کمپنیوں کی ترقی میں انفرادیت پسندی کا کردار
انسانی تاریخ شاہد ہے کہ کس طرح سے انسانیت پر ظلم کرنے میں جاگیردایت اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے۔کیسے ایک جاگیردار اپنے مزارع کی غمی، خوشی،اس کی سماجی
کمپنیوں کی ترقی میں انفرادیت پسندی کا کردار
تحریر : اویس میر، راولپنڈی
انسانی تاریخ شاہد ہے کہ کس طرح انسانیت پر ظلم کرنےمیں جاگیردایت اپنا کردارادا کرتی رہی ہے۔کیسے ایک جاگیردار اپنے مزارع کی غمی، خوشی،اس کی سماجی ترقی و تنزلی غرض یہ کہ اس کے جینے اور مرنے کے ہر معاملے میں اثر انداز ہوتا تھا۔ جس کی کچھ باقیات ابھی بھی ہمیں ملتی ہیں۔ مشین کی ایجاد کے بعد اس جاگیرداریت نے ترقی کی اور اپنے ارتقاء کے سفر کے بعد سرمایہ داریت کا روپ دھار لیا۔ اب اس جاگیردار نے اپنے آپ کو منظم کر کے ایک مضبوط سرمایہ پرست کی شکل اپنا لی ہے۔ اپنے سرمایہ کو بڑھانے کے لیے جوکہ اصل میں اس کی طاقت اور مقصد تھا اس نے مربوط ڈیجیٹل غلامی کو متعارف کرانے کے لیے کمپنیاں بنانے کا آغاز کیا۔ اگر آپ غور کریں تو انسانیت کے استحصال میں اس نے جاگیرداریت سے زیادہ گھناؤنا کردار ادا کیاہے۔ سرمایہ داریت نے تو عجیب ہی کھیل کھیلا۔ ایک تو ملازمین کا پڑھا لکھاہونا ضروری ہے دوسراخوش لباس بھی ہو اور بروقت اپنے کام پر بھی پہنچے۔ ورنہ ان کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ آٹھ سے نو گھنٹے دورانیہ کام کا کہہ کر دس سے بارہ گھنٹے کام کرایا جاتا ہےاور اگر اس میں آفس یا کمپنی آنے کی تیاری اور آنے جانے کے سفر کا وقت بھی شامل کریں تو ایک شخص روز کے بارہ سے چودہ گھنٹے اس کمپنی کو دیتا ہے۔ یعنی ایک انسان اپنی زندگی کا بیشتر حصہ کمپنی کو دے دیتا ہے، یعنی پہلے تو ایک شخص اپنی اچھی تعلیم پر اپنے ماں باپ کا اچھا خاصا خرچہ کراتا ہے اور پھر اس قابل ہوتا ہے کہ وہ کہیں ملازمت کر سکے اور پھر اس کا آنے جانے پر سفری اخراجات، کھانا پینا اور رہائش کا بھی انتظام اسے خود ہی کرنا ہے۔ یہ سب کچھ وہ کس لیے کر رہا ہے صرف اور صرف ایک سرمایہ پرستانہ ذہنیت کے حامل اس مالک یا چند لوگوں کے گروہ کے لیے جن کا سرمایہ دن بدن دوگنا چوگنا ہوتا جا رہا ہے اور اس کا مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی تمام تنخواہ خرچ ہو چکی ہوتی ہے۔
سرمایہ داریت کے فلسفے میں یہ بات طے ہے کہ محنت کرنے والے طبقے کو محض25% حصہ دینا ہے لیکن ہمارے جیسے ملک میں جہاں کسی کو کوئی پوچھنے والا نہیں تو یہ حصہ کم ہو کر صرف2.5% پرآجاتا ہے اور سب اس کو بخوبی جانتے بھی ہیں۔ کمپنی کو قانونی تحفظ دینے کے لیے" تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ نظام" کو متعارف کرایا گیا ہےاور اس کو بنانے اور چلانے والے بھی انہی کمپنی مالکان میں سے ہی افراد ہوتے ہیں۔ آج کی اس ڈیجیٹل غلامی میں سب سے زیادہ خطرناک کردار اسی کا ہے۔
اس نظام کے ہوتے ہوئے کوئی بھی شخص سکون میں نہیں ہے اور وجہ یہ ہے کہ اس کو کسی بھی وقت شارٹ نوٹس پر اس کی ملازمت سے برخاست کیا جا سکتا ہے چاہے اس کی ملازمت کا دورانیہ کتنے ہی برس پر محیط کیوں نہ ہواور اس بات کا وہ قانونی پابند ہوتا ہے، کیونکہ اس نے اپنی مرضی سے اس ڈاکومنٹ پردستخط کر کے جمع کرایا ہوتا ہے۔اور کیوں نہ کراتا، اسے اس کے علاوہ نوکری ہی نہ ملتی۔