خطرہ اور خوف کی حقیقت
تحریر: جمال منصور، واہ کینٹ
اہل عقل و شعور کے ہاں، " خطرہ "کو بطور حقیقت تسلیم کرنا ،اس سے بچاؤ کی تدبیر کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ "خوف "کی ذہنی حیثیت کو سمجھنا ، اس میں مبتلا ہونے سے بچنا ، سب یکساں اہمیت کے حامل امور تسلیم کیے جاتے ہیں، خطرہ اور خوف میں فرق جاننا اس لیے ضروری ہے کیونکہ منفی قوتیں سادہ لوح افراد کو خوف کےجال میں الجھا کر اپنے مقاصد حاصل کرتی ہیں، بلکہ کبھی کبھی تو پورےسماج کو یرغمال بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جبکہ خطرات، قدرتی (امراض، آفات وغیرہ) ہوں یا انسانی مسلط کردہ (جنگ، وبا وغیرہ) ، اپنے دیگر پہلوؤں کے ساتھ ساتھ یہ مواقع بھی رکھتےہیں کہ انسانی سماج اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو دریافت کرے اور ان سے لڑ کر پہلے سے موجود صلاحیتوں کو نکھارے،یوں انسان کے کچھ تربیتی تقاضے بھی پورےہوتے ہیں۔
اس فرق کی ایک سادہ سی مثال ہے کہ شیر کا سامنے آ جانا ، ایک خطرہ پیش آنا ہے اس سے بچاؤ کی تدبیر کی جائےگی ، مگر ایک خونخوارجانور کی تصوراتی موجودگی میں انتہائی لاچاری و بےاعتمادی خوف کی علامت ہے۔ اس کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے۔ خطرہ ایک حقیقت کا ادراک ہے اورخوف کبھی کبھی محض ایک ذہنی وہمہ ہوتاہے۔خطرہ کا امکان بھی ضمنی حقیقت کی حثییت رکھتا ہے مثلا" یہ کہ کسی راستے میں شیر کے آنے کا ا مکان ہے، اس کی پیش بندی واحتیاطی تدابیر کی جائیں گی مگر خونخوار جانور کی حقیقی یا تصوارتی آمد کے امکان سے تشویش زدہ ہو جانا ، خوف کی علامت ہے۔
خوف ، عدم تحفظ اور انفرادیت کے ماحول میں پھلتا پھولتا ہے،ایسا سماج جہاں انفرادیت پسندی اور عدم تحفظ ہو گا وہاں خوف کی فضاء قائم کرنا اور فروغ دینا نسبتاآسان ہو گا۔ خطرہ یا اس کے امکان کی موجودگی میں خوف کا شکار ہونے سے ، خطرے سے مقابلہ کی صلاحیت مفلوج ہو جاتی ہے جبکہ کسی خطرہ یا اس کے امکان کی غیر موجودگی میں خوف کاپیدا ہونا ، شدید نفسیاتی عارضے کی نشانی ہے۔ خوف سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے یقین کے نظام پر توجہ دی جائے -اس میں بہتری لائی جائے، عدم تحفظ کا تدارک کیا جائے اور اجتماعیت پسندی کو فروغ دیا جائے۔
خطرہ یا اس کے امکان سے نپٹنے کے دوران ، خطرہ سے آگہی ایک مثبت رویہ ہے اور خطرہ کا غیرضروری تذکرہ ایک منفی رویہ ہے ، اس سے خوف کی فضا پنپنے میں معاونت ہوتی ہے۔ اسی طرح خطرہ کے امکان سے آگہی مثبت رویہ ہے اور خطرہ کے امکان پہ غیر ضروری سوچنا ، تشویش پیدا کرتا ہے۔ خطرہ اور اس کے امکان کے دوران ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا ، اپنی ذمہ داری سے لاپرواہ ہوکر کسی نجات دہندہ کا منتظر رہنا ایک منفی رویہ ہے جبکہ خطرہ اور اس کے امکان کے دوران ، خطرہ کی ماہیت،مأخذ و مقدار کا تعین کرنا، اجتماعی دانش و حکمت عملی کو بروئے کار لانا، پیش بندی کرنا ، احتیاطی تدابیر اختیار کرنا مثبت رویے ہیں۔
اس جہان میں پائی جانے والی مقتدرمنفی ذہنیتیں "خوف" کو اپنی منفعت کے لیے استعمال کرتی ہیں ، افراد انسانی میں انفرادی و اجتماعی سطح پر "خوف" کے میدان تیار کرتی ہیں ، جہاں خوف کے کاروبار ہوتے ہیں،سرمایہ کاری ہوتی ہے ، علم و ہنر کا استعمال ہوتا ہے، خوف کے اس کاروبار سے جو طبقات فائدہ اٹھاتے ہیں اکثر وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس "خطرہ" سے آگاہی اور بچاؤ کی تدبیر ہے، اگرچہ وہ "خوف کی فضا " کے دوران اپنے کاروبار چمکا رہے ہوتے ہیں- ایسے میں حقیقی رہنمائی کا میسر آنا کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ ایسی راہنمائی جو ذہن وقلب سے خوف کو نکال کر،خطرہ اور اس کے امکان سے آگاہ کرتے ہوے ، حتی المقدور نقائص سے پاک اور معیاری ،تدبیرو تعاون فراہم کرتی ہے ،وہ لائق تحسین ہے