میڈیا اور سرمایہ دارانہ نظام
سرمایہ دارانہ نظام میڈیا کو بطور آلہ کار کے استعمال کرتا ہے اور معاشروں کے افراد کی اپنے مفادات کے تحت ذہن سازی کرتا ہے
تحریر: محمد اشفاق، لاہور
آج کے دور میں الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا جس میں انٹرنیٹ، ٹیلیویژن ، فیس بک، وٹس ایپ،انسٹا گرام، ٹک ٹاک، ٹویٹر، اخبارات اور خاص کر شوبز ورلڈ شامل ہے، بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور اس کے منفی اثرات نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ کسی بھی معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں میڈیا کے بہت گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ اس لیے ملٹی نیشنل کمپنیز اور سرمایہ دار طبقہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے میڈیا کو ہی اپنے آلہ کار کےطورپر بھر پوراستعمال کرتا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے یہ دلیل کافی ہے کہ ایڈورٹائیزمنٹ کی مد میں وہ بھاری سرمایہ کاری کر تے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان کمپنیز کا 60 سے 70 فیصد بجٹ مارکیٹنگ کے لیے مختص ہوتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے تحت چلنے والے یہ مختلف میڈیا گروپس ،افر اد کی ذہن سازی مخصوص ایجنڈے کے تحت کرتے ہیں ۔جس میں مذہب کا بھی خوب استعمال ہوتا ہے۔مثلا فلاں چائے پیؤ اور قرعہ اندازی میں شامل ہو کر عمرہ کی سعادت حاصل کرو۔ فلاں پراڈکٹ کااستعمال کرو اور ٹوکن کے ذریعے خدمت انسانیت کی فلاں سرگرمی میں شامل ہو جاؤ۔اسی طرح قوم کوشاٹ کٹ کے ذریعے پیسہ کمانے اور محنت کرنے سے کاٹ کربیکار بنانے کےلیے جوا، سٹہ کی طرز پر ایسے ایسے ٹی وی شوز چلائے جاتے ہیں کہ جس میں شامل ہو کر اوٹ پٹانگ اور لایعنی سی حرکتیں جن کو کھیل کا نام دیا جاتا ہے کریں اور پاکستان جیت کر لےجائیں۔ یعنی انسانی نفسیات کا منفی استعمال کر کےایک مخصوص ماحول پیدا کیا جاتا ہے ۔معاشرے میں موجود ہر عمر اور ہر طبقے اور گروپس کے لوگوں کو مصروف رکھنے کے لیے سرمایہ داراس میڈیا کے مختلف چینلز اور ذرائع استعمال کرتا ہے اور مخصوص ایجنڈے کے تحت ان کی ذہن سازی کرتا ہے۔گھریلو مسائل اور سوسائٹی کے دیگر مختلف موضوعات پر ڈرامے اور فلمیں تو بنائی جاتی ہیں لیکن ان مسائل کا نہ تو کوئی حل پیش کیاجاتا ہےاور نہ ہی ان مسائل کےاصل اسباب پر بات ہوتی ہے کہ یہ کیسے پیدا ہوئے۔
اسی طرح ہمارے ڈرامہ نگار اپنے ٹی وی ڈراموں کے ذریعے سے ساس اوربہو کےدرمیان نا چاقی،میاں بیوی کےجھگڑے اور پورے گھر کا ماحول ایسے دکھاتے ہیں کہ جس میں اپنے اپنے حقوق کی جنگ لڑی جا رہی ہوتی ہے۔ عورت کو اتنا مظلوم بنا کر دکھایاجاتا ہے کہ جو مرد کے رحم وکرم پر ہوتی ہے جیسے مرد کی غلام اور نوکرانی کے طور پر زندگی بسر کرتی ہے۔ اس طرح عورتوں میں یہ احساس پیدا کیا جاتا ہے کہ جس طرح سے یورپ میں عورتوں کو آزادی حاصل ہے ان کو بھی اسی طرح کی آزادی اور حقوق مانگنے چاہئیں۔ ہمارا میڈیا تصویر کا ایک رخ تو دکھاتا ہے دوسرا رخ نہیں دکھاتا کہ یورپ کس طرح عورت کو سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات اوراپنی پراڈکٹس کی مارکیٹنگ کے لیے اشتہارات میں استعمال کرتا ہے۔ اسے گھر کی محفوظ چار دیواری سے نکال کر باہر مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا کر کے جنسی تسکین کا ایک ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ اسے خاندان سے کاٹ کر بس اپنی ذاتی فیملی اور پھر آہستہ آہستہ اس سے بھی کاٹ کر تنہا کر دیا گیاہے۔اب تو بدقسمتی سے پاکستان میں بھی اولڈ ہاؤس بن گئے ہیں۔
اس طرح یہ سرمایہ دارملکی میڈیا کے ذریعے کمزور ملکوں کےسیاسی و معاشی معاملات میں بھی دخل اندازی کرتا ہے ان کے پے رولز پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں جو مذہبی راہنماؤں ، دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور بزنس کمیونٹی، موٹیویشنل سپیکرز وغیرہ کے طور پر اپنا اپنا چورن بیچتے ہیں۔ہمارے اینکر پرسنز اپنےٹاک شوز کے پر کشش ناموں کے بالکل برعکس کردار ادا کرتے ہیں۔ پروگرامز کولڑائی کا اکھاڑا بناکر عقل و دانش کی مت مارتے ہیں۔ ان تمام میں جو قدر مشترک ہوتی ہے وہ یہ کہ یہ شوباز قسم کے لوگ ملکی مسائل کے بنیادی اسباب میں افراد معاشرے کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔ اور پھر ان کے حل کے طورپر انفرادی اصلاح کے مشورے دیتے ہیں۔ نظام کی خرابی پربالکل بات نہیں کی جاتی۔ ہمارا نوجوان طبقہ اوسط تیرہ چودہ گھنٹے میڈیا کے ماحول میں وقت گزارتا ہے۔وہ جب ان مسائل پر بات چیت کرتا ہے تو مسائل پرکم اورمختلف شخصیات پر تنقید اور گالی گلوچ زیادہ کرتا ہے۔ عدم برداشت پوری قوم کے مزاج سے جھلکتی ہے۔
ہمارا خیال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کہ تمام سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل ہمارے پیارے وطن پاکستان میں رائج سرمایہ دارانہ نظام کے پیدا کردہ ہیں۔جب تک یہ نظام قائم رہے گا تب تک یہ مسائل موجود رہیں گے۔ اس لیے نوجوانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ شخصیات اور پارٹیوں پر تنقید میں وقت ضائع کرنے کے بجائےنظام کی خرابیوں پر غوروفکر کریں اور اسے تبدیل کرنے کا شعور حاصل کریں۔