کرونا تھیوریز اور ہماری قومی حالت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • کرونا تھیوریز اور ہماری قومی حالت

    اس تحریر کو لکھنے کا مقصد ہمارے ملک میں وبا سے متعلق جو خیالات اور مفروضے پیش کیے جا رہے ہیں اور جس کے لیۓ دلاٸل کا ایک انبار لگا ہے۔ کیا وہ واقعی اس

    By usman khurram Published on Apr 15, 2020 Views 2070
    کرونا تھیوریز اور ہماری قومی حالت
    تحریر: عثمان خرم،  فیصل آباد

    ہمارے ملک میں اس وقت کرونا وائرس کی وبا سے متعلق مختلف خیالات اور مفروضے پائے جاتے اورتمام تر توانائیاں ان کے لیے مطلوبہ دلاٸل پیش کرنے میں صرف کی جارہی ہیں۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ کیا یہ سب مفروضےواقعی اس قابل ہیں کہ ان پر اس قدر وقت صرف کیا جاۓ یااپنی سوچوں کو کوٸی تعمیری اور مثبت رخ بھی دیا جا سکتا ہے؟
    سوال یہ ہےکہ مختلف تھیوریز پہ وسائل صرف کرنے سےکیا اس واٸرس سے جو نقصان ہونے والا ہے وہ ٹل جاۓ گا؟ جبکہ ہماری قومی حالت بھی ایسی ہو کہ ہم آج تک اپنے چھوٹے چھوٹے سماجی مسائل کو حل کرنے میں بھی کامیاب نہ ہوسکے ہوں اور اوپر سے ایسی کڑی آزمائش ہمیں آن گھیرے جس کے لیے ہم بالکل بھی تیار نہ ہوں تو ایسے میں ان مفروضوں کےاثبات اور رد میں دلائل پیش کرنا اور ان پر بحث مباحثہ کرنا محض وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں۔
    توجہ طلب امر تو یہ ہےکہ ان عوامل پر غوروفکر کیا جائےجن پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنی قوم کو ایسی  مشکلات سے نجات دلا سکتے ہیں۔اس دفعہ نہ بھی سہی، پرآنے والے دور میں ہم ایسی صورت حال کا اپنے منظم سسٹم سے بھرپور جواب دے سکتے ہیں۔
    پھر چاہے وہ کسی ملک کی طرف سے مسلط کردہ باٸیو لوجیکل وار ہو یا کیمیاٸی حملہ ہو یا کوٸی اور آفت۔۔۔ اگر ان عوامل پر ہم بحیثیت قوم عمل کریں گے تو یقیناً ہمیں کوٸی بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ 
    بات یہ ہے کہ دنیا میں ہر صدی میں اور ہر کچھ عشروں بعد انسانوں پر آفات آتی رہی ہیں۔وہ چاہے وبا کی شکل میں ہو، زلزلہ کی شکل میں ہو ، قحط کی شکل میں  یا سیلابوں کی شکل میں۔ایسی تمام آفات سے وہی قوم بچ سکتی ہے جس نے نہ صرف ایسی مصیبتوں سے بچنے کی تیاری کر رکھی ہو بلکہ اس کاایک مضبوط نظام ہوجو دیگر جملہ امور پہ بھی مرتکز ہوسکے ۔ایسے سسٹم میں کم ازکم درج ذیل صلاحیتوں کاپایاجاناضروری ہے
    1۔آفات سے نمٹنے کی حکومتی وریاستی تیاری
    2۔انتظامی اداروں کا باہمی ٹیم ورک
    3۔مینجمنٹ اسکلز/ انتظامی صلاحیت
    4۔عوامی شعور کی بےداری اور نظم و ضبط۔
    اس دفعہ اس انسانیت کش بیماری کا آغاز چین سے ہوا اور قریباً دو ماہ سے کچھ زیادہ عرصہ کے دورانیہ میں اس کا زیادہ تر اثر چین کے صوبہ ہوباٸی میں رہا۔ تقریباً 80 ہزار کیسز میں سے 60 ہزار کیسز اسی صوبے میں تھے۔ لیکن اس دو ماہ کے عرصے میں ہمیں وہاں نہ تو کوٸی افراتفری دیکھنے کو ملی اور نہ کسی چیز کی کوٸی قلت،خواہ وہ طبی ساز و سامان ہو ڈاکٹروں کا حفاظتی سامان ہو ،وینٹیلیٹرز ہوں،اشیاۓ خورد و نوش ہوں یا دوسری اشیاۓ ضروریہ۔یہاں تک کہ ڈیڑھ ارب آبادی والے ملک میں اس وبا کو ہوباٸی صوبے تک محدود کر لیا گیااور یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گاکہ چین کے باقی صوبوں کے معاملات 100 فیصد نہ سہی کم از کم 60 فیصد اپنے معمول کے مطابق چلتے رہےاور اب صورتحال یہ ہے کہ اپنے ہاں مرض پر قابو پالینے کے بعد چین دنیا میں امداد پہنچاتا نظر آ رہا ہے۔
