رجعت پسند مذہبی اشرافیہ کا کردار - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • رجعت پسند مذہبی اشرافیہ کا کردار

    افسوسناک امر یہ ہے کہ سامراجی قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کرنے ،بھوک پیدا کرنے ،خوف وہیجان میں مبتلا کرنے، اور لوگوں سے ان کا یقین و ایمان متزلزل کرنے۔۔۔۔

    By عبدالرحمن Published on Mar 29, 2020 Views 2899
    رجعت پسند مذہبی اشرافیہ کا کردار
    تحریر : ڈاکٹر راؤ عبدالرحمن، لاہور 

    حالیہ کورونا وائرس بحران، دنیا کو نئے انداز سے کنٹرول کرنے کی سامراجی حکمت عملی  کا حصہ نظر آتا ہے، اس موقع پر رجعت پسند مذہبی اشرافیہ کا کردار  ماضی کا افسوسناک تسلسل ہی دکھائی دیتا ہے۔
    ہم دیکھتے ہیں کہ اس وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی بڑی شدت کے ساتھ مذہب کے خلاف پراپیگنڈہ منظر عام پہ آگیا جس کے تانے بانے کے لیے استعمار کے آلہ کار رجعت پسند مذہبی طبقات نے حسب استطاعت حصہ ڈالا .کچھ گروہ  اس وائرس کے پھیلانے میں عملاً حصہ دار  ٹھہرے،   بعض نے جاہلانہ رد عمل کو اختیار کیا اور مذہب کے لیے بدنامی و منفی تأثر کا ذریعہ بنے ,کچھ نے موقع سے فائدہ اٹھا کر باجماعت نمازوں پر پابندی اور نماز جمعہ پر پابندی  کے مطالبے کو تقویت بخشی اور آخر میں سب کے سب  اپنے حاکم کے حکم کے آگے سر بسجود ہو گئے . 
    بظاہر باہم دست و گریباں یہ مذہبی طبقات اس سے قبل  بھی متعدد مواقع پر بحق سامراج، اسی نوعیت کے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کر چکے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال ماضی میں  افغانستان کے فساد کو  جہاد قرار دینا تھا (اگرچہ آج سب کے سب اس کی ذمہ داری سے نظریں چراتے دکھائی دیتے ہیں )
    آج بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے حسب منشا مساجد کی بندش کا ماحول پیدا کرکے یہ مذہبی طبقات کچھ دانستہ اور کچھ نادانستہ اسی نوعیت کی قبیح حرکت کے مرتکب ہوئے ہیں۔
    غور کیا جائے کہ دانشمندانہ حکمت عملی سے  مساجد کے حوالہ سے بہت سی احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی تھیں .
    ہماری صحت مندانہ روایات رہی ہیں کہ ماضی میں جب بھی کسی قدرتی یا غیر قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا تو مسجد سے وابستہ نوجوانوں نے اس میں بھرپور اور مؤثر کردار ادا کیا۔
    چونکہ ایک عرصے سے مساجد محض عبادت گاہیں تصور ہوتی ہیں اور ان کو سماجی کردار سے علیحدہ کردیا گیا اس لیے عمومی رائے میں وہ بحرانوں کے حل کے حوالہ سے غیر متعلق تصور ہوتی ہیں، بلکہ موجود حالات میں تو ان کو ہی طعن و تشنیع کا ھدف بنالیا گیا۔آزمائش اور ابتلا کے اس موقع پر بھی اگر قومی حکمت عملی کے تحت مساجد کو صحیح معنوں میں سماجی خدمت کا مرکز بنایا جاتا  تو شاید لاک ڈاؤن کی موجودہ صورت ہی نہ پیش آتی، حتی کہ وائرس زدہ افراد کی معلومات  حاصل کرنے اورانہیں علاج معالجے پر آمادہ کرنے سے لے کر امدادی سامان کی ترسیل تک مساجد بنیادی کردار ادا کرسکتی تھیں .(واضح قومی حکمت عملی نہ ہونے کی صورت میں یہی رجعت پسند عناصر امدادی سرگرمیوں کے نام پر اپنی سپلائی لائن کو از سر نو زندہ کرنے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں)
      اگر دیگر پبلک مقامات مثلا تجارتی مراکز ,ہسپتال اور عدالتیں طے شدہ حکمت عملی کے تحت مفاد عامہ کا کام کر رہی ہیں تو وسیع تر رہنمائی کے لیے مساجد کا بھرپور سماجی کردار تو سوسائٹی کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو سکتا تھا، مثلاً وائرس کے پھیلاؤ کے اسباب اور احتیاطی تدابیر کو دیکھا جائے تو اس وقت میں دین اسلام کی معقولیت اور حقانیت کو بہتر طریقے پر اجاگر کیا جا سکتا تھا.
    مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ سامراجی قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کرنے ،بھوک پیدا کرنے ،خوف وہیجان میں مبتلا کرنے، اور لوگوں سے ان کا یقین و ایمان متزلزل کرنے کی موجودہ استعماری حکمت عملی کی شعوری مزاحمت کی بجائے آلہ کار مذہبی طبقات اپنے آقاؤں کے حکم کے سامنے ایک بار  پھر ڈھیر نظر آتے ہیں.
     اس منظر نامہ میں حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری رح کی بات ذہن کو دستک دیتی ہے، فرماتے تھے کہ رجعت پسند مذہبی جماعتیں جب بھی اکٹھی کردی جائیں تو سمجھ لو کہ امریکہ کو اپنے مقاصد کے لیے ان کی ضرورت پیش آگئی ہے .
    Share via Whatsapp