بات یہیں تک نہیں رہی اب تو ہمارے ملک میں موجود کمپنیوں میں جو لوگ مستقل ملازم ہوتے ہیں ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہورہا ہے ، کیونکہ کسی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو کوئی پوچھنے والا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں غربت کا اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن اس سرمایہ داری نظام کا کمال دیکھیں کہ جہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ محنت کش طبقے کی معاشی حالت ابتری کا شکار ہو رہی ہے وہیں جتنی بھی مشہور و معروف ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں ہیں ان کے سرمایہ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ان کی اس ترقی میں ہمارا ایک سماجی رویہ ان کی چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے سپورٹ کر رہا ہے۔
جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے اپنے ارد گردمحلے میں، خاندان میں، مسجدمیں، سکول کالج و یونیورسٹی، ڈراموں اور اخبارات غرض کہ ہر طرف سے ایک ہی بات سنی ہے کہ بس اپنا سوچو،اپنی فکر کرو۔یہ ایک قومی جملہ بلکہ اسے اب ہماری “قومی سوچ” کہنا بھی غلط نہ ہو گا۔ اب اگر آپ ہماری اس سوچ کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو ہماری اس سوچ نے ہمیں سیاسی،مذہبی اور سماجی غرض کہ زندگی کے ہر شعبہ میں ہی زوال کی جانب دھکیلا ہے۔کیسے دھکیلا ہے یہ ابھی موضوع بحث نہیں ہے۔ہماری اس سوچ نے ان کمپنیوں کی ترقی میں بھی اہم کردار اس طرح سے ادا کیا ہے کہ جو جتنا زیادہ انفرادیت پسند ہو گا،صرف اپنا سوچتا ہو گا وہ اتنا ہی اوپر جائے گا۔ایک منیجر کو اپنی کارکردگی بہتر دکھانے کےلیے اپنی ہی ٹیم سے چار سے پانچ لوگوں کو نکالنا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ ان لوگوں کو نکالنے کے بعد باقی بچ جانے والے لوگوں کو دوگنا کام کرنا پڑے گا اوراس سےان کی سماجی زندگی متأثرہوگی اورجنھیں نکال رہا ہےان کاکیا ہوگا ؟ لیکن پھر بھی وہ ایسا کرے گااور اسے آج کے دور میں “کاسٹ کٹنگ “ کہا جاتا ہے اور ایسے منیجر کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔
اسی طرح اگر اس کے شعبہ سے یا اس کے ساتھ والے شعبے سے کسی کو بلا وجہ نکال دیا جاتا ہے تو اس ظلم کے خلاف کوئی بھی آواز نہیں اُٹھاتاہے۔ کیونکہ ہر ایک کو اپنی ملازمت کی فکر پڑ جاتی ہے اور ہر کوئی یہی سوچ کر اگلے دن مزید دل جوئی سے کام پر آتا ہے کہ میں تو بچ گیا ہوں مجھے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مجھے تو صرف اپنی اور اپنے متعلقہ شعبے کی فکر کرنی چاہیے۔ اسی طرح آپ ہی کی ٹیم میں سے ایک یا دو لوگوں کو ترقی دی جاتی ہے یا کسی کی تنخواہ بڑھا دی جاتی ہے تو اُسے کہا جاتا ہے کہ کسی کو بتانا نہیں ہے ورنہ آپ کے لیے مسئلہ بنے گا۔ ہر بندہ اسی سوچ سے خاموش رہتا ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو اس کےلیے مسئلہ بنے گااور یہی انفرادی سوچ اسے جھوٹ بولنے اور خاموش رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ جبکہ وہ جانتا ہے کہ یہ اس کے ساتھ والے کا استحصال ہے اوراس کا حق مارا جا رہا ہے مگر وہ خاموش رہنے میں ہی عافیت جانتا ہے اور اس کا فائدہ اوپر بیٹھے چند سرمایہ پرستانہ ذہنیت کے مالکوں کو ہوتا ہے اور ہم چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی ان کو فائدہ پہنچانے میں استعمال ہوتے ہیں ۔ایک وقت آتا ہے کہ ہمیں بھی لات مارکر نکال دیا جاتا ہے۔
آج اس بات کی ضرورت و اہمیت میں اس لیے بھی اضافہ ہو گیا ہے کہ عوام میں اب مزید معاشی پستی کی جانب جانے کی ہمت و طاقت نہیں ہے۔اس لیے ہمیں اس انفرادیت پسندی کی سوچ کو چھوڑ کر اجتماعی سوچ کی جانب بڑھنا ہوگا اوراپنے جائز حقوق کے حصول کےلیے شعوری جدوجہد کا آغاز کرنا ہو گا، اورایک ایسے سفرکاآغازکرناہوگاجس میں اپنے حقوق کے حصول کےساتھ ساتھ دوسروں کےحقوق کا بھی تحفظ کیاجاسکے ۔