    اب تقابل میں امریکہ اور یورپ کا جاٸزہ لیں۔مارچ کے آغاز میں چین کی انفارمیشن منسٹری نے بیان دیا کہ جو دو ماہ کا قیمتی وقت چین نے اس وبا سے لڑنے میں صرف کیا وہ امریکہ اور دوسری اقوام کے لیے تیاری کا وقت تھا۔ لیکن افسوس کہ یہ وقت ان اقوام نے الزام تراشیوں میں ضاٸع کر دیا۔ 
        1918ء میں اسی طرح کی ایک وبا ہسپانوی فلو کے نام سے اسپین سے پھوٹی تھی اور پوری دنیا میں پھیل گٸی تھی جس میں 5  سے 10 کروڑ جانیں جانے کا تخمینہ لگایا گیا تھا  لہذا اس بحران کو سامنے رکھتے ہوئے اب اس موقع پر تو یورپ اور  باقی دنیا کو  تیار رہنا چاہیے تھالیکن حیرت انگیز طور پر یورپین اقوام اس دفعہ بھی بغیر کسی تیاری کے میدان میں دکھائی دیں جب کہ ان اقوام کو اس کی تیاری کے لیے کافی وقت بھی ملاتھا لیکن ان کے ہاں ہمیں ان کےحکومتی اقدامات میں بوکھلاہٹ اور بد نظمی دیکھنے کوملی اورجلد ہی اس وبا کے آنے کے بعد سب کےسب ممالک لاک ڈاٶن کرنا پڑے۔ یہاں تک کہ بعض جگہوں پرنوبت کرفیو تک جا پہنچی۔
    اس متضاد صورت حال سے یہ نتیجہ اخذ کرنامشکل نہیں ہے کہ دنیا میں صرف وہ اقوام بڑی سے بڑی آزماٸش میں کامیابی حاصل کر لیتی ہیں جن کی لیڈرشپ میں ذہنی ہم آہنگی،مقاصد و ترجیحات میں یکسوٸی اورمضبوط ٹیم ورک پایا جاۓ اور وہ مذکورہ بالا چاروں خصوصیات سے متصف ہوں۔چین سمیت جاپان اور کوریا کی لیڈر شپ میں ہمیں یہ صلاحیت دیکھنے کو ملی اسی لیے ہمیں ان لیڈروں کے بیانات میں نہ تو کوٸی تضاد نظر آیا اور نہ ہی غیر ضروری بیان بازی نظر آٸی۔ جو حکمت عملی حکومت نے بناٸی اس کو حکومت کے ذیلی اداروں نے جس میں صحت،خوراک اور اشیإ ضروریہ اور سیکیورٹی وغیرکے ادارےشامل تھے سب نے مل کر ایک مربوط ٹیم ورک کےساتھ کام کیا۔اسی وجہ سے یہ اقوام بڑے باوقار انداز سے اس بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہوئیں۔
    اس کے برعکس امریکہ و یورپ کو دیکھا جاۓ تو نہ صرف ان ممالک کے لیڈروں میں ہمیں ٹیم ورک کا فقدان نظر آیا بلکہ یورپی یونین کے لیڈر بھی ایک پیج پر نہیں دکھائی دیے۔ اب جبکہ اس وبا کے اثرات بڑھتے جا رہے ہیں تو ان اقوام کے لیڈروں کے ایک دوسرے کے ساتھ شکوے شکایات میں بھی شدت آگٸی ہے۔ بقول اٹلی، یورپی یونین نے اس آزماٸش کی گھڑی میں اسے بالکل تنہا چھوڑ دیا اور اٹلی کو نہ چاہتے ہوئے بھی روس سے امداد لینی پڑی۔خود امریکی صدر اور امریکی ادارہ صحت کے بیانات میں اچھا خاصا تضاد پایا جاتاہے۔اسی طرح برطانیہ کا ادارہ صحت NHS کچھ اورکہتا پایا گیا اور لیڈر شپ کا موقف کچھ اور سنائی دیا۔ یورپی یونین کی لیڈر شپ اس وبا کے اپنے ممالک میں پہنچنے پر کوٸی ٹھوس اقدام نہ کر سکی اور ہر ملک کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ جس وبا سے دو ماہ میں چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا تھا وہ اب ان ممالک کے بقول چھ ماہ تک مزید ان ممالک میں رہ سکتی ہے۔
    ہر قوم کے پاس مختلف وساٸل ہوتے ہیں جن کو اگر بہترین طریقے سے استعمال کیا جاۓ تو نتاٸج انتہاٸی مثبت آتے ہیں۔ وساٸل کے اس بہترین استعمال کو انتظامی صلاحیت (management skills) کہتے ہیں۔چین نے جس طرح اپنی انتظامی صلاحیتوں کا اظہار کیا اس پر کافی سارا مواد چھپ چکا ہے نیز پوری دنیا ان کی اس صلاحیت کی معترف ہوٸی ہے۔
