حکومتی اداروں کابے ترتیب عمل
حکومتی ادارے عوامی تحفظ کی علامت ہوتے ہیں۔اداروں کے منفی کردار کے سبب ان کی ساکھ ختم ہوجاتی ہے۔ اوریہ عوامی اعتماد کھو دیتے ہیں۔
حکومتی اداروں کابےترتیب عمل
تحریر: رشید احمد چوہدری، ملتان
حکومت کا عوام سے تعلق اس کے قائم کردہ اداروں کے ذریعے ہوتا ہے۔ ان اداروں کا حقیقی تصور یہ ہے کہ وہ عوامی مفادات کا تحفظ یقینی بناتے ہیں۔ ان اداروں کےفعال کردار سے عوام میں تحفظ کا احساس رہتا ہے۔ جس کے سبب معاشرے کے بیمارنفسیات کےحامل افراد کو کھل کھیلنےکاموقع نہیں ملتا۔
وطن عزیز پاکستان میں بھی بہت سے ادارے موجود ہیں۔غور یہ کرنا ہے
کہ پاکستان میں موجودحکومتی ادارے تحفظ کی علامت ہیں یا خوف کی۔معاشی سرگرمیوں میں معاونت کرتے ہیں یا مشکلات کھڑی کردیتے ہیں۔عوام الناس میں جوعمومی تأ ثرات پائے جاتے ہیں تو تین مقامات تھانہ(ادارہ امن )، کچہری(ادارہ انصاف)، ہسپتال(ادارہ صحت) سے تو ہر کوئی پناہ مانگتا ہےکہ اللہ کرے ان سے کبھی واسطہ نہ پڑے۔ حالانکہ یہ تینوں جگہیں وہ ہیں جو معاشرے کے تحفظ میں بنیادی اور اہم کردار اداکرتی ہیں۔ اس مضمون میں چندمشاہدات کی بنیاد پرصرف دو اداروں پر بات کی گئی ہے۔ ایک پولیس ، دوسرا خوراک کا معیار چیک کرنے والاادارہ ۔
ایک شہری بیچ شہر میں اپنی کار پر جارہاہے۔جس میں ایک خاندان سوار ہے۔ دوسری طرف سے ایک ٹرک آتاہے اور اس کار سے ٹکراتا ہواساتھ کھڑے ایک ڈالے سے ٹکراکر رک جاتا ہے۔ کار کے ایک طرف کے شیشے ٹوٹ جاتے ہیں اور اس کی باڈی کو شدیدنقصان پہنچتا ہے۔ ٹرک کسی مال بردار کمپنی کا ہے۔ ٹرک کا ڈرائیور کمپنی کے مالک کو بلاتا ہے۔ اب کار اور ٹرک مالکان کے مابین بات چیت شروع ہوتی ہے کہ کس طرح نقصان کی تلافی ہو۔ کچھ ہی دیر کے بعد ایک ٹاؤٹ نمودار ہوتا ہے۔ جو ٹرک اڈوں کی تمام مال بردار کمپنیوں کی ٹاؤٹی کا کردار ادا کرتا ہے۔اور اسی کام کی تنخواہ (بھتہ ) لیتا ہے۔ اس طرح کے لوگوں کو اس لیے رکھا جاتا ہے تاکہ معاملہ طاقت اور بدمعاشی کی بنیادپر رفع دفع کیا جائےاور اگر معاملہ پولیس میں جاتا ہےتو وہاں بھی اسی کو آگے کیا جاتا ہے۔ اب ٹرک مالک موقع سے چلاجاتاہے۔جو بات دو معزز شہریوں کے درمیان چل رہی تھی۔اس میں یہ ٹاؤٹ فریق بن جاتاہے۔ کارمالک اپنے نقصان کا مداوا چاہتا ہے۔ ٹاؤٹ اسے ایک حادثہ کہہ کر بات ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اطلاع کرنے پرپولیس بھی آجاتی ہے۔ طے یہ ہوتا ہے کہ اس معاملے کو تھانے (پولیس اسٹیشن )جاکر حل کیا جائے۔ تھانے میں جا کر ٹاؤٹ اپنی بدن بولی سے یہ ظاہر کرتا ہےجیسے وہ اپنے گھر میں آگیا ہے۔ ایک اچھے معاشرے میں حکومتی ادارے کمزور کی پشت پر کھڑے ہوتے ہیں اور ان کی طاقت ہوتے ہیں ۔ یہاں تھانیدار اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے یہ کہہ کر گھر چلاجاتا ہے کہ جب معاملا ت طے ہوجائیں تومجھے اطلا ع کردی جائے۔ اب تھانیدار کا مقام ٹاؤٹ کو حاصل ہوجاتا ہے۔وہ تھانےکی کرسی پہ بیٹھ کر یہ کردار ادا کرتا ہے۔عام پولیس کانسٹیبل اس کے آگے پیچھے اس رویے کا اظہار کرتے ہیں جیسے وہ اپنےافسر کے سامنےکرتے ہیں۔