کرونا کی تشخیص: بنیادی احتیاط - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • کرونا کی تشخیص: بنیادی احتیاط

    جب سے یہ وائرس آیا ہے مختلف طریقوں سے سوشل میڈیا پر اس کا علاج جاری ہے، دم درود سے، دیسی ٹوٹکوں سے، دعائوں سے، احتیاطی تدابیر سے وغیرہ وغیرہ

    By عزمی گرافکس Published on Mar 09, 2020 Views 2181
    کرونا کی تشخیص: بنیادی احتیاط
     تحریر: جاوید عزمی چشتیاں

     کچھ عرصہ قبل میری ہمشیرہ علیل ہوگئیں، تشخیص سے معلوم ہوا کہ کینسر ہے۔ اب کیا ہوا جیسے ہی دوست احباب اور رشتہ داروں تک یہ خبر پہنچی تو بیماری کے ممکنہ معالجہ پر مشتمل مشوروں کا تانتہ بندھ گیا۔ فلاں بوٹی کو پیس کر استعمال کریں، فلاں جگہ سے دم کروا لیں، فلاں آیت میں اس کا علاج ہے غرض جتنے منہ اتنی باتیں اور پریشانی کے اس عالم میں کچھ باتوں پہ عمل بھی کیا لیکن کچھ مداوا نہ ہو سکا۔ بالآخر تھک ہار کر ہم نے ہمشیرہ کو انمول ہسپتال میں داخل کروا دیا اور یوں ان کا باقاعدہ علاج شروع ہوا، الحمدللہ اب ان کی حالت بہتر ہونا شروع ہوئی ہے۔ 
    کرونا وائرس کی وبا کی خبر آنے پر جس طرح ہمہ قسم کے معالج اور مشورہ دینے والے افراد سامنے آرہے ہیں مجھے اپنی ہمشیرہ کی بیماری پر اردگرد کے لوگوں کی طرف سے مشوروں کا وقت یاد آ گیا ہے۔ کرونا وائرس کے موجودہ مسئلے پر بھی ایسا ہی ہے کہ مختلف قسم کے لوگ منظر پر آ رہے ہیں اس میں مریض بھی ہیں اور نام نہاد ڈاکٹر بھی۔ اس ساری صورت حال میں پاکستان کا مسئلہ بڑا گھمبیر ہے یہاں اتنے مریض نہیں ہیں جتنے  ڈاکٹر ہیں۔ ویسے بھی ہمارے ہاں ایک عمومی ماحول ہے کہ آپ کسی کو اپنا مرض بتائیں تو فورا آپ کو اس مرض کے ممکنہ 101 علاج بتائے جائیں گے ۔ ہر مرض کا علاج یہاں کے لوگوں کے پاس موجود ہے۔ لیکن جب میری اس عظیم قوم کے سامنے لیڈر چننے کا معاملہ آتا ہے تو یہ ہمیشہ دھوکہ کھا جاتی ہے۔ ہر بار جب یہ نیا لیڈر منتخب کرتے ہیں تو کچھ عرصے بعد انہیں یہ خیال آتا ہے کہ اس سے پہلے والا ہی ٹھیک تھا اور تجربات پر مشتمل یہ تاریخ پچھلے 70 سال سے مسلسل دہرائی جا رہی ہے۔
    یہی صورتحال کرونا وائرس کی ہے، جب سے یہ وائرس آیا ہے سوشل میڈیا پر اس کا علاج جاری ہے، دم درود سے، دیسی ٹوٹکوں سے، دعاؤں سے، احتیاطی تدابیر سے۔ علاج تو اپنی جگہ، لوگوں نے فیس ماسک سٹاک کر لئے ہیں 140 روپے کا ڈبہ 1800 روپے میں فروخت ہو رہا ہے اور ملتا بھی سفارشوں سے ہے اللہ ہدایت دے میری قوم کو۔ کراچی میں کرونا وائرس کا ایک مریض منظرعام پر آیا تو ساتھ ہی سوشل میڈیا ڈاکٹرز بھی ایکٹو ہو گئے۔ دوسری طرف ہمسایہ ملک چین میں مرض کے سامنے آنے پر تجزیے کرتے ہوئے کچھ خود رو اور خود ساختہ دانشور اس موقف پر ڈٹے نظر آئے کہ چائنا پر اللہ کا عذاب آیا ہے کیونکہ وہ حرام جانور کھاتے ہیں۔ لیکن اگر اب عام آدمی یہ سوال کرے کہ ہم پر یہ عذاب کیوں آیا ہے؟ تو جواب دینا زرا مشکل ہو جائے گا۔
    دور موجود کا یہ بڑا المیہ ہے کہ بیماری کی تشخیص ماہرین شعبہ کی بجائے سوشل میڈیا کے صارف کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ظلم یہ ہے کہ یہ نام نہاد ماہرین نہ صرف تشخیص بلکہ الٹا سیدھا علاج بھی تجویز کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دعاؤں کی اہمیت اور تاثرات کو بھی صحیح تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دعا کا اثر بھی تدبیر سے ہوتا ہے۔ جیسے بھوک مٹانے کے لیے کھانا کھانے کی ضرورت ہے، فریش ہونے کے لیے نہانے اور پانی کی ضرورت ہے۔ اسی طرح دوا کے ساتھ ہی دعا کا اثر پیدا ہوتا ہے۔  بات کا مقصد یہ ہے کہ بیماری کی تشخیص اور علاج ماہرین شعبہ ہی کریں۔ ہم سب کو یہ طے کرنا ہو گا کہ صحت ہو یا نفسیات، مذہب ہو یا معاشرت، سیاست ہو یا معیشت ہمیں صرف ماہرین شعبہ کے تجربات پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔
    Share via Whatsapp