       دوسری جانب امریکی و یورپی حکومتیں دو ماہ کا وقت ملنے کے باوجود کوٸی خاطر خواہ انتظام نہ کر سکیں۔ بد انتظامی کی انتہا دیکھیے کہ ٹیسٹنگ کٹس اور وینٹیلیٹرز کا انتظام وبا کے پھیلنے کے بعد شروع ہوا۔ ہسپتالوں میں بستر کم پڑ گٸے اور مریض ہسپتالوں کے برآمدوں میں زمین پر پڑے پائے گئے اور تو اورحکومتوں کو علاج کے لیے بھی صرف ایسے مریضوں کا انتخاب کرناپڑا جن میں بچنے کی صلاحیت اوروں سے زیادہ تھی جبکہ باقی ماندہ لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ اورپھر یہ کیسی انتظامی صلاحیت ہے کہ پورے کا پورا ملک ہی بند کرنا پڑ گیا۔یورپ و امریکہ جو کہ ٹیکنالوجی میں اپنا کوٸی ثانی نہیں رکھتے وہ بوقت ضرورت نہ تو کوٸی ہسپتال ہنگامی بنیادوں پر کھڑا کر سکے اور نہ اتنے طبی آلات مہیا کر سکے جن کی ضرورت تھی۔خود امریکی صدربھی مزےلےلے  کر ویکسین بنانے کا کہتے رہے لیکن تاحال دنیا کو کچھ پیش نہ کرسکے
    اب دیگراقوام عالم میں رہنے والی عوام کا ردعمل دیکھتے ہیں۔ چین سمیت جاپان اور دیگر اقوام کی عوام کا ردعمل عقل وشعور  سے بھرپور دکھائی دیا اور جو کچھ ان کی لیڈر شپ نے ان کے لیےتجویز کیا انہوں نے اس کا مکمل پاس کیا۔جو اوقات ان کے باہر آنے جانے کے طے ہوۓ انہوں نےاس کی مکمل پابندی کی۔اس وبا کے خاتمے کی جنگ کو اپنی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر قومی فریضہ کے طور پر لڑا۔کسی بھی قسم کی بدانتظامی اور افراتفری دیکھنے کو نہ ملی۔
      اس کے برعکس اٹلی کے شہر لیمبارڈی میں جب یہ وبا پھوٹی اور وہاں کے حکام نے اہل علاقہ کو لاک ڈاٶن کیا تو وہاں کے بیشتر رہاٸشی لیمبارڈی سے نکل کر آس پاس کے علاقوں میں چلے گٸے اور وبا کے پھیلنے کا سبب بنے۔ میڈیا نے خوف پھیلاکر پبلک کی بدحواسی میں مزید اضافہ کیا۔اسی طرح سپر مارکیٹوں میں کافی بدنظمی دیکھنے کو ملی یہاں تک کہ لوگوں کو اپنے گھروں میں بٹھانے کے لیے یورپی اقوام کو فوج طلب کرنا پڑی اور گھروں سے نکلنے والوں پر بھاری جرمانےعائد کیے گئے۔اسپین میں لوگ اپنے ادھیڑ عمر بزرگوں کو گھروں میں مرتا چھوڑ کر بھاگ گٸے۔قصہ کوتاہ، یورپ کی نام نہاد اخلاقیات اور ڈسپلن،کہ جس کی ہمارے ہاں یورپ سے مرعوب طبقات کے ہاں بڑی  قصیدہ گوئی ہوتی ہے،  (بدقسمتی سے) ان کا جنازہ بڑی دھوم سے نکلا۔
    الغرض اگر ملک پاکستان کا بھی مذکورہ چار بنیادوں پر تجزیہ کیا جاۓ تو یہ چیز روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے اندر ان مطلوبہ صلاحیتوں کا بدترین فقدان ہے ۔اس صورت میں ہماری قوم کو گہری چوٹ پڑنے کا اندیشہ ہے۔اگر ہم نےموجودہ صورت حال نہ بدلی تو آٸندہ بھی ایساہی ہوتا رہے گا۔
    آج وقت کی ضرورت ہے کہ بےکارمباحثوں میں اپنا  وقت صرف کرنے کے بہ جائے نوجوان یہ غور کرنا شروع کرے کہ اپنے ملک میں یہ صلاحیتیں پیدا کرنے کے لیے کس معیار کانظام  قائم کرنے کی ضرورت ہے۔پھراس کے بعد چاہے کوٸی سازش کرے یا کوئی اور حربہ استعمال کرے، ہم اس کا بھرپور مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔لیکن اس کے لیے مذکورہ بالا صلاحیتوں کا حامل ایک آزاداور قومی تقاضوں سے ہم آہنگ مستحکم نظام کا قیام ناگزیر ہے۔
    Share via Whatsapp