خبر کا جبر اور ہماری ذمہ داری
بڑے بڑے ملکوں کا معاشی سیاسی اور سماجی ڈھانچہ لرزے کا شکار ہے۔آج ان کی ترقی پرسوال آٹھ رہے ہیں
خبر کا جبر اور ہماری ذمہ داری
تحریر: نعمان باقر نقوی، کراچی
دنیا اس وقت کرونا کے جبر سے نکلنےکی ہرممکن کوشش کر رہی ہے ۔ انتہائی پریشان کن صورتحال سے دوچار ہے۔ بڑے بڑے ملکوں کا معاشی،سیاسی اور سماجی ڈھانچہ لرزے کا شکار ہے۔ ان کی ترقی پرسوال اٹھ رہے ہیں۔ اس سارے ماجرائے عبرت میں ہمارے لیے ایک پیغام چھپا ہوا ہے۔ اس پیغام سے پہلے ہمیں اس کا تجزیہ ضرور کرنا چاہیے جسے ہم اپنے اردگرد موجود مؤثر ترین قوت جسے میڈیا کے نام سے جانتے ہیں۔ میڈیا میں ذرائع ابلاغ کے تمام دائرے شامل ہیں ۔
یہ ایک واضح حقیقت ہےکہ دنیا بھر میں پراکسیز(یعنی دوسروں کی لڑائی لڑنا) اب اکثر پرنٹ،الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر چلتی ہیں خبر سے جال بنا جاتا ہے اور ذہنوں کو الجھانے کا کام کیا جاتا ہے۔جسے اب ففتھ کالم وار بھی کہا جاتا ہے۔ اس انتشار کا فائدہ کسے ہوتا ہے؟ اور کیسے ہوتاہے؟اور دنیا میں اقوام اس سے کیسے نمٹتی ہیں؟ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔
ہمارے ذہنوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ خوف کے سائے گہرے ہورہے ہیں۔ جب کہ ہمیں احتیاط سے کام لینا اور قانون کی پابندی کرنی ہے۔ اس قانون کی پابندی میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو شک اور بے یقینی ہے ، وقتی اورگروہی مفادات ہیں۔ یہ صورت حال ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی۔ یہ قومی اور انسانی ہمدردی سے بےگانہ بین الاقوامی سرمایہ پرستانہ نظام کی دین ہے۔ جس کا کھوکھلا پن اب ہمارے سامنے آچکا ہے۔ اور اس کی نقالی میں ہم نے کبھی قومی مسائل پر غور اور ان کے حل کی جانب توجہ نہیں کی۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے پاس دنیا کے بہترین انسانی و قدرتی وسائل موجود ہیں۔ اور ان کی تنظیم کے لیے ایک اعلیٰ نظریہ موجود ہے جس پر عمل کرکے ہم نےبرعظیم ہندو پاک جیسے کثیر المذاہب اور کثیر القومی خطے کو متحد کیا اور اس کے وسائل کی تنظیم سے اسے سونے کی چڑیا بنادیا۔ عالمی انسانی اقدار کی بقا اور فروغ کو مقدم رکھا۔ جس کے نتیجے میں 850 سال حکومت کی ۔
اس خطے کی تقسیم کے بعد ہم نے اپنے قومی تقاضوں اور زمینی حقائق سے انحراف جاری رکھا ہوا ہے اور آج نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ چین کرونا کےشدید ترین حملے سے نمٹنے میں کیونکر کامیاب رہا،کیونکہ
1- وہاں پر ایک پارٹی نے زبردست جدوجہد سےقومی انقلاب برپا کیا۔
2- اس نے اپنا مکمل قومی نظام تشکیل دیا ہے۔
3- جو ایک قومی فکر کا ترجمان ہے۔
4- اس کے ذرائع ابلاغ قومی سوچ کے ترجمان ہیں۔
5- سوشل میڈیا کا مکمل قومی ڈھانچہ اس کے کنٹرول میں ہے۔
6- جدید تقاضوں سے ہم آہنگ قومی نظام تعلیم۔
یہی وجہ ہے کہ جو ذرائع ابلاغ ایسی خبریں پھیلارہے تھے کہ ووہان میں کرونا کے مریضوں کو گولی ماری جارہی ہے اور لوگ سڑکوں پر گررہے ہیں۔ یا لاک ڈاؤن انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
آج ساری دنیا چین کے گن گا رہی ہے اور اس کے تجربے سے استفادہ کرنا چاہ رہی ہے۔اب وہ ساری مغربی دنیا جو فرد کو اجتماع پر مقدم مانتی تھی وہ بھی اعتراف کر رہی ہے کہ اجتماعی حقوق کی ادائیگی ہی بقا و ارتقاء کا واحد سبب ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قومی و انسانی وسائل کی تنظیم اور ترقی کے لیے کام کریں ۔اس کے لیے لازم ہے کہ ہر سطح پر نوجوانوں کی صلاحیت کو فروغ دینے کا قومی نظام تشکیل دیا جائے۔سوشل میڈیا کے حوالے سے مناسب قانون سازی کی جائے اور اس کا ملکی و قومی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے۔اس کے لیے مستحکم حوالہ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سیرت کا روشن پہلو ہماری قومی اور اجتماعی زندگی کے لیے مشعل راہ ہے کہ آپ نے نوجوانوں کو منتخب کرکے عرب کی کایا پلٹ کردی۔