صالح معاشرے کے قیام کی ضرورت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • صالح معاشرے کے قیام کی ضرورت

    قومی و بین الاقوامی نظاموں کا نظریاتی تجزیہ زیربحث ہے

    By Asad Bilal Published on May 17, 2020 Views 3008
    صالح معاشرے کے قیام کی ضرورت
    تحریر:اسد بلال, میانوالی

    معاشرے کی حس و حرکت انسان کے رائج اصولوں پر مبنی ہوتی ہے۔جس طرح کے اصول ہوں بالکل اسی طرح کا معاشرہ وجود میں آتا ہے ۔ مثلا 
    مثلاً ایک معاشرے کا سیاسی ، سماجی اور معاشرتی اصول یہ ہے کہ سب لوگوں کویکساں  حقوق مہیاہوں۔وہاں کے افراد اس اصول پر متفق ہیں کہ ظلم، نا انصافی کو ختم کردیاجائےاور بلا تفریق رنگ و نسل ہر ایک فردکےجذبات،احساسات کا خیال رکھا جائے۔ یقیناً ایسا معاشرہ خوشحال ہو گا اور اس میں بسنے والے افراد کی سوچ جامع ہوگی۔
    بالکل اسی طرح اگرایک معاشرے کے اصول لوٹ کھسوٹ،ظلم، نا انصافی اور بد امنی کے ہوں ،وہاں لوگوں کی عزتیں غیر محفوظ اور پامال ہوں،تو وہاں کے افراد نہ صرف بدحال ہوں گے بلکہ لہجوں میں چڑچڑاہٹ اور بد مزاجی کا شکار ہوں گے۔ ایسا معاشرہ محتاج  نظر آۓ گا اور ہر فرد کے حقوق ادا کرنے سے قاصر ہوگا.اگر اس تناظر میں آج کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہےکہ دنیاکا بہت بڑا حصہ غلام اور ظلم وناانصافی میں مبتلا ہے۔
    موجودہ دور میں پھیلائے جانے والے سائنسی ہتھار اس قدر خطرناک ہیں کہ ان کےہوتے ہوے کسی آزاد اور خوشحال معاشرے کا  قیام ممکن نہیں۔آج یہ تأثر قائم کرنے کی کوشش کی جاری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر عذاب نازل کیا ہے حالانکہ حالات اس کے بالکل برعکس ہیں۔
    دراصل موجودہ معاشرہ  سرمایہ دارانہ نظام کا پیداکردہ ہے۔جولوگوں کے وسائل پر قبضہ قائم کر کے انہیں غلام بنا لیتا ہے اور پورے معاشرے کو ظلم کی اندھیری رات میں دھکیل دیتا ہے۔ پاپائیت بھی اس کا ساتھ دیتی نظر آتی ہے۔ کہ رب العالمین ہم سے ناراض ہیں اور نعوذبااللہ انسانوں پر مصیبت نازل کررہاہے جو ہماری کوتاہیوں کے سبب پیدا ہواہے۔
    غور یہ یہ کرناہے کہ کوتاہی کہاں ہے ؟دراصل جب انسان یہ طرز عمل اپناتے ہیں کہ معاشرے میں پاۓ جانے والےظالمانہ سسٹم کو ناسمجھتے ہوئے صرف گریہ زاری پر گزارا کر کے مصیبت سے نجات حاصل کرنے کی راہ پہ ہوں تو پھر ایسے عذاب ضرور     آتے ہیں۔کیونکہ ان کوخود انسانوں نے راستہ مہیا کیا ہوتاہے۔ قرآنی تاریخ کا مطالعہ کیاجاۓ تویہ سچ سامنےآجاتاہے۔
    حقیقت یہ ہے کہ ہم اس بات کو سمجھنے میں غلطی کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تو عذاب کو نازل نہیں کرتا ہم خود ہی اپنے پیدا کردہ نظام ظلم کے ذریعے اس عذاب کو بلاتے ہیں۔ہمیں سوچناچاہیےکہ اس عذاب سے ہم کیسے چھٹکاراحاصل کرتے ہیں ۔یہ نہ تو دم درود و تعویذ گنڈا سے مسئلہ حل ہوگا اور نہ ہی بغیر شعور حاصل کیے اس سے چھٹکارا ممکن ہے۔آج کے معاشرے کی اولین ضرورت اس کو آزاد اور خود مختار انسانی حقوق پر ڈھالنے کی ہے۔ ظلم کی اندھیری رات کے بعد اجالا آتا ہے ۔اب اس اجالے تک ہم کب پہنچیں گے یہ ہم پہ منحصر ہے۔
    اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں سمجھنے ،  عمل کرنے اور اچھے سچے انسانی ہمدردی کا جذبہ رکھنے والوں میں شامل فرمائے۔
    Share via Whatsapp