کرونا وائرس اور ہمارا قومی ذہن
کرونا وایرس ایک بین الاقوامی مسلہ بن گیا ہے اور پاکستان بھی کرونا وایرسے متاثر ہو گیا ہے ہمارا قوی ذہن کیا ہے اوراس حالت میں قومی تقاضے کیا ہیں؟
کرونا وائرس اور ہمارا قومی ذہن
تحریر: بسم اللہ خان، لاہور
دنیا اس وقت کرونا وائرس سے نمٹنے میں مصروف ہے جسے وبائی مرض کا نام دیا گیا ہے۔ یہ حرام جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والی وائرل بیماری ہے۔
مبینہ طور پہ چین سے پھیلی خوف و ہراس کا باعث بننے والی یہ بیماری انسان کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے ۔
میری تحریر بحیثیت مسلمان ذمہ داری سے متعلق ہے.اسلام ہمیں انسان دوستی کا درست دیتا ھے اور بحیثیت مسلمان ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسی آفات اور حالات میں بلا رنگ،نسل، مذہب اور زبان کے انسانوں کی خدمت کریں اور جو بھی وسائل دستیاب ہوں ان کو معاشرے کی فلاح کے لیے استعمال کریں اور ہر فرد اور ہر ادارہ اپنا مثبت کردار اداکرے، خواہ ڈاکٹر ہو یا دکاندار ، وزیر ہو یا وزیراعظم ، سب لوگ اپنے شعبے میں خدمت کا جذبہ رکھیں. معاشرے کے تمام افراد کا نظریہ انسان دوستی کا نظریہ ہو
لیکن بدقسمتی سے جب بھی کوئی قدرتی آفت نازل ہوتی ہے. تو لوٹ مار کا آغاز کردیا جاتا ہے اور ایک اندھیر نگری قائم کردی جاتی ہے.
اس کے علاوہ بھی ، رمضان المبارک کا مہینہ ہو یا کوی خاص موقع تو بھی قیمتیں آسمان پے جا پہنچتی ہیں اور وطن عزیز میں زندگی کے ہر شعبے میں ایک مافیا سرگرم دکھائی دیتا ہے.
ابھی حالیہ کرونا بحران کو ہی دیکھ لیں ضروریات زندگی میں ایک خوفناک اضافہ دیکھنے کو ملا ہے.
لوگوں کو ماسک کی ضرورت پڑی تو دیکھتے ہی دیکھتے اس کی قیمت میں بیسیوں گنا اضافہ ہوگیا. ایک عام ماسک کی قیمت 5 روپے تھی تو کرونا کے آتے ہی شروع دنوں میں ماسک مارکیٹ میں سینکڑوں روپے میں فروخت ہونے لگا، سینیٹائزر جس کی قیمت 50 روپے ہوا کرتی تھی وہ آج سینکڑوں روپے میں فروخت ہورہے ھیں
دیگر اشیاء ضرورت کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کررہی ھیں
یہ تمام منظر نامہ اس امر کا واضح اظہار کرتا ہے کہ ہم میں قومی سوچ کا فقدان ہے، خدمت کا جذبہ ناپید ھے اور سرمایہ پرستی کی سوچ ہمارے ذہنوں پر قابو پا چکی ہے یہی وجہ ہے کہ ذخیرہ اندوزی عام ھے۔
آج ضرورت اس بات کی ھے کہ ہم ایک قومی اور انسان دوستی کی سوچ بےدار کریں اور سرمایہ پرستی کی سوچ سے نکلیں.
قوموں کی زندگی کا جائزہ لیں تو یہ فکر از خود وجود میں نہیں آجاتی۔ قومیں اپنا قومی نظام انسانی بنیادوں پر استوار کرتی ہیں ان کے ادارے اس فکر کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔چین کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ پوری قوم نے مل کر انسانیت کو درپیش اس وبائی چیلنج کا مقابلہ کیا اس دوران تمام قوم اور اس کے تمام ادارے ایک ہی پیج پر دکھائی دیے. انہوں نے اس چیلنج سے نپٹنے میں ایک فرد واحد کا کردار ادا کیا. لہذا آج پوری دنیا چین کی مثال دیتی ھے۔
ہم جیسے فرسودہ معاشروں سے قومی سوچ ناپید ہو چکی ہے جس مین بنیادی کردار نظام ظلم کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین جیسے نتائج ہمارے ہاں حاصل نہیں کیے جاسکے. اور اس مشکل مرحلے میں بھی ہم منتشر اور کنفیوز دکھائی دیتے ہیں
ایسے معاشروں میں قومی سوچ پیدا کرنے کے لیے پہلے درجے میں ایک جماعت کی ضرورت ہوتی ھے اور وہ جماعت اس شعور کی آبیاری کا فریضہ سرانجام دیتی ھے اور نوجوان نسل کی ہمنوائی سے سوسائٹی کے لیے ترقی پسند اور نفع بخش نظام کو تشکیل دینے کی جدوجہد کرتی ہے.
ہم خوش نصیب کہ ہمارے حقیقی دینی تصورات اور ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سیرت اس معا ملے میں ہمیں دوٹوک راہنمائی فراہم کرتی ہے کہ کس طرح ایک جماعت کی تشکیل سے عرب اور پھر پوری دنیا کی کایا پلٹ ممکن ہو سکی۔