شعور آزادی - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • شعور آزادی

    انسانی محنت اور عظمت کی اساس پر معاشرتی تشکیل اورآزادی و شعور کے ساتھ درست اقدار پر قائم رہنے کی تعلیم و تربیت حاصل کرنا وقت کی اھم ضرورت ھے۔

    By محمد شفیق تنولی Published on Jan 16, 2020 Views 2477
    شعورِ آزادی
    تحریر: شفیق تنولی۔ کراچی

    جس طرح ایک فرد  غلامی قبول کرنے کے بعد اپنی سوچ، ارادے، عمل کا مالک و مختار نہیں رہتا اور اس کا قول و فعل اور خوشی و غم سب اس کے آقا و مالک کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ھوتے ھیں۔ اسی طرح جب اقوام اپنی آزادی کھو کر غلامی قبول کرلیتی ہیں تو وہ اپنی اجتماعی زندگی گزارنے کے اصول،اپنے معاشی فیصلے  اپنی آزاد قومی رائے، قومی امنگوں کے مطابق پالیسیاں اور اپنی اقدار پر مبنی معاشرہ قائم کرنے کا اختیار کھو بیٹھتی ہیں۔
     تقسیم کرو اور حکومت کرو  کی کارگرسامراجی حکمت عملی کے تحت قومی و ریاستی اداروں، جماعتوں، گروہوں کی علیحدہ راہوں اور منزلوں کا  تعین کرکے خوش نما نعروں کے ذریعے تقسیم در تقسیم کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ھے۔ "  تاکہ بہ وقتِ ضرورت ان کو استعمال کر کے وسائل پر قبضے کے نظام کو مستحکم رکھا جا سکے۔
    نتیجتاًسوسائٹی میں  تمام وسائل، طاقت، عزت اور اختیار کا مرکز صرف  چند طبقے بن جاتے ہیں جب کہ عوام الناس اپنے حقوق سے محروم ھو جاتے ھیں۔ جذباتیت، عدم برداشت، اور خوشامد جیسی اقدار پروان چڑھتی ھیں اور قانون کی حکمرانی عدل و مساوات ہمدردی، رواداری، اور سچائی جیسی بنیادی اقدار صرف کتابوں میں لکھی ناقابلِ عمل اور بے جان حروف بن کر رہ جاتی ھیں۔ ہرسمت انتشار و گروہیت، عدم استحکام، معاشی بدحالی، خوف کی فضا قائم ہو جاتی ہے اور اپنی ذات، نسل اور گروہ کے فائدے کے لیے زندہ رہنے کو ہی انسانی شرف سمجھا جاتا ھے۔
    نوجوان اپنی بقاء، اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے اور جان مال عزت آبرو  کے تحفظ اور طاقت و اختیار میں شرکت کے لیے تعلیم، مذہب، سیاست، تجارت، قانون، انصاف، صحت، رنگ، نسل، زبان کے نام پر قائم انجمنوں اور ایسوسی ایشنوں میں شمولیت اختیار کرنے لگتے ھیں جبکہ بین الاقوامی طاقتیں ان اداروں کوقومی نظام میں پریشر گروپس کے طور پر استعمال کرکے نوجوانوں کی طاقت و قوت کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کےلیے استعمال کرنےلگتی ھیں۔
    ایسے حالات میں قوم کے حقیقی راہنماؤں اور صاحبِ علم و بصیرت طبقہ پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نوجوانوں کو غور و فکر کی دعوت دیں۔ جہالت و تاریکی کے دبیز پردوں میں لپٹی سسکتی انسانیت اور آزادی کو شعور اور حکمت کے ذریعے آشکاراکریں۔
     مذہب، جمہوریت اور انسا نی حقوق کے نام پر قائم سرمایہ داریت کے بتوں اور دیوتاؤں پر سوالات اٹھانا سکھلائیں۔ مقدس دیوتاؤں کی آڑ میں بین الاقوامی کھلاڑیوں کی بچھائی گئی اقتدار کی بساط پر سیاسی و مذہبی  پنڈتوں کی شیطانی چالوں کو سمجھنے کا علم، شعور و حکمت عملی سکھائیں۔
     ذہنی و جسمانی مشقت سے نالاں نوجوانوں کو انسانی محنت اور عظمت  کی اساس پر معاشرتی صورت گری کی تعلیم و تربیت دیں۔ انہیں باور کرائیں کہ انسان عیش و آرام کےلیے نہیں بلکہ دنیا کی تسخیر کے لیے پیدا کیا گیا ھے۔ 
    محض زندہ رہنا کافی نہیں بلکہ آزادی اور شعور کے ساتھ درست اور متوازن اقدار پر  قائم رہ کر با مقصد زندگی گزارنا زیادہ اھم ھے۔
    Share via Whatsapp