معاشرتی ترقی اور تعلیمی تقسیم کے اسباب
مضبوط و منظم سماجی ڈھانچے کے لئے تعلیمی نظام کا اجتماعی فکرو نظریہ پر ہونا انتہائی ضروری ہے جو اسے دیگر سماجی دائروں سے باہم ملائے۔
معاشرتی ترقی اور تعلیمی تقسیم کے اسباب
تحریر: عبدالرحمن سندھی، کراچی
انسانی معاشرے کے مختلف ارتقائی مراحل ہوتے ہیں وہ اپنی تمدنی زندگی سے آغاز کرتا ہوا بین الاقوامی زندگی کی طرف سفر کرتا ہے۔ انسان کی جسمانی ساخت ہو یا اس کی معاشرتی زندگی، تمام دائروں میں اس کی نشوونما کا ایک فطری عمل ہےاگر ذہنی نشوونما کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بات کی جائے تو ابتدائی درجے میں یہ گھر، خاندان اور تعلیمی اداروں سے ہوتے ہوئے عملاً معاشرے میں نظر آئے گی۔ گویا تعلیم و تربیت کا عملی نتیجہ انسانی معاشرتی زندگی میں فکری ارتقا ہے جس کے نتیجے میں اس کی تمدنی زندگی میں بھی ترقی کا سفر جاری رہتا ہے۔
انسانی معاشروں میں تعلیم وتربیت کی ذمہ داری زیادہ تر تعلیمی ادارے سرانجام دیتے ہیں جہاں سے تربیت پانے والا فرد ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، منصف، حکومت وقت کا سربراہ یا کم از کم معاشرے کا ایک مفید شہری بنتا ہے۔ گویا تعلیم کے ذریعے فرد کو معاشرے کاایک کارآمد رکن بنایا جاتا ہے یوں تعلیم و تربیت کے راستے فرد کی ترقی سے معاشرہ ترقی کرتا ہے۔
ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے والے فرد کا معاشرتی ترقی میں کوئی کردار نہیں اسی طرح ثانوی درجہ میں آنے کے بعد طلبا میں معمولی سی بھی صلاحیت کا اضافہ ہو نہیں پاتا اور پھر وہ مزید تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میں گومگو کا شکار ہو جاتے ہیں طلبا کی ایک کم تعداد ، اعلی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے کالج اور یونیورسٹیز کا رخ تو ضرور کرتی ہے لیکن ڈگری لینے کے بعد اکثریت کی امید اور آس ایک اچھی نوکری کا حصول ہوتا ہے گویا ساری جدوجہد کا مقصد صرف ملازمت ہوتی ہے۔
در اصل انسانی معاشرے میں اس سوچ کے رجحان کا سبب معاشی طبقاتیت ہے۔ گویا سماج میں جتنے معاشی طبقات موجود ہوں گےاتنی ہی معاشی کشمکش ان میں موجود رہے گی اور تمدنی زندگی میں ترقی یا تنزلی کا عمل بایں وجہ بتدریج جاری رہے گا۔ سماجی ترقی کے لیے فرد کی ذہنی نشوونما کیوں ضروری ہے؟ اس ذہنی نشوونما کا سماجی زندگی سے کیا تعلق ہے؟ کیاسیاسی و معاشی حالات ذہنی نشوونما اور اس کی تربیت کے عمل میں حائل ہیں؟
ان سوالات کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ،ہمارے ہاں معاشی کشمکش کے تعلیمی طبقات اسی بنا پر موجود ہیں جبکہ مختلف فرقوں اور مسلکوں کے تعلیمی ادارے بھی تعلیمی تقسیم اور طبقاتیت کی ایک شکل ہیں۔ مختلف قومی تعلیمی پالیسی منصوبوں اور مقاصد میں یہی بات پیش نظر رہی ہے کہ ایک قومی نظام تعلیم کیسے وضع کیا جائے؟ غور طلب بات یہ ہےکہ کیا تعلیم کی مذکورہ بنیادوں پہ تقسیم کے ذریعے ہمیں گھر سماج اور شہر کا مطلوبہ مفید رکن مل سکے گا؟ ایسا فرد جو منتشر و بے یقین نہ ہو،اپنے مستقبل کا درست ادراک رکھتا ہو اور آنے والے زمانے میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنے اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔!
بات یہ ہے کہ رائج نظام تعلیم کے ذریعے ہم میں انفرادیت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اجتماعیت سے عاری فرد کی جدوجہد کا سارا محور اپنی ذات ہوتی ہے۔ اس سے آگے کا وہ سوچتا تک نہیں۔
آج تعلیمی بحث و مباحثے کا بنیادی موضوع تعلیمی تکنیک، نظم و نسق و انصرام اور تعلیمی نفسیات ہے۔ ہمارے پیش نظر یہ بات نہیں ہوتی کہ افراد کو مفید شہری بنانے کے لیے تعلیم کو بنیادی اجتماعی فکر پر مرتب کریں جو معاشرے میں مختلف انفرادی اختلافات کو باہم مربوط کرکے ان میں اجتماعی ترقی کی سوچ اور امنگ پیدا کرے۔
آج معاشرے میں تعلیمی تقسیم کی بنیادی وجہ یہی فکری تقسیم ہے جو مفید شہری بنانے کے راستے میں رکاوٹ ہے۔اسی لیے مضبوط و منظم سماجی ڈھانچے کے لیے تعلیمی نظام کا اجتماعی فکرو نظریہ پر ہونا انتہائی ضروری ہے جو اسے دیگر سماجی دائروں سے باہم مربوط کرے ورنہ یہ ذہنی وفکری تقسیم معاشرے میں افراتفری کو جنم دے گی اور وہ معاشرے کو تیزی سے پستی وتنزلی کی طرف لے جائے گی۔ تعلیمی نظام تقیسم کی بنیاد پر ہونے کے سبب سماج کی کڑیاں سماج کو باہم مربوط کرنے کی بجائے تنزلی کا باعث اور ترقی میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہےکہ ہم اپنے نظام تعلیم کا ازسر نو جاٸزہ لیں نیز اس کی تقسیم کے تاریخی عوامل پر غور کر کے اسے درست قومی و انسانی بنیادوں پر مرتب کریں تاکہ معاشرہ مکمل اجتماعی طور پر ترقی کرسکے۔