کیوں کہ عام شہری کے مقابلےپر وہ حاوی ہے۔ اب ٹاؤٹ اپنی شرائط پر معاملہ طے کروانے کی کوشش کرتا ہے اور اسی پر اصرارکرتا ہے۔ٹاؤٹ اپنی گفتگو میں شہر کے سیاسی ، مذہبی ، مالدار (بڑے بڑے معزز )لوگوں کے نام لے کر تعلقات کا رعب بھی دوران گفتگو ڈالتا رہتا ہے۔کار والی فیملی نسبتا مضبوط ہے تو وہ نقصان کا بہتر معاوضہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ڈالے والا اپنی کمزور پوزیشن کی بنیاد پر اپنے نقصان کا ازالہ نہ کرواسکا۔ یہ اندرون شہر کے تھانےکا معاملہ ہےتو دیہاتوں کی صورتحال کیاہوتی ہوگی؟ جہاں پولیس کے ساتھ زمیندار اور جاگیردار کا گٹھ جوڑ ہوجاتا ہے۔ اور دوسری طرف کسان کا کمزور خاندان ہوتا ہے۔
اسی طرح ایک اور خودمختار ادارہ ہےجو خوراک کے معیار کو چیک کرتا ہے۔ عوام کو معیاری اور صحت افزا خوراک مہیا کرنا حکومت کی اہم ذمہ داریوں میں سے ہوتا ہے۔ خوراک کے نام پہ عوا م کو غیر معیاری اور ناقص اشیا کھلانا بہت بھیانک جرم ہے۔ بالخصو ص ایک ایسے ملک میں جہاں مصنوعی بیج سے پیدوار اور پھر غیر معیاری غذا اور پھر بیمار ہونے کے صورت میں جعلی ادویات سے عوام کی زندگی کوسکیڑدیا گیاہے۔پاکستان میں خوراک کا معیار چیک کرنے والے ادارے کی دہشت بھی چار سو پھیلی ہوئی ہے۔ اس پہ بھی ایک مشاہدے کے تناظر میں ذکر کروں گا۔ کسی بھی قسم کے کھانے پینے کی اشیاء بنانے اور فروخت کرنے والےافراداس ادارے کےدائرہ کار میں آتے ہیں۔محلے میں ایک فیکٹری ہےجو کھانے پینے کی عام اشیاء تیار کرتی ہے۔ ایسی اشیاء عموما گلی محلے کے پرچون کی دکانوں پر ملتی ہیں۔محلے کے لوگ بھی انہی سے لے کر استعمال کرتےتھے۔متعلقہ ادارے کے لوگ ان کے پاس آتے تھے اورہدایات دیتے تھے۔ جن پر یہ عمل کرتے رہے۔ پھر ایک دن اس ادارے کی بہت سی گاڑیاں آئیں جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ معلوم ہوا کہ جی ڈائریکٹر صاحب آرہے ہیں ۔ جن کی آمد کا تصور اس فیکٹری والوں کے لیے کسی ڈان سے کم نہیں تھا۔ کئی گھنٹوں کے عمل کے بعد فیکٹری کے ناقص انتظامات اور غیر معیاری گھی کی بنیاد پہ اسے سیل کردیا گیا۔
جنوبی پنجاب میں قائم اس فیکٹری کےمالک کو لاہور طلب کرلیاگیا۔ جہاں ایک ہفتے کی تاریخ دی گئی ۔ ایک ہفتہ بعد بھاری جرمانہ کیاگیا۔ دوسرے ہفتے سیل فیکٹری کھولنے کی اجازت دی گئی اور فیکٹری چلانے سے پہلے انتظامات درست کرنےکی ہدایات ملیں۔اسی دوران سیل شدہ ناقص مٹیریل ٹھکانے لگانےکاعمل شروع ہوا۔جس میں ناقص خوردنی تیل کو ہٹانےکا حکم دیا گیا۔یہاں ایک اور مافیا سامنے آتا ہے۔ادارے کا حکم ہے کہ صرف ان کی مقرر کردہ کمپنی کو ہی تیل فروخت کرناہے۔جو لاکھوں روپےکا تیل چند ہزار میں خریدتی ہے اور پھر اندرون خانہ سودے بازی کرکے لاکھوں میں بیچ بھی دیتی ہےجو گھوم پھرکر عوام کے پیٹ میں ہی جاتاہے۔فیکٹری مالک کو اجازت نہیں کہ وہ تیل اسی کمپنی کو واپس کرے جس سے خریدا ہے۔نہ ہی ادارہ اس کمپنی کے خلاف کوئی کاروائی کرتا ہے جو ایسا تیل بناتی ہے ۔ایسے ہی عام دکانداروں کو بھاری جرمانے کیے جاتے ہیں۔حالانکہ دکاندار تو خود کسی منڈی یا کارخانہ دار سے مال خریدتا ہے ۔ یہ عمل بالکل اس طرح ہےجیسے نشہ کرنے والو ں پر تو ہاتھ ڈالا جاتا ہے۔ لیکن نشے کا کاروبار کرنے والے مافیا پر نہیں جو خود بڑے بڑے مقتدر اداروں کے رکن بن کر ملک کی وزارتوں پر بھی براجمان ہوجاتے ہیں ۔موجودہ حکومت کے مطابق وہ اپنی گاڑیوں میں ڈرگز لے کرگھومتے رہے ہیں ۔
