم فلسفی، سید یاسر جواد*
    *جدید مغربی فلسفے کی تاریخ، ایم ایس شاہد*
    *فلسفہ وعلم الکلام، صفدر علی*
    Share via Whatsapp