ہمارے مسائل کی جڑ اور اس کا حل
ہمارے جتنے بھی مسائل ہیں اگر ان پر غور کیا جائے تو وہ سب ہمارے حکومتی نظام سے پیدا کیے گئے ہیں ان سب کا حل سماجی تبدیلی کی صورت میں ممکن ہے.
ہمارے مسائل کی جڑ اور ان کا حل
تحریر: طاہر شوکت، لاہور
تحریر: طاہر شوکت، لاہور
آج کے دور میں ہر شخص زندگی سے نالاں نظر آتا ہے۔ وہ اپنے حالات سےمطمئن نہیں ہے۔اس کے سامنے مسائل کی ایک لمبی داستان ہے۔مہنگائی کی شکایت شروع ہوتی ہےتو روٹی کپڑامکان سے ہوتا ہوا ناانصافی پرآجاتا ہے.لالچ رشوت حرص سے آغاز کرتا ہے تو کرپشن سے ہوتا ہواحکومت سے بائیکاٹ کرتا نظر آتا ہے۔ کہیں دھرنوں کی باتیں ہو رہی ہیں تو کہیں گھر کے خرچے پورے نہ ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں. آج ہمارے ملک کا شاید کوئی ایسا شخص ہو گا جو پر سکون زندگی کے مزے لے رہا ہو گا لیکن ایسا خال خال نظر آئے گا. ہماری داستان کو یوں بھی بیان کیا جاتا ہے.ہے حکمران پریشاں, عوام ہے نالاں زندگی سےہر کوئی ہے کاٹنے کو ہے اپنا ناطہ زندگی سےاس کے ساتھ تشویش ناک بات جو نظر آتی ہے وہ یہ کہ کوئی بھی شخص اس کو سنجیدہ طریقے سے حل کرنے کا نام نہیں لے رہا ۔سب کی زباں پہ جاری ہے. یہ زندگی فانی ہے اس زندگی کو مشکلات سے گزار لو۔ آخرت میں آپ کو سکون ہی سکون ملے گا۔ لیکن اگر وہاں بھی ایسا ہوا تو کیا ہو گا۔آج تو گھبراکےیہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گےمر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گےآج نوجوان نسل کےلیے سوچنے کی ضرورت ہے کہ آج جو ہمارے مسائل ہیں کیا یہ ہمیشہ سے ہیں یا ان کو پیدا کیا گیا ہے. انسانی تاریخ میں کہیں اس سے قبل بھی ایسے مسائل آئے تھے یا نہیں. اگر کہیں در پیش آئے تو انہوں نے اس کےلیے کیا حل نکالا اور کس حد تک کامیاب ہوئے. اگر ایک سے زائد مرتبہ ایسا ہوا ہے تو سب سے بہترین حل ہمیں کہاں ملتا ہے اور آیا کہ وہ حل جس نے ماضی کے ان مسائل کو حل کیا تھا وہ آج کے دور کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے. اگر ہم بات کریں کہ ہمارے مسائل کا کیا حل نکلے گا تو اس کا بہترین طریقہ کار یہی ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ یہ مسائل کیسے پیدا ہوئے ہیں تو پھر کہیں جا کر ہم اس قابل ہو سکتے ہیں کہ ان کا حل تلاش کر سکیں۔ اس کے حل کا بہترین طریقہ یہ ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے اور دیکھا جائے کہ یہ حالات پہلے کہیں پیدا ہوئے تھے.اگر ہم انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں بارہا دیکھنے کو ملے گا کہ یہ مسائل انسانیت کے ہر دور میں آتے رہے ہیں. اب اگر اس کے حل کی طرف توجہ دی جائے تو پتا چلتا ہے کہ ہر دور میں ان مسائل کا حل نکالا گیا اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں. اگر ہم بات کریں کہ انہوں نے اس کا کیا حل نکالا تھا تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہر دور کے مسائل میں قدرمشترک پائی جاتی ہے تاہم ہردور میں ان مسائل کی نوعیت مختلف رہی ہے۔ہمیں تاریخ میں ملتا ہے کہ یہ مسائل اس وقت پیدا ہونا شروع ہوئے جب انسانوں کے ایک گروہ نے دوسرے انسانوں پر زبر دستی قابض ہونا شروع کیا تو اس کے نتیجے میں مظلوموں نے جب بدلہ لینا چاہا تو یہ ظالم طبقہ ان کا دگنا نقصان کرنے پر تل جاتاہے اور اس شرپسند قوت کو نظام سے مدد ملتی ہےاس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مسائل محض ہماری انفرادی زندگی کی پیداوار نہیں بلکہ مناسب حکومتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے ہیں.اس لیےاگر ہم اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں اپنی انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ حکومتی نظام کو بھی درست کرنا ہو گا کیونکہ ایک مسئلہ جہاں سے پیدا ہوتا ہے اس کا حل بھی وہیں سے ہی نکلتا ہے ۔ بس زرا سوچنے کی ضرورت ہے.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنا حکومتی نظام کیسے درست کریں. اب ہمارا فرض ہےاس کے بارے میں سوچنا ،جیسے ہم اپنے گھریلو مسائل کے حل کےلیے سنجیدہ ہوتے ہیں اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ ہمیں اپنے ملکی مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی سے کام لینے کی ضرورت ہے. کیونکہ ہمارے تمام مسائل اس وقت تک حل نہ ہو پائیں گے جب تک ہمارا حکومتی نظام درست نہ ہو گا.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ" وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے. "اب اگر ہم اپنے حکومتی نظام پر غور کریں تو اس کا نام تو اسلامی نظام ہے لیکن ستر سالوں سے کوئی بھی کام اسلام کے مطابق نہیں ہوا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا حکومتی نظام اسلامی ہے ہی نہیں اس کی روح اور عمل سرمایہ داری نظام کی ہے۔ صرف نام اسلامی رکھا ہوا ہے ایسا کام کوئی بھی نہیں جس سے ثابت ہو کہ یہ اسلامی نظام ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اسلامی نظام حکومت ہو جس کی بنیاد ریاست مدینہ کی شکل میں رکھی گئی تھی تو ہم کو سب سے پہلے ریاست مدینہ کے بارے میں مطالعہ کرنا ہو گا کہ اس کی بنیاد جن لوگوں نے رکھی تھی ان کا اور ان کے ساتھیوں کا کردار کیسا تھا. کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ محض لیڈر کے بدلنے سے کہیں پر دنیا میں حکومتی نظام تبدیل ہوا ہو ایسا تو نہیں ہے۔آج ہمیں دنیا میں رائج معاشی نظام کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے. پھر ان سب نظاموں سے بہتر نظام نافذ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے.ایسا نظام اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک ہم ایک ایسی جماعت نہ بنائیں جو ایک آزاد سوچ کی حامل ہو اور اس کے ہر کارکن میں اتنی صلاحیت ہو کہ وہ دنیا کے طور طریقے اور سامراجی طاقتوں کی چالوں کو سمجھتا ہو۔اس جماعت میں درج ذیل خصوصیات لازمی ہونی چاہییں.١. مرکزی قیادت .۲.ایک نظریہ اور اس پر جماعت سازی٣.اس کے ہر کارکن کا کردار معاشرے کےلیے مثالی ہونا چاہیے.٤.اپنے کارکنوں کی تربیت کا جدید سے جدید اور بہتر سے بہتر تعلیمی نظام بنانا.٥.اصولوں کی پابندی اور نظم و ضبط کی پاسداری.٦.معاشی طور پر مکمل آزاد ہو.٧.معاشرے کو در پیش مسائل اور ان کے حل کےلیے ایک انسان دوست نظام یا حکمت عملی موجود ہو.سورۃ العصر میں اللہ تعالی نے ایسی جماعت کے بارے میں فرمایا١.ایمان یعنی کامیابی پر یقین رکھتے ہیں۲.نیک اعمال کرتے ہیں٣.حق اور سچی بات کی باہم تلقین کرتے ہیں٤.اگر کوئی تکلیف پہنچے تو باہم صبر کی تلقین کرتے ہیں.اب ہمیں اپنی ملکی جماعتوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ملک میں کیا کوئی ایسی جماعت ہے ؟ جس میں یہ خوبیاں موجود ہوں. اگر نہیں ہے، تو اس ملک کے باشندوں پر یہ لازم ہو جاتا ہے کہ وہ ایسی سچی ، مخلص جماعت کی تلاش کریں اگر نہ ملے تو تاریخ کا مطالعہ کریں اور ایسی جماعت سازی کی جدوجہد کریں. یہ کام مشکل اور صبر آزما ضرور ہوتا ہے لیکن ناممکن نہیں.ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا ۔وہ کون سا عقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا ،معاشروں میں سماجی تبدیلیاں ایسے ہی آیا کرتی ہیں. اس کے بغیر کوئی اور چارہ نہیں ہے.اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح شعور ، بلند ھمتی اور فکر فردا عطاء کرے، اور درست نظریہ اور اس پر حکمت عملی قائم کرنے کی توفیق عطاء کرے. آمین!