اسی طرح تیار شدہ مال کو تلف کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ عملہ بوریاں اٹھاکر پھینکنے کے لیے گیا توساتھ میں بستی کے غریب لوگ بھی جمع ہوگئے ۔بوریاں پلٹی گئیں تو مٹی اور دھول بھی اس میں شامل ہوگئی۔ پھر بھی وہاں بڑوں اور بچوں نے نہ صرف یہ کہ اسے وہاں سے اٹھایا بلکہ اسے وہیں کھایا بھی۔ ایسا لگ رہاتھا کہ عوام خوراک کے ادارے کی اتھارٹی اس کے منہ پر مل رہے ہیں ۔ کہ تم معیاری بات کرتے ہوہم میں تو اس کے بھی حصول کی سکت نہیں ۔ جب یہ خوراک مہنگے خوردنی آئل میں بننے لگے گی تو مزید مہنگی ہوجائے گی تو کیسے کھائیں گے؟
ان اداروں میں تعلیم یافتہ لوگ بھی ہوتے ہیں ان کی توجہ اپنی عوام کی اس حالت زار کی طرف نہیں جاتی کہ عوام ایسی ناقص اشیا کھانے پر کیوں مجبور ہیں
تیسر ے ہفتے انتظا ر شروع ہوا کہ ٹیم آئے اور کام کرنےکی اجازت دے یوں یہ ہفتہ بھی گزر جاتا ہے۔ چوتھے ہفتےیعنی تقریبا ایک ماہ مکمل ہونے پر ،جائزہ لے کر کام کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس ایک ماہ کے دوران فیکٹری مالک کو چھوڑ کرتقریبا 10خاندان متاثر ہوتے ہیں ۔ یعنی یہاں کے دس ملازم دس خاندانوں کی کفالت کرتے ہیں۔ ان کو ایک ماہ کام نہیں ملتا۔ وہ روزانہ صبح کو آتے ہیں اور انتظار کرکے چلے جاتے ہیں ۔ ان کی مالی صورتحال تو یہ ہوتی ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پراشیاء خوردو نوش خریدنےکی بمشکل سکت رکھتے ہیں۔اس ایک ماہ میں ان کا کون ذمہ دارتھا؟ عمدہ خوراک تو دور کی بات ایسی حالت میں یہ لوگ سستی اور ناقص خوراک خریدنے کی اہلیت بھی کھودیتے ہیں۔ایک ماہ کے بعد تو چھوٹے کارخانہ دار کی مالی حالت بھی جواب دے چکی ہوتی ہے۔
کیا یہ تمام معاملات ان خو د مختار اداروں کے پیش نظر ہوتے ہیں۔کیا وہ اتنی گہرائی میں جاکر سوچتے ہیں ؟ دراصل سرمایہ داری نظام کی حقیقت یہی ہے کہ بظاہر ایک طرف فائدہ دکھاکر دوسری طرف عوامی مفادات کو تباہ کیاجاتا ہے۔ ایک طبقہ اوپرجاتاہےکئی تباہ ہوجاتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف چھوٹے تاجر طبقہ میں یہ تأثر پنپ رہا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے مقامی کاروبار کرنے والوں پر سختی کی جارہی ہے تو ایسے میں ان حکومتی اداروں کی کیاساکھ باقی رہ جاتی ہے۔ پھر ان اداروں کے نتائج کیا ہیں۔ مثلا ہر شہر میں تجاوزات کے خلاف آپریشن ہوتا ہے لیکن تجاوزات بڑھتی جارہی ہیں ۔ کیونکہ تجاوزات ختم کرنے والی میونسپلٹی میں اس کاجائزہ ہی نہیں لیاجاتا کہ ان کو متبادل روزگار کیسےمہیا کرناہے ۔اسی طرح خوراک کامعیار چیک کرنے والے ادارے کو جائزہ لینا چاہیے کہ کیا صحت کے معیارات بہتر ہو رہے ہیں۔بیمارہونے کی شرح میں کتنی کمی ہوئی ہے؟اگر نہیں تو یہ سب عمل دکھلاوے کے سوا کچھ نہیں ۔