قوموں کی ارتقائی تحریک کا مطالعہ، تاریخ کی روشنی میں - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • قوموں کی ارتقائی تحریک کا مطالعہ، تاریخ کی روشنی میں

    تاریخ کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ قوموں کی آزادی کا سارا راز سامری کی جادوگری کو سمجھنے میں ہی پوشیدہ ہے ۔ ہمیشہ نیا جال پرانے شکاری لاتے رہتے ہیں۔

    By نعمان باقر Published on Dec 28, 2019 Views 1786
    قوموں کی ارتقائی تحریک کا مطالعہ، تاریخ کی روشنی میں۔
    تحریر: نعمان باقر نقوی، کراچی۔
     
    امریکی انتخابی نظام میں روسی مداخلت کی خبروں نےصدر ٹرمپ کی تحریک مواخذہ کی شکل اختیار کی اور اس کے ساتھ ہی امریکی عالمی بالادستی کے نظام کے بوسیدہ اور کھوکھلا ہونےکا پول بھی ہمیشہ کی طرح کھل کر سامنے آیا۔
     ان کی ترقی اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کا نظام اور اس کے تضادات کا اگر جائزہ لیا جائے تو شاعرانہ اسلوب میں :  
    "الجھاہےپاؤں یارکازلف درازمیں
    آپ اپنے دام میں صیاد آگیا "
    کی صورت حال سامنے آتی ہے۔ 

    ہم اپنی دانش کے تناظرمیں تاریخ کی ورق گردانی کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ انسانی ہمیشہ اس بات کو واضح کرتی رہی ہے کہ قوموں کی زندگی میں نشأۃ ثانیہ کے لیے ان کا فکر و فلسفہ بنیادی اہمیت رکھتا ہےاور ہر قوم کی قومی فکراورجمہوری روایات کی بنیاد پر ہی وہاں کا نظام تشکیل پاتا ہے۔اس کے ساتھ ہم اس حقیقت سےبھی نظریں نہیں چراسکتے کہ مغرب کی اندھی تقلید اور نقالی نے آج ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ 
    تاریخ کو سطحی بنیادوں پہ دیکھنےکی روش نے ہمیں جس فکری گرداب میں مبتلا کر رکھا ہے وہ ہماری تاریخ  کا افسوس ناک پہلو ہے ۔  
      درست زاویہ نگاہ یہ ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کو ٹھوس اور پائیدار بنیادوں پہ پرکھاجائے ۔البتہ ذہنی غلامی کے شکارافراد ہمیشہ ذاتی اورگروہی مفادات کےتناظر میں اپنی غلطی ، کوتاہ بینی ، شعور اور فکری پستی کو بلندی افکار سے موسوم کرنے کے لیے زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے سطحی اورجذباتی نعروں کو فروغ دیتے ہیں ۔ اور گروہیت ، طبقاتیت پر مبنی نظام کو سہارا دینے کی کاوشیں کرتے ہیں جو تاریخ میں ان کی ناکامی کا عنوان ٹھہرتی ہیں ۔ 
     
    تاریخ فرعون کی ناکامی کا ذمہ دار اگر ایک جانب سرمایہ پرست، خود غرض اورگروہی مفادات کے فکر پر مبنی نظام کو قرار دیتی ہے تو دوسری جانب عصائے موسوی کے بجائے میدان تیہ میں نئی نسل کی غلامی سے آزاد ماحول میں پرورش کو لازمی  قرار دےرہی ہے۔ 
       قوموں کی زندگی میں حقیقی کامیابی کے لیے پہلا قدم فرعونی نظام سے برأت اور اگلا قدم غلامی سے نجات کی جانب اٹھانےکا ہے ۔ یوں انسانی تاریخ اپنا سب سے اہم سوال سوچنے والے ذہنوں کےلیےجو مرتب کرتی ہے 
    وہ یہ کہ موسی علیہ السلام کی  کمزور جماعت اہرام مصر بنانے والے زبردست شہنشاہی نظام کو شکست کیونکر دے سکی ؟۔ 
    اور تاریخ کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ ان کی آزادی کا سارا راز سامری کی جادوگری کو سمجھنے میں ہی پوشیدہ ہے ۔

     ہمیشہ نیا جال پرانے شکاری لاتے رہتے ہیں۔ لیکن آزادی رائے اور حریت فکر کے متوالے بیکار بحثوں کے بجائے اپنی صلاحیتوں کو اپنے فکر کی سماجی سیاسی معاشی تشکیل کے پہلوؤں پر مبنی نظام کی صورت گری کے لیے وقف کرتے ہیں۔ یوں محض اقتدار کی رسمی تبدیلی کے بجائے ایک ایسا نظام قائم ہوتا ہے، جس کی جڑیں قومی تاریخ میں پیوست ہوتی ہیں اور وہ قومی امنگوں کا ترجمان ہوتا ہے۔اس کی بقا و ارتقا کی ذمہ دار اجتماعیت فکری استعداد کی حامل اور قومی مسائل کا جامع حل اپنے پیش نظر رکھتی ہے۔
     یاد رکھیے! آج بھی قوموں کی ترقی کا راز اسی میں ہی مضمر ہے ۔
    Share via Whatsapp